افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے افغان جنگجوؤں کے ساتھ سات روز کی جنگ بندی کا معاہدہ طالبان کے عزائم کا امتحان ہے، جس سے واضح ہو جائے گا کہ وہ قیام امن میں کس حد تک سنجیدہ ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی نے جرمنی کے شہر میونخ میں جاری سالانہ سکیورٹی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت اٹھارہ سال سے جاری اس تنازعہ کے حل کے لیے عملی طور پر آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا، ”ہم اس تنازعہ کو صرف کاغذی مباحثے کی بنیاد پر حل نہیں کرسکتے‘‘۔
اطلاعات کے مطابق افغان طالبان نے امریکا کے ساتھ افغانستان میں سات روز کے لیے حملوں میں کمی لانے پر اتفاق کیا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ اس پر عمل کب اور کیسے ہوگا۔افغان صدر نے طالبان کے ارادوں پر تحفظات کا اظہار کیا تاہم انہوں نے کہا کہ انہیں یہ موقع دینا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ طالبان کے عزائم کا امتحان ہے، جس سے واضح ہو جائے گا طالبان امن میں کتنی دلچسپی رکھتے ہیں۔قبل ازیں جمعرات کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ مجوزہ امن معاہدہ طے ہونے کے بہت قریب ہے۔
افغان حکومت کی طرف سے امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں بطور فریق شامل ہونے کا مطالبہ کیا جاتا رہاہے۔ افغان صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر طالبان امن میں واقعی سنجیدہ ہیں تو انھیں جمہوری عمل کا حصہ بننا چاہیے۔میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے موقع پر صدر غنی کی امریکی اہلکاروں سے ملاقاتوں کے بعد، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے پر فریقین نے کوئی اتفاق کر لیا ہے۔ شاید اسی لیے دونوں فریقوں نے میونخ میں کوئی حتمی اعلان نہ کرنے پر اتفاق کیا۔ غنی کے مطابق یہ اعلان ایک ہفتہ سے دس روز کے اندر ہو سکتا ہے۔
افغان صدر اشرف غنی کے بقول، ”ہم ایک پیج پر ہیں۔ خطرات ضرور ہیں، لیکن یہ ایک موقع نظر آتا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا اور افغانستان کے درمیان باہمی اعتماد ہے کہ یہ کام مل کر کیا جا سکتا ہے۔ امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے گزشتہ روز کہا تھا کہ امریکااور طالبان کے درمیان معاہدہ ‘کارگار ثابت ہوگا‘۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں واشنگٹن اور طالبان کے درمیان متعدد دور کے مذاکرات کے باوجود، افغانستان میں قیام امن عمل کا معاملہ نازک اور غیر یقینی صوت حال کا شکار رہا۔
گزشتہ برس اگست میں افغانستان کے لیے امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد اور دوحہ میں طالبان کے مذاکرات کاروں نے افغانستان میں امن کے لیے ایک لائحہ عمل پر تقریباً اتفاق کر لیا تھا لیکن شدت پسند گروہوں نے افغانستان میں نیٹو پر حملے جاری رکھے، تو امریکی صدر ٹرمپ نے ستمبر میں یہ مذاکرات ختم کر دیے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ اب اس سال نومبر میں امریکی صدارتی انتخابات سے قبل امن معاہدے پر دستخط ہو جائیں۔
واشنگٹن میں جنوبی ایشیائی امور کے تجزیہ نگار مائیکل کوگل مین نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ کسی حتمی معاہدے پر دستخط سے پہلے پر تشدد کارروائیوں میں کمی پر متفق ہونے کے بعد امریکا اور طالبان امن معاہدے کے بہت نزدیک آگئے ہیں۔ کوگل مین کے بقول، ”اب سوال یہ ہے کہ کیا طالبان مشروط معاہدے پر عمل کرتےہوئے سات دن کے لیے پرتشدد کارروائیوں روکتے ہیں؟ یہ طالبان کے اتحادیوں، کمانڈر اور قیادت کا امتحان ہوگا کہ آیا وہ اپنے گروہوں کو جنگ بندی کا آرڈر دے سکتی ہے یا نہیں۔‘‘۔
علاوہ ازیں دوحہ امن عمل میں شریک بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ عین ممکن ہے کہ طالبان بائیس اور اٹھائیس فروری کے درمیان پرتشدد کارروائیوں میں کمی لائیں گے۔ اگر کامیابی ہوئی تو اس کے بعد امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے۔ لندن میں مقیم افغان صحافی سمیع یوسف زئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ، “دونوں فریقوں نے اسی معاہدے پر اتفاق کیا ہے جس کو ستمبر 2019 میں انھوں نے تقریباً حتمی شکل دے دی تھی”۔ انھو ں نےنے مزید کہا، ”طالبان کا کہنا ہے کہ سات روز تک پرتشدد واقعات میں کمی پر عمل کے فوری بعد معاہدے پر دستخط کر دیے جائیں‘‘۔
DW/Web Desk