محمد زبیر
اس سوال کا جواب دینا دو وجوہات کی بنا پر بہت ضروری ہوچکا ہے۔ ایک یہ کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے لبرل اور دائیں بازو کی سیاست سے وابستہ ہمارے کچھ دوست یہ سوال اٹھارہے ہیں۔ اور یہ ایسے دوست ہیں جنہوں نے پی ٹی ایم کا کئی اورمعاملات میں ساتھ دیا ہے۔اور دوسرا یہ کہ پی ٹی ایم کے سپورٹرز کے لیے ان سوالات کو سمجھنا اور انکا مدلل جواب دینا بہت ضروری ہے۔ امید ہے کہ یہ تحریر اس حوالے سے انکے لیے کارآمد ثابت ہوگی۔
پی ٹی ایم پر پنجابیوں کیخلاف نسلی تعصب (ریسزم ) پر مبنی سیاست کرنے کا الزام لگاتے وقت جن چیزوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ان میں علی وزیر کا فوجیوں کو “کا لیا” کہنا اور محسن داوڑ کا ایک مخصوص پولیس کانسٹیبل کو پشتو زبان میں “خیرن مخی” (میلے چہرے والا) کہنا شامل ہیں۔ یہ تائثر دیا جارہا ہے کہ پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے منہ سے نکلے ہوئے یہ الفاظ توہین کے زمرے میں آتے ہیں اور اس طرح ان کی ادائیگی پی ٹی ایم کو ایک نسلی تعصب تحریک ثابت کرتی ہے۔اور یہ کہ اس کی سیاست کی بنیاد پنجابی قوم سے نفرت پر قائم ہے۔
کیا یہ بات درست ہے؟
میری ذاتی رائے میں یہ فیصلہ کرنا کہ کوئی فرد، افراد کا گروہ یا کوئی تحریک نسلی تعصب کی مرتکب ہے یا نہیں اسوقت تک ممکن نہیں جب تک ہم پہلے نسلی تعصب کے سیاسی معانی میں” تعریف و تشریح نہ کرلیں۔ اس حوالے سے تین نکات کو مدِنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔
ایک یہ کہ ریسزم کی تعریف، نسلی برتری یا کمتری سے متعلق الفاظ کی محض ادائیگی پر نہیں منحصر بلکہ اس بات سے مشروط کہ وہ الفاظ کون ادا کررہا ہے اور اسکا نشانہ کون ہے اور ان کے درمیان سیاسی اور معاشی طاقت کا توازن کیا ہے۔ عمومی طور پر طاقتور ہی کسی کمزور کو ریسزم کا نشانہ بناتا ہے اور بنا سکتا ہے۔ کمزور طاقتور کو گالی تو دے سکتا ہے لیکن طاقتور کیخلاف ریسزم کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس پاس طاقت نہیں ہوتی۔
میں اس بات کی وضاحت امریکہ کی مثال دیکر کروں گا۔ امریکہ میں سفید فام نسل سے تعلق رکھنے والے اگر سیاہ فام نسل والوں کو نیگرو کہیں تو یہ صاف طور پر نسلی تعصب کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن اگر کوئی سیاہ فام شخص کسی سفید فام کو ریڈ نیک یا وائیٹ کہے یا ان کی سفید چمڑی پر کوئی جملہ کسے تو شاید ہی اسے “سیاسی معانی میں” نسلی تعصب یا ریسزم سمجھا جائیگا (اگرچہ کہ سفید فام اسے ریورس ریسزم کہتے ہیں)۔
اور اسکی وجہ امریکہ میں ان دونوں اقوام کے درمیان تعلق کا تاریخی پسِ منظر ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ امریکہ میں سیاسی اور معاشی طاقت سفید نسل کے ہاتھوں میں مرتکز رہی ہے اور آج تک ہے۔ اور یہ کہ سیاہ فام نسل صدیوں تک آئینی اور قانونی طور پر سفید نسل کی غلام رہی ہے۔ تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ اکثر طاقتور اقوام نے سیاسی اور معاشی طاقت کو اپنی مفروضہ نسلی برتری سے جوڑا اور پھر اُسی کو اپنی طاقتور حیثیت کو دوام دینے کیلیے جواز کے طور پر پیش کیا۔ اسی طرح انہوں نے دوسری اقوام کو نسلی طور پر کمتر قرار دیا اور پھر انکی مفروضہ نسلی کمتری کو بنیاد بناکر انہیں سیاسی اور معاشی طاقت سے محروم رکھنے کےلیے جواز کے طور پر پیش کیا۔
دوسری بات جس کو ریسزم کی تشریح کے حوالے سے مدِ نظر رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ریسزم اور توہین پر مبنی تقریر دو مختلف چیزیں ہیں۔ ان کے درمیان کوئی ناگزیر تعلق نہیں ہے۔ تاہم یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اپنے آپ کو نسلی طور برتر سمجھنے والا طاقتور جب کسی کمزور کو نسلی طور پر کمتر قرار دیتا ہے تو وہ ایسا کرتے وقت اکثر ریسزم اور توہین پر مبنی تقریر دونوں کا سہارا لیتا ہے۔
تیسری بات جس کو مدَ نظر رکھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ نسلی تعصب کا اظہار (خاص کر آجکل کے دور میں) کچھ مخصوص الفاظ کی ادائیگی سے نہیں جڑا۔ مثلاً یہ کہ ریسزم کے ارتکاب کیلیے یہ کہنا کوئی ضروری شرط نہیں کہ فلاں شخص یا قوم نسلی طور پر برتر یا کمتر ہے یا کسی کی چمڑی کی رنگت یا شکل خوبصورت یا بدصورت ہے۔ امریکہ میں ریسزم کا اظہار اکثر بہت دقیق اور ڈھکے چھپے انداز میں کیا جاتاہے۔
ریسزم کا سب سے زیادہ خطرناک اظہار سیاسی اور معاشی طاقت کی تقسیم کے ادارتی نظام کی شکل میں ہوتا ہے۔ مثلاً ایک ایسا آئینی اور قانونی نظام جو کسی ایک مخصوص قوم کو سیاسی اور معاشی طاقت کے حوالے سے دوسری اقوام پر غلبہ دے اور کمزور اور کمتر اقوام کو مجبور کرے کہ وہ اپنا انفرادی تشخص کو مٹا کر طاقتور اور غالب قوم کی مخصوص تاریخ، عادات و اطوار، روایات، رسم و رواج اورتشخص (جسے آئینی و قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے) کو اپنائے۔
ریسزم کو مندرجہ بالا معانی و مفہوم میں سمجھتے ہوئے اب ہم پی ٹی ایم پر ایک ریسسٹ سیاسی تحریک ہونے کے الزام کا مختصر تجزیہ کرتے ہیں۔
میری دلیل یہ ہے پشتون یا پی ٹی ایم پنجابیوں کے خلاف ریسزم کے مرتکب نہیں بلکہ خود ریسزم کا شکار ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پشتون اور دیگر اقلیتی اقوام ریاستی سرپرستی میں جاری ایک منظم ریسزم کا نشانہ بنے رہے ہیں۔ یہاں یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ جب بھی اقلیتی اقوام پاکستانی ریاست کی بات کرتی ہیں تو اس سے ہمیشہ انکی مراد پنجاب ہوتی ہے۔ اور پنجاب کا مطلب (وہاں کی عام عوام نہیں بلکہ) وہاں کی سیاسی اور سماجی ایلیٹس، اور سول اور فوجی نوکر شاہی پرمشتمل اشرافیہ ہے۔ لہٰذا جب ہم اس تحریر میں ریاست کا لفظ استعمال کریں تو اسکو اِن معانی میں سمجھا جائے۔
عوام جہاں کی بھی ہو وہ معصوم ہوتی ہے چاہے وہ پنجاب کی ہو یا کسی بھی اور صوبے کی۔ اصل مسئلہ پنجابی اشرافیہ کا ہے جس کو پنجابی استحقاق نے پشتونوں اور دیگر اقوام کے ساتھ ریاستی سرپرستی میں روا رکھے گئے ریسزم کو دیکھنے اور سمجھنے سے محروم رکھا ہے۔ ہمارے لبرل اورترقی دوستوں کے کان علی وزیر اور محسن داوڑ کے ایک لفظ پر تو کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن لیکن مندرجہ ذیل معاملات انکی نظر سے اکثر اوجھل ہوتے ہیں۔
ہم نے دیکھا ہے کہ پچھلی دو دہائیوں میں آئی ایس پی آر کی میڈیا پروڈکشن نے دہشت گردی کیخلاف بنائی جانی والی تمام فلموں اور نغموں میں ہر دہشت گرد کو لباس، زبان، عادات اور اطوار کے لحاظ سے پشتون دکھایا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں تقریباً تمام دہشت گرد تنظیمیں پنجاب میں بنی ہیں اور دنیا میں جہاں بھی کوئی پاکستانی کسی دہشت گردی میں ملوث پایا گیا اسکے تانے بانے پنجاب سے جاملے ہیں۔ ہم نے وزیرستان میں پنجابی طالبان کو پشتون طالبان سے زیادہ القائدہ کے عرب جنگجوئوں کے قریب دیکھا ہے۔ لیکن آپکو کبھی بھی آ ئی ایس پی آر کی ان میڈیا پروڈکشن میں کوئی پنجابی دہشت گرد نہیں نظر آئے گا۔
اسی طرح پنجاب میں بننے والے تقریباً ہر ٹی وی ڈرامے میں پشتونوں کو جاھل، غیر مہذب، نسوار کھانے والے، “خوچے” کہنے والے، ریڑی بان، ڈرائیور اور چوکیدار وغیرہ کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ دنیا جہان کی بری رسمیں پشتونوں میں دکھائی جاتی ہیں۔ پشتونوں کو عورتوں کے ساتھ ظلم کرنے والے، اپنی بیٹیوں کو بیچنے والے اور انہیں تعلیم سے محروم رکھنے والے، ان کی محبتوں میں آڑے آنے والے، مذہبی انتہاء پسند، دہشت گردی کی طرف قدرتی طور پر مائل، معمولی باتوں پر مرنے اور مارنے پر اتر آنے کیلیے تیار رہنے والے خر دماغ وغیرہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
یہ تحریر لکھتے وقت آئی ایس پی آر کا بنایا ہوا ڈرامہ سیریل ”عہد وفا“ پاکستانی ٹی وی پر چل رہا ہے جس میں پشتونوں کو دہشت گرد اور جاہل کے طور پر دکھایا گیا ہے، ان کا مذاق اڑایا گیا ہے، اور شمالی وزیرستان کو دہشت گردوں اور خوف سے بھرا ہوا علاقہ دکھایا گیا ہے جبکہ اردو اور انگریزی بولنے والے (پنجابی) فوجی جوانوں کو محب وطن، تعلیم یافتہ اور پرامن دکھایا گیا ہے۔ حالانکہ یہ سب کچھ حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ آپ کو کبھی بھی میرانشاہ شاہ میں پی ٹی ایم کے جلسے کے وہ کلپ نہیں دکھائے جائینگے جو ان ریسسٹ سٹریوٹائپ کا توڑ پیش کرتے ہیں جو ان ڈراموں کے ذریعے پروموٹ کیے جارہے ہیں۔ گلالئی،ملالہ اور منظور پاشتین کی امن کیلیے جدوجہد پر کوئی ڈرامہ نہیں دکھایا جائے گا۔ بلکہ منظور پاشتین کو ایک ملک دشمن، آئین شکن اور غدار کے طور پر پیش کیا جائیگا اور اسے جیلوں میں دہشت گردوں کیلیے مختص سیل میں پابند سلاسل کیا جائے گا۔
پھر آپ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی شائع کردہ ان کتب پر نظر دوڑائیں جنکے ذریعے پنجاب کے بچوں کے معصوم ذہنوں میں پشتونوں اور بلوچوں کیخلاف نسلی تعصب کا زہر گھولا جاتا ہے۔
ہم نے پچھلے سالوں میں پنجاب کی حکومت کو وقتاً فوقتاً ایسے نوٹیفیکیشن جاری کرتے دیکھا ہے جن کے ذریعے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لاھور کی سڑکوں پر گھومنے والے ہر اس شخص پر کڑی نظر رکھنے کو کہا گیا جسکی شکل، لباس اور زبان پشتونوں سے ملتی جلتی ہو۔ حکومتِ پنجاب نے انسدادِ دہشتگردی کے حوالے سے ایسے ٹی وی اشتہارات بھی جاری کیے جن میں ملک میں فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث خطرناک دہشت گرد تنظیموں اور دہشت گردوں کے جھرمٹ میں منظور پاشتین کی تصاویر دکھائی گئیں!
ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ وزیرستان پر قبضہ جمانے کے بعد ریاست نے اپنے گھروں کو سالوں بعد لوٹنے والے آئی ڈی پیز خاندانوں کو ملک سے وفاداری کے حلف نامے جمع کرانے پر مجبور کیا گیا۔اور اسی طرح چمن بارڈر پر پشتون مزدوروں کو پاکستان کا پرچم بالجبر چومنے ہر مجبور کیا گیا۔اسے کہتے ہیں ریسسٹ جس کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔
فوج، ریاست، حکومتِ پنجاب اور پنجابی انٹرٹینمنٹ میڈیا کے ذریعے پشتونوں کیخلاف سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر جس طرح نسلی تعصب پر مبنی سٹریو ٹائپ کی دیواریں کھڑی کی گئیں ہیں اور کی جارہی ہیں وہ صرف تخیلاتی دنیا تک محدود نہیں بلکہ پشتون ان کے اثرات سے مادی طور پر بری طرح متائثر ہوئے۔ ان ریسسٹ سٹریو ٹائپ سے بننے والی فضاء نے پشتونوں کا معاشی اور سماجی قتل ممکن بنایا ہے۔
مثلاً پہلے ریاست/فوج کے پیدا کردہ دہشت گردوں کے ہاتھوں ظلم سہا اور بعد میں جب فوجی آپریشنوں کے وجہ سے در بدر ہونے والے پشتون جب اپنے گھر بار اور علاقے چھوڑنے ہر مجبور ہوئے تو پنجاب میں ان کے لیے دروازے تقریباً بند کردیے گئے۔ پشتونوں کیخلاف ریاستی سرپرستی میں پروان چڑھائے گئے نسلی تعصب پر مبنی سٹریو ٹائپ کے نتیجے میں بچارے عام پنجابی عوام بھی پشتونوں کو شک اور خوف کی نگاہ سے دیکھنے لگی اور نتیجتاً پشتونوں کی زندگی اجیرن بن کر رہ گئی۔ پنجاب میں چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے والے حتیٰ کہ ریڑھی بان پشتون بھی ریاستی اداروں کے جبر کا نشانہ بنتے رہے۔ پشتونوں کیلیے پنجاب کے ہوٹلوں میں رکنا تک محال ہوگیا۔ یہی وجہ کہ پی ٹی ایم کے ابتدائی مطالبات میں پشتونوں کیخلاف ریاستی سرپرستی میں جاری رکھی جانے والی نسلی تعصب کی مشین بند کرنے کا مطالبہ شامل تھا۔
اور تو اور کرونا وائرس کے علاج کیلیے پشاور کو چنا گیا ہے۔ یہ بھی ریسزم کی ایک قاتلانہ شکل ہے۔ یعنی آپ پشتونوں کو کمتر سمجھ کر ہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ پنجاب کو اس وائرس سے پاک رکھا جائے اور پاکستان (پنجاب) بھر سے مریضوں کو پشاور لایا جائے۔ یعنی اگر پشاور میں وہ وباء پھیل جائے تو اس کی کوئی پروا نہیں۔ ریاست کیلیے پشتون ہمیشہ قربانی کا بکرا رہے ہیں۔
اب آتے ہیں پی ٹی ایم پر لگنے والے اس الزام کی طرف کہ اس کے لیڈران پنجابیوں کیخلاف مبنی بہ نفرت تقاریر توہین پر مبنی تقریر کے مرتکب ہوئے ہیں۔ شاید انکا یہ الزام درست ہو لیکن یہ الزام لگانے والوں کی منافقت یہ ہے کہ وہ معصوم اور سادہ بن کر نفرت کی زمین پر نفرت کی آبیاری سے اُگائے ہوئے نفرت کے پیڑوں پر محبت کے پھول دیکھنے کی توقع رکھتے ہیں۔
پنجاب سے تعلق رکھنے والے فوجی افسران اور عام فوجی پشتون علاقوں میں چیک پوسٹوں پر پشتونوں کیساتھ جس قسم کی زبان استعمال کرتے رہے ہیں اور ان سے جس طریقے سے پیش آتے رہے ہیں ان کو سن اور دیکھ کر شیطان بھی پناہ مانگنے پر مجبور ہوجائے۔ پاکستان کی عوام کو یہ نہیں معلوم کہ فوجی ٹارچر سلوں میں پشتون قیدیوں کیساتھ کس قسم کے غیر انسانی اور غیر اخلاقی رویے روا رکھے گئے اور رکھے جارہے ہیں، کس طرح انکی مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں ان کی زبان درازی کا نشانہ بنتی رہی ہیں، کس طرح انہیں ننگا کرکے انکی انسانی تضحیک کی گئی ہے، کس طرح انکے آباؤاجداد اور سیاسی لیڈران کو گالم گلوچ کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔
کس طرح پہلے دہشت گردوں کو پشتونوں پر مسلط کیا گیا اور انکے ساتھ امن معاہدے کیے گئے، ان کے ہاتھوں پشتونوں کو مروایا گیا اور پھر بظاہر ان دہشت گردوں سے جنگ لڑنے کے بہانے قبائلی علاقاجات پر فوج قابض ہوئی، ان کے گھروں،املاک، مال مویشیوں، کھیت کھلیان کو لوٹا اور پھر تباہ کیا گیا۔ ایسے حالات میں ہمارے پنجابی لبرل اور پراگرسیو دوستوں کی یہ امید رکھنا شاید عبث ہے کہ پشتون اپنے زخم آشکارا کرتے وقت سے کام لیں!! ایسا فی الوقت شاید ممکن نہ ہو کیونکہ یہ انسانی فطرت کیخلاف ہے۔ پشتونوں کے منہ سے محبت کے پھول نہ جھڑنا ایک فطری عمل ہے۔ اور پشتونوں کے دلوں میں اگر خدانخواستہ پنجابیوں کیخلاف نفرت ہے بھی تو اس کے بیج پنجاب کی فوج اور اشرافیہ نے بوئے ہیں۔ اس کا ذمہ دار پی ٹی ایم یا پشتونوں کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بلکہ پی ٹی ان نفرتوں کو ختم کرنے کی واحد امید ہے۔
ہمارے پنجابی دوستوں کو “کا لیا“ اور “تومخی”کے لفظ پر تو اعتراض ہے لیکن محسن داوڑ، علی وزیر اور منظور پاشتین کی باقی باتوں کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ انہیں اس بات کی پروا نہیں کہ علی وزیر کے خاندان کے سترہ لوگ فوج کے پالے ہوئے دہشت گردوں کے ہاتھوں بے دردی سے مارے گئے، اور وانا بازار میں انکے خاندان کی مارکیٹوں کو پاکستان فوج نے بموں سے اڑایا۔ انہیں اس بات کی بھی کوئی پروا نہیں کہ ریاست، حکومت پنجاب، اور پنجاب کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کسطرح پشتونوں کے خلاف ریسسٹ زہر اگلتی رہی ہے۔ انہیں پنجابی فوجیوں کے منہ سے پشتونوں کیلیے نسلی تعصب پر مبنی جملوں کی ادائیگی میں بھی کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا۔
پشتونوں اور دیگر اقلیتی اقوام کا آئین پر اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے بالکل جائز تحفظات ہیں۔ پاکستان کا آئین اکثریتی جمہوریت کے اصول پر قائم ہے جس کے نتیجے میں پنجاب کو عددی بنیاد پر دوسرے صوبوں اور اقوام پر سیاسی اور معاشی غلبہ حاصل ہے۔ ریاست نے آئین پر طاقت کی تقسیم کے حوالے سے تحفظات کے اظہار کو بھی ریاست کے ساتھ جنگ اور غداری قرار دیاہے اور منظور پاشتین کو اسی بنیاد پر پابندِ سلاسل کیاہے۔
جب بھی میں نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے بہت قابل قدر دوستوں سے آئین میں اکثریتی جمہوریت کے حوالے سے اور اقلیتی قوموں کی برابری حوالے سے بات کی تو میں نے ان کے منہ کا ذائقہ خراب ہوتے ہوئے دیکھا۔ وہ غیر اکثریت جمہوریت کے تصور پر اور اسے آئین کا حصہ بنانے پر بالکل بات کرنے کو بھی تیار نہیں ہوتے۔ دوسرے لفظوں میں وہ پنجابی استحقاق کو برقرار رکھنے کے حق میں رہتے ہیں۔
لیکن ایک بات طے ہے کہ آئین کی حدود میں رہتے ہوئے اقلیتی اقوام، خصوصاً پی ٹی ایم، آئین میں درج سیاسی اور معاشی اختیارات کی غیر منصفانہ تقسیم پر اپنے تحفظات کا اظہار اور اس حوالے سے آئین پر نظرِ ثانی کا مطالبہ کرتی رہے گی۔ اب اگر اسے پنجابیوں کے خلاف ریسزم کا نام دیا جائے یا اسے ریاست سے جنگ اور غداری کا نام دیا جائے تو یہ محض ان الفاظ کا غلط استعمال ہوگا۔ اور آپ دیکھیے گا کہ اس جائز مطالبے کو بھی پنجابیوں کے خلاف ریسزم قرار دیا جائیگا۔ جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔
♦