سکندر حسین
وقت کے ساتھ ساتھ امپائر بھی ” کھوچل” ہو گیا ہے، اس دفعہ دو مختلف برانڈز کی شکل میں پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت اپنے پاس ہی رکھی ہوئی ہے۔ وزیراعظم کے ساتھ اپوزیشن لیڈر بھی اپنا ہی بھرتی کررکھا ہے جو موقع سے فرار ہے تاکہ حکومت باآسانی اپنی وارداتیں ڈالتی رہے اور عوام کے حق میں بولنے کے لیے کوئی بھی نہ ہو۔ اب بلاول بھٹو ہی پارلیمنٹ میں عوام کی حقوق کی بات کررہا ہے اور بھوک سے سسکتے ہوئے لوگوں کے حق میں آواز بلند کررہا ہے۔
سنہ2018 کا الیکشن دراصل 1997 کے الیکشن کا ” پُنر جنم ” تھا جس میں پیپلزپارٹی کو 17 نشستوں تک محدود کرکے امپائر کی اس وقت کی جماعت (مسلم لیگ نواز ) کو کُھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کِیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ باؤ جی نے پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران ہی حامد میر اور محمد مالک سمیت پانچ بڑے صحافیوں کو اگلے چند ماہ میں وزیراعظم بننے کی خوشخبری سنادی تھی۔
آج چونکہ زمانہ بدل چُکا ہے، پہلے کی طرح جھُرلو پھیر کر کسی ایک جماعت کو دو تہائی اکثریت دینا ممکن نہیں اس لیے امپائر اپنی جماعت کو دو مختلف شکلوں میں سامنے لایا ہے، جس کا ثبوت خاموش ٹویٹر اور باؤ جی کو قانون کا بلاتکار کرکے دی جانے والی رعایتیں ہیں۔،
اس صورتحال میں پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر کا کردار بلاول کو ہی ادا کرنا ہوگا اور وہ کررہا ہے۔ کیونکہ بلاول ہی عوام کا نمائندہ ہے باقی سارا مال امپائر کا ہے۔ پی ٹی آئی ہو یا ن لیگ، جے یو آئی ہو یا ایم کیو ایم، یہ سب امپائر کے علاقائی نما ئندے ہیں ، یہ سب وہ اینٹ اور روڑے ہیں جنہیں اکٹھا کرکے بھان متی کا کنبہ جوڑا جاتا ہے۔
پیپلزپارٹی کے ایم این ایز اس وقت اپنا کردار اچھے انداز میں نبھا رہے ہیں ، سلیکٹیڈ ٹولے کی چھترول بھی خوب کرتے ہیں ، اور پارلیمنٹ میں موجود لُچے لفنگوں کو وقت آنے پہ لگام بھی ڈال دیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلاول اسمبلی کے ہر اجلاس میں شرکت کرے، اور عوام کے حق کے لیے بولے، کیونکہ اس ڈرامے میں اپوزیشن لیڈر کا رول جس کو دیا گیا تھا وہ لندن میں ہوا خوری کرنے گیا ہوا ہے۔
یہی موقع ہے کہ بلاول یہ ثابت کردے کہ وہی عوام کا نمائندہ ہے، اور وہی عوام کی آواز ہے۔،