مسلم لیگ نواز نے ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے لیے پاور بروکرز سے پس پردہ مذاکرات شروع کر دیئے ہیں۔ان مذاکرات میں کئی آپشنز پر غور کیا جارہا ہے۔
دی نیوز انٹرنیشنل کے رپورٹر عمر چیمہ نے پانچ فروری کی اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ مصدقہ ذرائع کے مطابق پارٹی کی قیادت پاور بروکرز سے مسلسل رابطے میں ہے۔ پاور بروکرز عمران حکومت کی بیڈ گورننس کی وجہ سے پریشان ہیں اور دو ماہ پہلے ایک اہم شخصیت لندن میں موجود مسلم لیگ نواز کی قیادت سے ملی۔
اس ملاقات میں کئی آپشنز پر غور ہوا۔ کیا مڈٹرم الیکشن کروائے جائیں یا ان ہاوس تبدیلی لائی جائے، ایک تجویز یہ بھی ہے کہ قومی حکومت بنائی جائے جس میں تمام جماعتوں کی نمائندگی ہو۔
مسلم لیگ نواز کو قومی حکومت کی تجویز پسند نہیں ۔ شہباز شریف قومی حکومت میں اپنا کوئی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ میں تنہا ہی کسی کی شراکت کے بغیر حکومت کو بہتر انداز میں چلا سکتا ہوں۔ انھوں نے نئے الیکشن کی تجویز دی۔
ان کا پوائنٹ نوٹ کر لیا گیااور کہا کہ اگر فوری طور پر انتخابات نہ منعقد ہو سکیں تو پھر کیا کیا جائے؟ شہباز شریف نے ان سے کہا کہ وہ نواز شریف سے مشورہ کرکے آپ کوآگاہ کردیں گے۔
بعد میں انھوں نے خواجہ آصف کا نام تجویز کیا۔ کچھ دن بعد خواجہ آصف کی بجائے شاہد خاقان عباسی کا نام دیا گیا۔مرکز کے بعد پنجاب میں حکومت کی تبدیلی پر غور کیا گیا جس میں شہباز شریف نے اپنے بیٹے حمزہ کا نام تجویز کیا۔ لیکن اہم شخصیت نے کہا کہ اپنے خاندان کے علاوہ کوئی نام دیں۔ جس کے بعد تین نام ، ملک احمد خان، رانا مشہوداحمد اور میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن کے نام دیئے گئے۔
دونوں اطراف کے درمیان مذاکرات میں مسلم لیگ نواز کی لیڈر شپ ابھی تک مخمصے کا شکار ہے۔ نوا ز شریف کو اس بات کا احساس ہے کہ اسمبلی میں جنرل باجوہ کی ایکسٹنشن کی غیر مشروط حمایت پر اس کے سپورٹرز ان سے ناراض ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اب وقت ہے کہ اپنی کریڈیبلیٹی کو بحال کیا جائے۔
ان ہاوس تبدیلی کے آپشن پر نواز شریف قائل نہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ان کے سپورٹرز ان پر پھر کمپرو مائز کا الزام لگائیں گے۔جبکہ شہباز شریف کا خیال ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ لمبے عرصے کے لیے اپنی پوزیشن زیادہ مضبوط کرلیں گے۔
مریم نواز بھی اپنے والد کے ساتھ ایک ہی پیج پر ہیں۔ جنرل باجوہ کو ایکسنٹشن دینے کے فیصلے کا ذمہ دار وہ نواز شریف کی بجائے ، شہباز شریف، خواجہ آصف، رانا تنویر اور ایازصادق کو قرار دیتی ہیں۔ ان کی نظر میں شاہد خاقان عباسی ہی درست امیدوار ہیں، نواز شریف بھی شاہد خاقان عباسی کو مزاحمت کی علامت کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ شاہد خاقان عباسی، ایکسٹنشن دینے کے موقع پر، پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے باوجود اسمبلی کے اجلاس سے غیر حاضر رہے تھے ۔
پارٹی لیڈر شپ ایک حکمت عملی کے تحت عدالت میں پیشی کے دوران صحافیوں کے ذریعے شاہد خاقان عباسی کو مسلم لیگ نواز کی آئیڈیالوجی پر یقین رکھنے والا واحد رہنما قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
نواز شریف نے شاہد خاقان کو کہا ہے کہ وہ اپنی ضمانت کی درخواست دائر کریں جس پر شاہد خاقان عباسی تیار نہیں تھے۔ بہرحال اب انھوں نے درخواست دائر کردی ہے اور شاید جلد رہا ہوجائیں۔ صرف نیب کا کیس ایک رکاوٹ ہے جس میں نیب ان کے خلاف کوئی کیس ثابت نہیں سکی اور شاہد خاقان اس کیس میں اپنی ضمانت کی درخواست دائر نہیں کرنا چاہتے۔ ان کے مطابق نیب کواز خود انہیں رہا کرنا چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا شہباز شریف کو قومی اسمبلی میں شاہد خاقان عباسی قبول ہیں؟ یہ ابھی دیکھنا ہے۔
ڈیل یا نو ڈیل؟ اس میں بہت سے” اگر” اور “ مگر” ہیں ۔ شریف برادران ان ہاؤس تبدیلی پر تیار نہیں۔ دونوں کی اپنی اپنی وجوہات ہیں۔ شہباز شریف کسی دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ شراکت پر تیار نہیں اور نواز شریف ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ کمپرومائز کا تاثر نہیں دینا چاہتے ۔ دونوں کے نزدیک مڈٹرم الیکشن قابل قبول ہیں۔ کیونکہ اس طریقے سے ہی وہ اپنی کریڈیبلیٹی کو بحال کر سکتے ہیں اور اپنی مرضی کی حکومت بھی بنا سکتے ہیں۔بہرحال شریف برداران ایک بار پھر ایسٹیبلشمنٹ سے اپنے اختلافات بھلا کر اپنی پرانی نوکری کرنے پر تیار ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ پاور بروکرز، شریف برادران اور گجرات کے چوہدریوں کے بغیر ایک نئی پارٹی لانچ کرنے کے آپشن پر بھی غور کر رہے ہیں ۔اس سلسلے میں کئی بزرگ مسلم لیگیوں کے انٹرویو کیے گئے ہیں لیکن شاید انھیں مایوسی ہوئی ہے ۔ بہرحال ابھی یہ واضح نہیں کہ پاور بروکرز کے ذہن میں کیا ہے۔
گو پاکستان پیپلز پارٹی اس قسم کے مذاکرات کا حصہ نہیں لیکن اس کی قیادت اس تمام صورتحال کا باریکی سے جائزہ لے رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پیپلر پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو نےآئندہ چند ہفتوں میں امریکہ کے دورے پر آنا تھا، اسے فی الحال ملتوی کردیا گیا ہے۔
Web Desk