عدنان حسین شالیزئی
اکثر لوگ تقاریر پر مبنی تحاریر کو تقریر کے متن کا نام دیتے ہیں ۔ پوری کی پوری تقریر انہی کے الفاظ میں تحریر کرنا انتہائی مشکل کام ہے ۔
کل بروز منگل ، دس مارچ ، 2020 کو کابل میں ایک تقریب سے سابق سنیٹر افراسیاب خٹک نے خطاب کیا ۔ ان کے خطاب کا مفہوم ان کے الفاظ میں کچھ یوں تھا کہ ” ایک دفعہ میں ڈاکٹر نجیب اللہ کے ساتھ گردیز گیا ۔ وہاں پر عوامی اجتماع سے ڈاکٹر نجیب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” افغانستان سے روسی افواج نے انخلاء کا اعلان کر دیا ہے ۔ اب افغان حکومت سے لڑائی کا کوئی جواز باقی نہیں رہا ۔ اب بھی اگر کوئی گروہ اسلام کے نام پر افغان حکومت سے لڑتا ہے تو وہ پنجاب کا کاسہ لیس ہے اور وہ افغانستان کو پنجاب کے زیر نگیں لانے کا خواہش مند ہے ۔ مذکورہ تقریب میں ایک شخص کے سوال کے جواب میں ڈاکٹر نجیب نے فرمایا کہ پنجاب کا مقابلہ آسان ہے لیکن پنجابی ریاست ایک افغان شہری کی شکل میں افغان حکومت سے لڑ رہی ہے ۔ اس لیے ہمیں ایک افغان سے لڑائی میں مشکل پیش آرہی ہے۔ “۔
افراسیاب خٹک نے مزید کہا کہ “افغانستان خشکی کا سنگاپور ہے ۔ اگر ہمسایہ ممالک یہاں جنگ اور دہشت پر سرمایہ کاری کرنے کی بجائے یہاں تجارتی و کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دیں گے تو افغانستان ، سنگاپور سے بھی ترقی یافتہ ملک بننے میں دیر نہیں لگائے گا ۔ افغانستان ہزارہا صدیوں سے خشکی کے راستے تجارت کرنے والوں کیلئے ایک تجارتی راستہ مہیا کرتا تھا ۔ تب سے لے آج تک ساری دنیا کی نظریں افغانستان پر ہیں ۔
افغانستان کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر اب چائنا ون بیلٹ ون روٹ کے منصوبے کے تحت افغانستان میں تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دے گا ۔ چونکہ تجارت کیلئے امن ضروری ہے تو قوی امکان ہے کہ چائنا افغانستان میں امن کیلئے کام کرے گا ۔ افغانستان ، سرحد درہ واخان کے ذریعے پانچ ممالک کو جوڑتا ہے ۔ افغانستان میں بیرونی طاقتوں کی مداخلت کو بند کر کرلے تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دے کر ہی امن لایا جا سکتا ہے ۔
افغانستان میں پاکستان کی داخلہ و خارجہ پالیسی سے لے کر جنگ کے فیصلوں کا اختیار پاکستان کی فوج کے پاس ہے ۔ ہم عرصہ دراز سے پاکستانی ریاست سے یہ مطالبہ کرتے آ رہے ہیں کہ افغانستان میں جنگ کی بجائے تجارت اور کاروبار میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے ۔ جس میں دونوں طرف کا فائدہ ہے لیکن پاکستان اپنی سامراجی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ جس کی وجہ سے دونوں طرف نقصانات پیش آرہے ہیں ۔ ایک اور مغالطہ یہ ہے کہ افغانستان عالمی سامراجوں کا قبرستان ہے تو ہم پاکستان سے کہتے ہیں کہ آپ اپنی پراکسی وارز اپنے ہاں لڑو اور خود عالمی سامراج کے قبرستان بنو ۔ افغانستان کو اپنے حال پر چھوڑ دو ” ۔
انہوں نے کہا کہ ” بڑی خوشی اور اطمینان کی بات ہے کہ جس طرح سو سال پہلے باچا خان بابا نے تحریک اصلاح افغانہ ، خدائی خدمت گار تحریک شروع کی ۔ جو پشتون افغان وطن میں انقلابی تبدیلیوں کا باعث بنی ۔ اسی طرز پر آج پشتون نوجوانوں کی نئی اور زبردست تحریک ، پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے وجود میں آئی ہے جو کہ پشتون افغان وطن میں جنگ کی روک تھام اور خوشحالی و ترقی کیلئے خوش آئند امر ہے۔ میں پشتون وطن کے نوجوانوں کو اس تحریک کا ساتھ دیتے ہوئے دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھتا ہوں ۔
آخر میں انہوں نے پشتون افغان وطن میں میں مداخلت کرنے والوں ، دہشت گردی کا کاروبار کرنے والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ یہاں چنگیز ، سکندر اعظم ، روسی اور انگریز بھی آئے تھے ۔ سب یہاں سے چلے گئے ۔ مٹ گئے ۔ کسی کا نام و نشاں تک نہیں رہا ۔ اگر رہ گیا ہے تو وہ ہے افغان اور افغانستان ” ۔
♦
One Comment