اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں افغانستان میں ہلاک اور زخمی ہونے والے عام شہریوں کی تعداد ایک لاکھ رہی۔
اکیس فروری کو اقوام متحدہ کے افغانستان کے لیے معاون مشن کی جانب سے یہ رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ یہ ادارہ افغانستان میں گزشتہ اٹھارہ برسوں سے جاری جنگ میں عام شہریوں کو پہنچنے والے جانی نقصان کی تفصیلات جمع کرتا ہے۔ یہ رپورٹ ایک ایسے موقع پر جاری کی گئی ہے، جب امریکا اور طالبان کے درمیان سات روز کے لیے ‘تشدد میں کمی‘ کے ایک معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز ہوا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ امریکا اور طالبان رواں ماہ کی 29 تاریخ کو افغان امن معاہدے پر دستخط کر سکتے ہیں۔
افغانستان کے لیے خصوصی عالمی نمائندے تادامیچی یاماموتو کے مطابق، ”افغانستان میں جاری تشدد کے اثرات سے کوئی عام شہری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پایا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا، ”افغانستان میں متحارب تمام گروپوں کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ لڑائی ختم کریں اور امن کے قیام کی کوشش کریں۔ عام شہریوں کی زندگی کو ہر حال میں تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے“۔
اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس تین ہزار چار سو ترانوے افغان شہری ہلاک اور چھ ہزار نو سو نواسی زخمی ہوئے۔ ان میں سے چند اسلامک اسٹیٹ کی کارروائیوں کا نشانہ بنے جب کہ زیادہ تک عام شہریوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کے درپردہ طالبان، افغان فورسز اور امریکی عسکری کارروائیاں تھیں۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کے حملوں میں ہونے والے جانی نقصان میں سن 2013 سے 2018 تک کے کسی بھی سال کے مقابلے میں گزشتہ برس 21 فیصد جب کہ افغان سکیورٹی فورسز اور امریکی فوج کی کارروئیاں کے نتیجے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد 18 فیصد بڑھی ہے۔
اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مِچیل باچیلیٹ کا کہنا ہے کہ افغان جنگ میں تمام متحارب فریقین جنگ کے بنیادی اصولوں کا احترام کریں اور بہ ہر صورت عام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
امریکہ کی طرف سے مسلسل کوشش ہورہی ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ امن سمجھوتہ طے کرلیں۔لیکن چھ ماہ پہلے مذاکرات کے دوران ہی طالبان نے افغانستان میں خودکش حملوں میں اضافہ کر دیا تھا جس پر امریکہ نے یہ مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
دوسری جانب افغان حکومت نے بارہا اس بات کا اظہار کیا ہے کہ اگر طالبان امن میں سنجیدہ ہیں تو وہ ہتھیار پھینک کر افغانستان میں جاری جمہوری عمل کا حصہ بنیں ۔ جبکہ طالبان افغانستان میں جمہوریت کی بجائے شریعت پر مبنی اپنی حکومت چاہتےہیں اور اس مقصد کے لیے قطر میں قائم اپنے دفتر کا نام بھی امارات اسلامی افغانستان رکھا ہوا ہے۔
افغانستان سے روسی افواج نکلنے کے بعد پاکستانی جرنیلوں نے دفاعی گہرائی کی پالیسی اپنائی تھی جس کے مطابق وہ افغانستان میں طالبان کے ذریعے اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ جنوبی ایشیائی خطے میں بھارت کے اثرو رسوخ کا مقابلہ کیا جائے۔ اور اس پالیسی کے تحت پاکستانی ریاست نے دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کی ۔ پاکستانی ریاست نے اپنے تمام وسائل ریاست کو ترقی دینے کی بجائے دفاعی گہرائی کی پالیسی کی نذر کر دیئے اور آج اسی پالیسی نے پاکستان کو تمام دنیا میں تنہا کررکھا ہے۔جرنیل شاید یہ بھول گئے کہ خطے میں اثرو رسوخ کے لیے سائنس و ٹیکنالوجی اور معاشی ترقی ضروری ہے نہ کہ دہشت گردوں کو پالنا۔
DW/Web Desk