قانون فہم
مہاجر قومیت کا پرچارک کرنے والے دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ ہیں۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب محسوس کرنے لگے ہیں کہ انہیں استعمال کیا گیا تھا۔ سندھی شناخت اور پی پی پی کو توڑنے کے لئے اور انھیں استعمال کرنے والوں کے مفادات دبئی کے ساتھ جڑے تھے۔
جنرل ضیا کے بعد آنے والے تمام جرنیل دبئی ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کے ملازم تھے اور عربوں سے ہر ریٹائرڈ آرمی چیف اربوں ڈالر وصول کرکے ریٹائر ہوتا رہا۔ یہ پیسہ انہیں کراچی کو برباد کرنے اور کراچی کی مرکزی حیثیت کو ختم کرنے کے عوض دیا جاتا تھا۔ کراچی پوری دنیا کے لیے ایک فطری ایئر ٹرانزٹ کی جگہ تھی۔ دبئی جیسے لق و دق صحرا میں شہر آباد کرنے کا منصوبہ کراچی کی بربادی کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا تھا۔
سنہ1980 میں کراچی ایئرپورٹ سے ہر تین منٹ کے اندر ایک جہاز آتا اور ایک اڑتا تھا۔ اس وقت دبئی ائرپورٹ پر ہفتے میں دو اور ریاض ائیرپورٹ پر ہفتے میں ایک فلائٹ جاتی اور آتی تھی۔ کراچی دنیا کے پہلے پانچ چھ اہم شہروں میں سے تھا۔ معاشی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ ٹورازم کے حوالہ سے معروف تھا۔ سہولیات اور رہائش کے اعتبار سے اعلیٰ ترین حیثیت رکھتا تھا۔
جنرل ضیا نے کراچی و سندھ سے پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لیے مہاجروں کو استعمال کیا اور کراچی کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ عربوں نے ہمارے جرنیلوں کو خرید کر دبئی بنانے کا پروگرام بنایا۔ہر طرح کے لوگوں سے ڈائیلاگ کرنا ممکن ہے۔ مگر رٹو طوطے کی طرح ایک ہی بات سننا کہ پی پی پی ملک دشمن ہے اور زرداری کراچی کا قاتل ہے۔ یہ بھی ڈائیلاگ کا کوئی لیول ہرگز نہیں ہے۔مہاجر قومیت کے نام پر پاکستان کا مستقبل چھیننے کی سازش کی گئی۔ کراچی کو برباد کیا گیا۔ اور خود مہاجر قوم کے ساتھ ظلم ہوا۔ مہاجر قومیت کا دعوی کرنے والوں کو انتہائی چھوٹی چھوٹی نوکریوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔
ان لوگوں کے اندر جو تعصب اور جھوٹ فیڈ کیا گیا ہے ۔ اس سے ہمیں بھی گھن آنے لگی ہے۔ سندھیوں کا شہر برباد کرکے دبئی کو دنیا کا محور بنادیا۔سندھی بھی پچھتاتے ہیں کہ اگر پاکستان نہ بنایا ہوتا تو کراچی کی شان اور شان و شوکت عظمت برقرار رہ سکتی تھی۔مہاجروں نے جرنیلوں کے ہاتھوں طوائف کا کردار ادا کرکے کراچی کی بربادی میں پورا حصہ ڈالامگر انھیں ملا کچھ نہیں۔
جن فوجیوں نے دبئی کو آباد کرنے کے لیے کراچی برباد کیا ان کی نسلون کی سات پشتیں سنور گئیں ۔مہاجر دس بیس ہزار کے لیے استعمال ہوئے ۔بے چارےکسی مہاجر قومی موومنٹ کے پرچارک کو دو نسلیں سنوارنے کے لائق موقع بھی نہیں ملا۔ چھوٹی چھوٹی نوکریاں اور چھوٹی چھوٹی تنخواہوں میں اپنے شہر کا مستقبل بیچ دیا۔
کراچی سرکلر ریلوےسنہ 84 میں ایم کیو ایم کے وجود میں آنے کے بعد بند ہوئی۔ایم کیو ایم والے متعدد بار غیر سیاسی ادوار میں رکھیل کے طور پر بھٹو دشمنی میں استعمال ہوتے رہے ۔مگر کبھی کراچی کو 1977 کی شکل میں بحال کرنے کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔کراچی شہر کو پانی حب ڈیم سے بھٹو نے دیا ۔کراچی شہر کو نیوکلیئر پراجیکٹ کے ذریعے بجلی بھٹو نے دی۔ اب بھی کراچی کی عظمت رفتہ کو پی پی پی کی حکومت ہی بحال کرے گی۔
سابق میئر مصطفی کمال کا ٹی وی انٹرویو وائرل ہے جس میں وہ تسلیم کرتا ہے کہ کراچی کی ترقی صرف پی پی پی کے دور میں ہی ممکن ہے اور الطاف حسین نے بھی اس امر کا برملا اظہار کیا ہے۔
♦