بیرسٹرحمید باشانی
گزشتہ برس میعارزندگی کی عالمی درجہ بندی میں کنیڈا کو دنیا میں پہلا نمبردیا گیا تھا۔اورایسا مسلسل چوتھی بارہوا تھا کہ کینیڈا معیارزندگی کے اعتبار سے دنیا میں پہلےنمبرپرتھا۔
میعارزندگی میں اول نمبر پرہونے کےعلاوہ دیگرکئی حوالوں سے بھی اس ملک کو ایک مثالی اورقابل تقلید ملک قرار دیا جاتا رہا۔عورتوں کے لیے کینیڈا کو کئی باردنیا کا تیسرابہترین ملک قرار دیاگیا۔ بچوں اورعمررسیدہ افراد کو سہولیات اورسماجی تحفظ فراہم کرنے کے لیے بھی یہ ملک اچھی شہرت رکھتا ہے۔ دیگرقابل تعریف چیزوں میں اس ملک کا معیارتعلیم، صحت کا نظام اورکارپوریٹ ہیڈ کوارٹرز کے لیے بہترین سہولیات اورانفراسٹریکچرجیسی چیزیں شامل ہیں، جن کو باقی دنیا میں رشک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
دنیا میں مختلف ممالک کےمیعارزندگی کو ماپنے کے لیے بہت سے پیمانے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس میں تقریبا پچھتر بنیادی میٹرکس یا سانچےاستعمال ہوتے ہیں۔ ان سانچوں کو پھرذیلی اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان ذیلی اقسام میں روزگار کے مناسب مواقع، سستی اورمعیاری اشیا کی دستیابی، معاشی استحکام، فیملی فرینڈلی سماج، آمدنی میں نسبتا مساوات، سیاسی استحکام، سیفٹی، ایک ترقی یافتہ سرکاری نظام صحت، اورترقی یافتہ نظام تعلیم شامل ہیں۔
گزشتہ سال یعنی 2019کے معیارزندگی کےاعتبار سے دنیا کی درجہ بندی یا رینکنگ میں کینیڈا کے بعد بالترتیب سویڈن، ناروے، ڈنمارک، سوئزرلینڈ اور فن لینڈ کا نمبر آتا ہے۔ کینیڈا کے پہلے نمبر پر آنے میں جن عوامل کا بنیادی کردار ہے اس میں کینیڈا کا سیاسی استحکام، مضبوط جاب مارکیٹ، محفوظ ماحولیات، اوراچھا نظام تعلیم ہے۔ اس درجہ بندی میں آسٹریلیا کا ساتواں نمبر، انگلنیڈ کا بارواں، جاپان تیرواں، فرانس کاسولواں ،امریکہ کا سترواں اورچین کا بیسواں نمبرہے۔
گویا انسان صدیوں سے تعمیر وترقی، خوشحالی یا سماجی و معاشی مساوات کے جو خواب دیکھتا آیا ہے، کینیڈا ان خوابوں کی پوری تعبیرتو نہیں ہے، مگران کی ایک چھوٹی سی جھلک ضرور پیش کرتاہے، اور مستقبل کے لیے بہتری کی امید جگاتا ہے۔ یہ کینیڈا کی رنگا رنگ تصویرکا ایک رخ ہے، جس پرکینیڈا کے لوگوں کو فخرہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کوئی انسانی سماج بھی ٘مثالی اورمکمل نہیں ہوتا۔ انسانی سماج جتنا بھی بام عروج پر کیوں نہ ہو پھر بھی اس میں کوئی نہ کمی یا خامی رہ جاتی ہے۔ اس خامی پرخواہ قابو پانے کی جتنی بھی کوشش ہو پھر بھی کبھی کبھی اس خامی یا کمزوری کی کوئی نہ کوئی جھلک ہمیں سر بازار دکھائی دیتی ہے۔ اس کمی یا کمزوری کی ایک مثال بے گھرافرد ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت کینیڈا کے سب سے بڑے شہرٹورانٹو میں بے گھرافراد کی تعداد دس ہزارکے قریب ہے۔ اس تعداد میں مسلسل کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ اسی طرح بے گھر شمار کیے جانے والے لوگ بھی بدلتے رہتے ہیں۔ یہ بے گھر افراد عام لوگ نہیں ہیں، جو تیسری دنیا کے لاکھوں بے گھرافراد کی طرح غربت ، بے روزگاری، اور سماجی تحفظ کی عدم موجودگی کی وجہ سے در بدر ہو جاتے ہیں۔ بلکہ یہ خاص لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے بے گھر ہونے کی اپنی الگ الگ وجوہات ہوتی ہیں۔
ان گونا گوں وجوہات میں اہم ترین ذہنی بیماریاں، منشیات کا ستعمال، گھریلوتشدد، جنسی جسمانی یا جذباتی استحصال اورخاندان میں ٹوٹ پھوٹ شامل ہے۔ بے روزگاری یا سماجی اور معاشی نا نصافی بھی اس طرح کے مسائل میں کئی نہ کئی ضرور کار فرما ہوتی ہے۔ اگرچہ کینیڈا میں بے روزگار کے لیے کم ازکم گزارہ الاونس اوربے گھر کے لیے شلٹرسنٹرز موجود ہیں۔شہر میں ذہنی یا جسمانی بیمار کے لیے ایک سپورٹ سسٹم موجود ہے، مگر اس کے باوجود کچھ لوگ اس سیفٹی نیٹ سے نکل کر کسی نہ کسی طرح سڑک پرآجاتے ہیں، ان میں وہ لوگ نمایاں ہیں، جو ذہنی یا جذباتی مسائل کے علاوہ منشیات کے استعمال جیسے مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔
کینیڈا میں ایمرجنسی شلٹرز، اوربے گھرافراد کے لیے پاِئے جانے والے مراکز یا پناہ گاہوں میں ہمیشہ ایک دو فیصد جگیں خالی پڑی رہتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہاں کوئی بھی شخص بے گھر ہونے پر مجبورنہیں ہوتا، بلکہ اس عمل میں اس کی ذہنی و جذباتی کیفیت اور فیصلہ سازی کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ اور شہر میں بہت سارے ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں، جو رہنے کی جگہ میسر ہونے یا کسی پناہ گاہ تک رسائی ہونے کے باوجود رات کو سڑک پر سوتے ہیں۔ کچھ لوگ ان بے گھر لوگوں کی تصاویر بنا کر یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک ترقی یافتہ فلاحی ریاست بھی ایسے انسانی مسائل پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ انسان خواہ کتنا ہی مثالی نظام کیوں نہ تعمیر کر لے پھر بھی کہیں نہ کہیں کمی رہ ہی جاتی ہے۔ چنانچہ اگر انسان اس دنیا میں جنت ہی تخلیق کردے تو پھر بھی کچھ مسائل باقی رہیں گے۔
بے گھر افراد پر بات کرتے ہوئے جو اہم سوال کھڑا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ بے گھری کیا ایک سماجی مسئلہ ہے، یا وسائل کی کمی کی وجہ سے ایک معاشی مسئلہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ ہاوسنگ کا سوال ہے، جس کے لیے مادی وسائل کی ضرورت ہے تاکہ ضرورت کے مطابق اس تعداد میں گھریا پناہ گا ہیں میسر ہوں۔ اس سوال کا جواب بھی سوال کی طرح ہی پیچیدہ ہے۔ بے گھری میں کوئی ایک یا دو نہیں بلکہ جیسا کہ اوپر ذکر کیا کئی عوامل بیک وقت کارفرما ہوتے ہیں۔
کینیڈا میں وافر وسائل کے باوجود سال 1997 سے بے گھر افراد میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ ایک بڑا سماجی مسئلہ بن گیا ہے۔ سا ل 2011 کے مشہور ایکشن پلان میں اس مسئلے کے حل کے لیے کینیڈا کی فیڈرل گورنمنٹ نے سالانہ ایک سو بیس ملین ڈالر خرچ کرنے کا علان کیا۔2014سے لیکر 2019 تک ایک نئی ہوم لیس پاٹنر پروگرام میں سات سو ملین ڈالر کی فنڈنگ کی گئی۔ اس باب میں حکومت کی توجہ کا مرکز ہاوسنگ فرسٹ رہا۔
اس ہاوسنگ فرسٹ پروگرام کے تحت نجی اور سرکاری ادارے یا تنظِیمیں گورنمنٹ سے فنڈنگ لے سکتی ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر کینیڈا ہرسال تیس بلین ڈالر کی خطیر رقم کرچ کرتا ہے۔ یہ خطیر رقم ان بے گھر افراد پر خرچ ہوتی ہے، جن کو سرکاری سطح پر بے گھر مانا جاتا ہے۔ بے گھر افراد کی کوئی مستقل سرکاری تعریف نہیں ہے۔ البتہ یارک یونیورسٹی میں قائم “کینیڈین ہوم لیس ریسرچ نیٹ ورک” کی تعریف عام طور پر تسلیم کی جاتی ہے۔ جس کے مطابق “بے گھری ایک فرد یا گھرانے کی حالت زار کا نام ہے، جس کے پاس کوئی مستقل، مستحکم اور رہنے کے لیے مناسب ٹھکانا نہیں ہے، اور اس کے پاس اس ٹھکانے کے حصول کا کوئی فوری ذریعہ نہیں ہے۔
بے گھری سماجی رکاوٹوں اور سستے گھروں کی عددم دستیابی، فرد یا خاندان کے ذہنی، جسمانی اور جذباتی حالات، نسل پرستی اور امتیازی سلوک کا نتیجہ ہے۔ اکثر لوگ بے گھر ہونے کا خود انتخاب نہیں کرتے، اور یہ عموما ایک منفی، نا خوشگواراور مایوس کن تجربہ ہوتا ہے“۔ اس جامع تعریف کے باوجودٹورانٹو کی سڑکوں پرجولوگ نظر آتے ہیں، ان میں سے کچھ استشنا ہیں۔ یہ غیرمعمولی اورخاص لوگ ہیں، جو نظام کے اندراس طرح نہیں رہ پاتے، جس طرح ان سے توقع کی جاتی ہے۔ یہ مختلف لوگ ہیں، اور ان کو باقی سماج سے مختلف انداز کا طرز بود وباش پسند ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کو اس جدید ارام وآسودگی کے دور میں ایک دوسری طرح کی بے گھری کا سامنا ہے۔
اس سلسلے میں حال ہی میں کرس رائیٹ کا ایک پرمغزمضمون میری نظر سے گزرا ہے۔ کئی دہایاں پہلے ایڈورڈ سعیدنے کہا تھا ہمارے عہد کی زندگی بے گھری کی ایک عمومی حالت ہے۔ مارٹن ہائیڈگر نے اس کو دنیا کا مقدرقراردیا تھا۔ نیو لیفٹ نے پورٹ ہوران کے مشہور اعلامیے میں لکھا تھا کہ ہمارے عہد میں محبت، آزادی، تخلیق اورکمیونٹی جیسی اقدارروبہ زوال ہیں۔ انسان اورانسان کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے تنہائی، بیگانگی کا نتیجہ ہیں۔ ہماری زندگی پرغالب آتے ہوئے یہ رحجانات بہترذاتی نظم و ضبط یا بہترآلات سے نہیں بدل سکتے۔ یہ صرف انسانی محبت ہی ہے، جوانسان کو مادی اشیا کی پوجا سے روک سکتی ہے۔ یہ جواجتماعی روگ ہے، اس کو کارل مارکس نے ایک صدی پہلے ہی پہچان لیا تھا ، اس نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں پوری وضاحت سے اس بارے لکھ دیا تھا۔
♦