میلانیا ٹرمپ کی اروند کجریوال کے سکولوں میں دلچسبی

دورہ بھارت کے دوران امریکی خاتون اول میلانیا ٹرمپ دہلی کے سرکاری اسکولوں میں مشہور ہیپی نیس کلاس دیکھنے پہنچ گئیں۔ انہوں نے ہیپی نیس کلاس کے دوران طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ بات چیت کی اور اس طریقہ کار کا بغور مشاہدہ کیا۔

میلانیا ٹرمپ نے ایک سرکاری اسکول میں ہیپی نیس کلاس کا دورہ کرنے کے دوران طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ بات چیت کی اور اس کے طریقہ کار کا مشاہدہ کیا۔

دہلی میں اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی حکومت نے جولائی سن2018 میں ہیپی نیس کلاسوں یعنی خوشیوں کی کلاس کا آغاز کیا تھا۔ اس کی شہرت اب بھارت سے نکل کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل گئی ہے۔

کیا ہے خوشیوں کی کلاس؟

نئی دہلی حکومت نے نرسری سے آٹھویں درجہ تک کے بچوں کو تناؤ سے دور رکھنے کے لیے ہیپی نیس نصاب شروع کیا تھا۔ اس میں اسکول شروع ہونے کے بعد پہلے پیریڈ میں 45 منٹ تک بچوں کی ہیپی نیس یا مسرت پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس میں انہیں خوش رہنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ انہیں کلاس میں معلوماتی اور اخلاقی کہانیاں سنائی جاتی ہیں اور بچوں کو کسی بھی موضوع پر خود سے غورو فکر کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اس وقت ایک ہزار سے زائد اسکولوں کے تقریباً آٹھ لاکھ طلبہ اور اکیس ہزار اساتذہ ہیپی نیس کلاسوں سے وابستہ ہیں۔

تبیتوں کے روحانی پیشوا نوبل انعام یافتہ دلائی لامہ نے ہیپی نیس کلاس کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے طلبہ کو جسمانی اور ذہنی دونوں لحاظ سے فائدہ ہوگا۔

کلاس کے تین حصے

ہیپی نیس نصاب کے تین حصے ہیں۔ مائنڈ فل نیس، اسٹوری ٹیلنگ اور ایکٹی ویٹی۔ دہلی حکومت میں محکمہ تعلیم کے پرنسپل ایڈوائزر شلیندر شرما کا کہنا ہے کہ مائنڈفل نیس، مراقبہ کی ہی ایک قسم ہے،’’ہم بچوں سے عام طور پر کہتے ہیں کہ دھیان سے پڑھو اور توجہ سے بات سنو لیکن جب دماغ میں ایک ساتھ بہت ساری چیزیں چل رہی ہوں تو توجہ مرکوز کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ہم ان کلاسوں میں بچوں کو توجہ مرکوز کرنے کا طریقہ سکھاتے ہیں۔‘‘۔

 شلیندر شرما کے بقول سٹوری ٹیلنگ یعنی قصہ گوئی میں کہانی سنانے کے بعد یہ نہیں پوچھا جاتا ہے کہ اس سے کیا سبق ملا بلکہ ٹیچر بچوں سے ہی کہانی پر تبادلہ خیال کراتے ہیں۔ اس میں تمام بچوں کوشامل کیا جاتا ہے اور بچے خود یہ بتاتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ اس سے بچوں کو سوچنے اور اظہار رائے کا موقع ملتا ہے۔

 شلیندر شرما  کہتے ہیں کہ تیسرے حصے ایکٹی ویٹی یعنی سرگرمیوں کے ذریعہ سیکھنا، میں بچوں کو اپنے آس پاس کی دنیا کو جاننے کا مواقعے دیے جاتے ہیں،’’ ہم بچوں سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے آس پاس کون کون ہیں، جو آپ کو بہتر طور پر زندگی گزارنے میں مدد کر رہے ہیں۔ اسی طرح بچوں سے یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ آپ کی کلاس میں، جس بچے سے آپ کی دوستی نہیں ہے اس کی کوئی ایک اچھی بات کیا ہے؟ اس طرح بچہ مثبت انداز میں سوچتا ہے‘‘۔

دہلی کے سرکاری اسکولوں میں مثبت تبدیلی لانے میں اہم رول ادا کرنے والی رکن اسمبلی آتشی کا کہنا ہے،”ہیپی نیس نصاب کی وجہ سے بچوں میں خود اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے اور اب بچوں کا فوکس زیادہ واضح ہو گیا ہے۔“۔

بچو ں میں نمایاں تبدیلی

ہیپی نیس کلاس میں شامل ہونے والے بچوں کے رویوں میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ دہلی کے نائب وزیر اعلی منیش سسودیا نے اس حوالے سے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”ایک ماں نے انہیں بتایا کہ اس کے بچے کا رویہ بدل گیا ہے۔ وہ پہلے گھر آتا تھا تو اس کا رویہ نہایت مایوس کن رہتا تھا لیکن اب جب میں اسے کھانا دیتی ہے، تو پوچھتا ہے کہ آپ کے لیے کھانا بچا ہے یا نہیں؟ وہ صرف پوچھتا ہی نہیں بلکہ کچن میں جا کر چیک بھی کرتا ہے“۔

منیش سسودیا کہتے ہیں، ”تیرہ چودہ برس کی عمر تک بچوں کے جذبات انتہائی غیر مستحکم ہوتے ہیں اور اس عمر میں ان کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اسی لیے ہم نے ہیپی نیس کلاسوں کا آغاز کیا۔ اس طرح کا تجربہ ہمیں بھارت اور دنیا میں کسی دوسری جگہ دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔ اس لیے ہم نے بھارت میں انسانیت کے فلسفہ کی بنیاد پر اس کا نصاب تیار کیا۔ یہ ہماری کامیابی ہے کہ بچے حساس بن رہے ہیں اور وہ اپنے آس پاس کی دنیا کو بہتر بنانے پر توجہ دے رہے ہیں“۔

DW

Comments are closed.