کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک خاتون کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ کسی چیک پوسٹ پر پولیس والوں پر برس رہی تھی کہ۔۔۔ ایک سپاہی نے اس سے پنجابی میں”بات” کی ہے(یعنی کوئی فقرہ بولا ہے )اس سے کہو کہ مجھ سے تمیز سے بات کرے۔۔۔
اسی دوران چیک پوسٹ سے کوئی صحافی گذر رہا تھا تو اس نے موبائل فون سے ویڈیو بنانی شروع کردی حالانکہ خاتون کہہ رہی ہے کہ تمہیں کوئی حق نہیں کہ میری ویڈیو بناؤ۔ پھر اس نیم صحافی کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ جھگڑا کس بات پر ہے ۔اس نے دو منٹ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر لگا دی کہ ایک ماڈرن (مغربی لباس پہنے)خاتون پنجابی کی توہین کر رہی ہے۔
اس ویڈیو کو نظر انداز کردینا چاہیے تھا مگر پنجابی پیاروں کی غیرت جاگ اٹھی اورخاتون پر لعن طعن شروع کر دی۔ ایک پڑھے لکھے روشن خیال وکیل دوست جو کہ پنجابی ادب کا ذوق شوق رکھتےہیں نے اپنی پوسٹ میں لکھا۔۔
نشے وچ ٹُن اک عورت آپنے بوائے فرینڈ (یار) نال اسلام آباد دے حساس علاقے وچ پھڑی گئی… پولیس /سکیورٹی والے پچھ کچھ شروع کیتی تے رولا پا دتا کہ پولیس والے میرے نال پنجابی وچ گل کر کے میری بے عزتی کیتی اے… مسلم ملک وچ میرے نال پنجابی وچ کیوں گل کیتی۔۔۔ باقی ویڈیو وچ تسی آپ ویکھ لوو نشے وچ ایہہ بی بی کسے وی زبان( اردو انگریزی ) نوں ٹھیک طرح نہیں بول سک رہی۔۔۔
عظیم صحافی حامد میر نے بھی اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا اور ٹویٹ کیا کہ” وہ کسی کی زبان کا احترام کرنے کے لئے تیار نہیں اسے صرف اپنے احترام کی فکر ہے بدقسمتی سے اس قسم کے پڑھے لکھے جاہل مردوخواتین کی تعداد معاشرے میں بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ آپکا نظام تعلیم مادری زبانوں کا احترام نہیں سکھاتا۔ احترام صرف اسے ملتا ہے جو دوسروں کا احترام کرتا ہے”۔
کچھ عقلمند افراد نے لکھا کہ پنجاب پولیس انتہائی بدتمیز ہے اور جب کوئی خاتون خاص کر جینز پہنے ان کی گرفت میں آجائے تو ہوس بھری نظروں سے دیکھتے ہیں اور ہو نہ ہو پولیس نے ضرور اسے پنجابی میں کوئی ذومعنی بات کی ہوگی۔ لیکن پنجابی پیارے کچھ سننے پر تیار نہیں تھے۔ اس خاتون کی حمایت میں بولنے کا مطلب پنجابی زبان سے دشمنی لیا گیا۔ ایک دوست نے لکھا کہ پنجابی پیارے جتنا غصہ اس عورت پر اتار رہے ہیں اگر اتنا شور وہ پنجاب میں جاری مذہبی انتہا پسندی اور مذہبی تنظیموں کی دہشت گردی پر ڈالتے تو پنجاب کی کوئی خدمت ہو تی۔ لیکن پنجابی بھی سیانے ہیں انھیں پتہ ہے کہ ”خدا نیڑے کے گھسن نیڑے”۔
پنجابی بھی لیفٹسٹس کی طرح انتہائی سمجھ دار ہیں انھوں نے مذہبی تنظیموں کی دہشت گردی پر شور مچانے پر اپنی گردن تھوڑی کٹوانی ہے وہ سماج کی تمام خرابیوں کی ذمہ داری عالمی سامراج پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں اور پاکستانی ریاست بھی مطمئن رہتی ہے۔پنجابی لکھاری، شاعراور قوم پرست بھی مذہبی تنظیموں کی دہشت گردی اور ان کے سرپرستوں کے خلاف آواز اٹھا کر لاپتہ افراد کی فہرست میں اپنا نام نہیں لکھوانا چاہتے۔
اگلے روز آن لائن اخبار”انڈی پنڈنٹ اردو” نے اس خاتون کو ڈھونڈا اور پوچھا کہ پولیس نے آپ کو کیا کہا تھا تو خاتون نے بتایا کہ میں نے چیک پوسٹ پر گاڑی روکی تو پولیس والے نے کہا کہ “سوہنیو شیشہ تے تھلے کرو” جس پر مجھے غصہ چڑھا اور میں نے ان کے سنئیر کو کہا کہ وہ مجھے پنجابی میں کچھ کہہ رہا ہے۔۔۔
خاتون ،جن کا نام سیدہ عالیہ کاظمی ہے،نے انڈپینڈنٹ اردوسے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ مختلف ممالک کی پاکستان میں سفارت خانوں سے مل کر ثقافتی شوکراتی ہیں جن میں پاکستانی ثقافت کو فروغ ملتاہے۔ ان کا تعلق بھی پنجاب سے ہے اور ان کی والدہ پنجابی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ عرصہ دراز سے اسلام آباد میں ایونٹ مینجمنٹ کمپنی بناکر وہ روزگار کمارہی ہیں اور جب بدھ کے روز دوپہر دو بجے کے قریب چیک پوسٹ پر یہ واقعہ پیش آیا تو وہ اپنے کام سے ڈپلومیٹک انکلیو جارہیں تھیں۔
انہوں نے کہا ’پولیس اہلکار ہم شہریوں کے تحفظ کے لیے تنخواہ لیتے ہیں لہذا انہیں کوئی حق نہیں کہ وہ خواتین سے ناپسندیدہ انداز گفتگو اپنائیں۔‘ انہوں نے کہاکہ جب وہ چیک پوسٹ پر پہنچیں تو گاڑی وہ خود چلارہی تھیں۔ وہاں پر موجود دو اہلکاروں نے رکنے کا اشارہ دیا تو انہوں نے گاڑی روک دی ایک اہلکار قریب آیا اور بے ہودہ انداز میں پنجابی میں عجیب لہجہ بنا کر بدتمیزی کی جو انہیں بری لگی اور انہوں نے اپناردعمل ظاہر کیا۔
یاد رہے کہ ایک وکیل جو کہ پڑھے لکھے اور معزز سمجھے جاتے ہیں نے اپنا کیس مضبوط بنانے کے لیے وہ باتیں بھی لکھ دیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یعنی وہ نشے وچ ٹن اپنے یار نال پھڑی گئی۔ انھوں نے بغیر کسی تفتیش کے مقدمے میں شراب اور اس کے بوائے فرینڈ (یار) کو بھی ڈال دیا جس سے ان کے ذہنی معیار کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایک پنجابی پیارے “پروفیسر” جمیل پال نے گالی دے کر اپنی دلیل مضبوط بناتے ہوئے لکھا کہ جب ہر طرف سے لعن طعن ہوئی ہے تو”اس الو دی پٹھی” نے وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔
پنجابی زبان پنجاب کی زبان کیوں نہ بن سکی؟ پنجابی پیارے اس کا ذمہ دار انگریز کو ٹھہرا تے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ پنجابی کے سربراہ سعید بھٹہ نے اخبار کودیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ “انگریز نے ساڈھے کولوں ساڈی ماں بولی کھو لئی” کہ انگریزنے ہم سے ہماری مادری زبان چھین لی۔ لیکن انہیں یہ بتانا بھول گیا کہ انگریز کی آمد سے پہلے پنجاب کے عظیم حکمران رنجیت سنگھ کے دربار کی زبان فارسی تھی ۔
محمد شعیب عادل
♦