امریکہ اور ایران: اب کیا ہوگا؟

ڈی اصغر

سال نو کے غالبا دوسرے روز ہی مشرق وسطی سے ایک پریشان کن خبر نے سب کو چونکا دیا۔ عراق میں ایک میزائیل کے حملے میں عراقی جرنیل مہندس اور ان کے ہم عصر ایرانی جرنیل قاسم سلیمانی، اس میں جاں بحق ہوئے۔امریکہ سرکار کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کی ذمے داری قبول کی اور اس بات پر خصوصی زور دیا کہ ان کا اصل ہدف ایرانی جرنیل قاسم سلیمانی تھے۔ بقول ان کے جنرل سلیمانی نے مشرق وسطی میں امریکی مفادات کو کافی نقصان پہنچایا تھا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ، ابھی اس حملے کی خبر بمشکل ہضم کی جا رہی تھی، کہ ہمارا اور دیگر عالمی میڈیا متحرک ہو گیا، یہ خوف بیچنے کے لئیے کہ یہ سال 2020 ایک انتہائ خوفناک سال ہوگا۔ سونے پر سہاگہ، سوشل میڈیا نے بھی تیسری جنگ عظیم تک کے بگل بجا دئیے۔ بندے کا عالمی سیاست پر نہ تو کوئی برسہا برس کا مطالعہ ہے اور نہ ہی کوئی خصوصی اعزاز یا تجربہ۔ پھر بھی ایک عام ادنی اور معمولی طالب علم ہونے کے ناطے بندہ اس بات پر قائل ہے کہ، خوف و ہراس کی یہ کھچڑی شہ سرخیاں اور ٹکرز کی طرف آنکھیں مبذول کروانے کو بیچی جا رہی ہیں۔نہ تو کوئی تیسری جنگ عظیم ہونے والی ہے اور نہ ہی امریکہ اب ایران پر حملہ آور ہوگا۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکہ نے ایران میں مصدق کی حکومت ختم کروا کے اور شاہ ایران کو وہاں مسلط کروایا۔ اس کے بعد امریکہ کا اثر و رسوخ اس ملک پر کچھ دہائیوں پر محیط رہا۔ ستر کی دہائی میں انقلاب ایران برپا ہوا اور شاہ ایران معزول ہو کر در بدر ہوا۔ ایران اور امریکہ کی مخاصمت اس وقت سے کھلم کھلا ہے۔

اتنے برس گزر جانے کے بعد، صدر اوبامہ کے دور میں ایران کا ایک معاہدہ ہوا جس میں اس کی جوہری توانائی کے حصول کو کچھ ضوابط سے مشروط کر دیا گیا۔ دنیا نے اس پر سکون کا سانس لیا تھا کہ اب ان دونوں ممالک کے درمیان، مفاہمت کی طرف پیش رفت ہوگی۔ صدر ٹرمپ نے صدارتی آفس میں آتے ہی، اس معاہدے سے انحراف کیا اور یوں ایران کو پھر جارحانہ انداز اپنانے پر مجبور کردیا۔

ایران کا مشرق وسطی کے ممالک میں ایک مخصوص اثر و رسوخ ہے۔ خواہ وہ چند خلیجی ریاستیں ہوں، عراق ہو، شام ہو یا لبنان۔ ایران اور سعودی عرب کی آپسی مخاصمت تو زمانہ قدیم سے زبان زد خاص و عام ہے۔ ادھر اسرائیل بھی ایران کے عزائم پر مستقل تنقید کرتا ہے اور اسے اپنا دشمن اول تصور کرتا ہے۔

ایسے پیچیدہ منظر نامے میں یہ تاثر بیچا جانا کہ امریکہ اب ایران پر براہ راست جنگ مسلط کردے گا۔ کیونکہ امریکہ ایک عرصے سے ایران میں اقتدار کی تبدیلی کا خواہاں ہیں۔امریکہ وہاں مذہبی مکتبہ فکر کی حکومت نہیں دیکھنا چاہتا اور یہ چاہتا ہے کہ کوئی شاہ کی طرح کی امریکہ کی حامی حکومت وہاں موجود ہو۔

امریکہ کی عراق میں مداخلت ایک اور قصہ ہے اور اس پر مزید لکھا جا سکتا ہے۔ فی الحال موضوع بحث ایران پر مرکوز رکھتے ہوئے اسے موخر کئے دیتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران کی حکومت کو اس کی عوام کی واضح اکثریت حاصل ہے۔ لیکن وہی عوام معاشی طور پر شدید دباو میں ہیں۔  امریکہ کی ایران پر اقتصادی پابندیوں کے باعث، وہاں عوام کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ایسے میں کسی بھی ممکنہ جنگ میں ایران کی معاشی حالت بد سے بدتر ہوگی اور اس کے لئیے خود کو یکجا رکھنا سخت مشکل۔

دوسری جانب امریکہ جہاں عراق اور افغانستان سے مکمل انخلا چاہتا ہے وہاں اپنی افواج کو ایران میں داخل کرنے کی غلطی نہیں دہرائے گا۔ صدر ٹرمپ کا انتخابی نعرہ بھی یہی تھا کہ ان کے پیشرو، دنیا کی جنگوں میں امریکہ کو زبردستی گھسیٹتے رہے ہیں۔ جس سے امریکی عوام براہ راست متاثر ہوئ ہے۔بطور صدر وہ امریکی افواج کو ان تمام مقامات سے گھر واپس لا کر رہیں گے۔

آج جب صدر ٹرمپ کی عوامی مقبولیت گر رہی ہے۔اس سال نومبر میں انہیں دوبارہ صدارتی انتخاب بھی لڑنا ہے۔صدر ٹرمپ کا امریکی دارلعوام میں مواخذہ بھی ہو چکا ہے۔ ابھی اسی مواخذے کی تحریک کو امریکی ایوان بالا میں بھی منظوری کے لئیے پیش ہونا ہے۔ جہاں ان کی بچت متوقع ہے، کیونکہ ان کی جماعت کو وہاں اکثریت حاصل ہے۔ ان تمام منفی اثرات سے توجہ ہٹانے کے لئیے غالبا صدر ٹرمپ نے اس اقدام کو اس موقع پر کیا ہے۔ 

میڈیا اور سوشل میڈیا کی حد تک صدر ٹرمپ کا انداز ایران کے شدید خلاف اور جارحانہ ہے۔ادھر ایران نے بھی جنرل سلیمانی کی ہلاکت کا بھر پور انتقام لینے کا عندیہ دیا ہے۔لیکن اس تمام گرم ہوا کے باوجود، جو دونوں جانب سے زوروں پر ہے، قیاس یہی ہے کہ کہیں نہ کہیں اس میں ٹھہراو لایا جائے گا۔ امریکہ کے مخالفین میں روس اور چین اس کے لئیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ لیکن نہ تو روس اور نہ ہی چین براہ راست اس تنازعے میں کودیں گے۔ گو ایران کی طرف سے ان سطور کے رقم ہونے تک، مشرق وسطی میں واقع امریکی دفاعی تنصیبات پر راکٹ حملے جاری اور ساری ہیں۔

دفاعی تجزیہ نگار کچھ بھی خطرے کے پاپڑ بیچیں۔ لیکن عین ممکن ہے کہ جھڑپیں ہوتی رہیں گی۔ جواب در جواب ہوگا اور پھر کہیں نہ کہیں، عقل اور شعور  اپنا رستہ بنائیں گے اور کسی نہ کسی طرح اس سلسلے کو روکا جائے گا۔صدر ٹرمپ کو اپنی انتخابی تقریروں میں خود کو سخت گیر لیڈر ثابت کرنے کے واسطے مواد مل جائے گا اور قیاس یہی ہے کہ موصوف دوبارہ با آسانی صدر منتخب ہو جائیں گے۔ رہی بات ایران کی، تو اس میں مذہبی حکومت کی تبدیلی کسی جنگ کی وساطت سے نہیں، بلکہ وہاں ہر عوام کے ردعمل اور کسی شدید اور پرزور عوامی مزاحمت اور تحریک سے ہی ممکن ہے۔

♥    

Comments are closed.