آٹھ مارچ 2019 میں عورت مارچ کے موقع پر ایک نعرہ سامنے آیا میرا جسم میری مرضی ، جس کی بازگشت کئی ماہ تک سنی گئی۔ہر سال آٹھ مارچ کو عورتوں کو عالمی دن منایا جاتا ہے لیکن 2019 کے مارچ میں لگائے گئے نعروں نے پاکستانی ریاست کے رجعت پسند حلقوں میں زلزلہ برپا کر دیا۔
اور اب سال 2020 میں جوں جوں آٹھ مارچ قریب آتا جارہا ہے ان رجعت پسند حلقوں میں اضطراب بڑھتا چلا جارہا ہے ۔ اس مارچ کے خلاف کہیں اور نہیں لاہور ہائی کورٹ میں اس کو روکنے کے لیے درخواست دائر کی گئی۔ لیکن ہائی کورٹ نے اس درخواست کو مسترد کر دیا۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ عورت مارچ کو کوئی نہیں روک سکتا۔
حال ہی میں ایک ٹی وی ڈرامے سے شہرت پانے والے لکھاری خلیل الرحمن قمر ، جن کی تحریریں غیر ملکی فلموں کی کہانیوں کا چربہ ہوتی ہیں، عورتوں سے متعلق رجعت پسندانہ خیالات کی وجہ سے میڈیا میں سخت تنقید کا نشانہ بن رہے تھے ۔ اور وہ اپنے دفاع میں مسلسل خواتین کے حقوق اور صنفی مساوات پر یقین رکھنے کے بیان دے رہے تھے۔لیکن انسانی حقوق کی کارکن ، ماروی سرمد نے نہایت خوبصورتی سے اس شخص کے اندر کی غلاظت کو باہر نکالنے پر مجبور کر دیا۔
سوشل میڈیا میں اس پر شدید ردعمل سامنے آیا اور پر صارفین نے لکھا کہ
خلیل الرحمان قمر جیسے ڈرامے لکھنے کے نتیجے میں، جو شخصیت تشکیل پاتی ہے وہ کھل کر سامنے آگئی ہے۔ بہتر ہے اس کے ڈرامے پسند کرنے والے بھی اپنی شخصیت کا جائزہ لے لیں، کہ وہ اپنے محبوب لکھاری کے اخلاق کے کتنا قریب پہنچے ہیں۔ انسان کی شخصیت اور گفتگو اس کی فکر کی ہی تو عکاس ہوتی ہے۔ اور قمر صاحب کو اس عکاسی پر پورا عبور حاصل ہے۔
جب عورت یہ کہتی ہے کہ میرا جسم میری مرضی، تو اس میں غلط کیا ہے؟ آخر وہ کیا ذہنیت ہے جو اس نعرے سے خوف کھا کر بھڑک اٹھتی ہے؟ کہیں یہ وہی ذہنیت تو نہیں جو چاہتی ہے کہ عورت بہن بیٹی اور بیوی کی صورت میں مرد کے حکم کی پابند رہے اور خود کو انسان کی بجائے ان کی مرضی کا پابند بنائے رکھے۔ اس کی مرضی سے کہیں آئے جائے اور تعلیم کیلئے بھی اس کی مرضی کی محتاج ہو۔ شوہر جب چاہے بیوی کو اسکی مرضی کے خلاف اپنی شہوت کیلئے استعمال کرسکے اور اگر وہ انکار کرے تو اسے فرشتوں کی لعنت سے ڈرانے لگے۔ معلوم نہیں روائتی مرد کو اس نعرے سے خوف کیوں آتا ہے اور وہ اس میں فحاشی اور بے راہروی کیوں دیکھنے لگتا ہے۔ حالانکہ بے راہروی تو یہ ہے خود کو کسی دوسرے پر مقدس کلمات کے بہانے مسلط کیا جائے
ادیب و شاعر کسی بھی معاشرے کے اجتماعی شعور کا نچوڑ اور نمائندہ ہوتے ہیں۔ خلیل رحمٰن قمر کے جملوں نے واضح کر دیا ہے کہ شعوری حوالے سے ہمارے معاشرہ ارتقاء کے کس زینے پر ہے۔ خلیل قمر کو مطعون کرنا اپنی جگہ لیکن وہ اکیلا نہیں ہے۔ وہ ہمارے معاشرے کی اجتماعی اور غالب سوچ کا نمائندہ ہے۔
معروف بلاگر سلمان حیدر نے، میرا جسم میری مرضی ، کی تشریح کرتے ہوئے لکھا کہ
۔1۔ میں اس پر جینز پہنچوں یا ساڑھی دھوتی باندھوں یا شلوار اس سے ٹیکٹونک پلیٹوں کو کوئی غرض نہیں ہونی چا ہیے۔
۔2۔ مجھ سے بات کرتے ہوئے میری ٹھوڑی سے چار انگل اوپر دیکھیں چار انگل نیچے نہیں میری آنکھیں آپ کی طرح چہرے پر واقع ہیں۔
۔3۔ بس میں مجھے آپ کے نزدیک کھڑا ہونا پڑ گیا ہے تو اپنی کہنی سے میری پسلیوں پر گنتی سیکھنے کی کوشش مت کریں یہ حساب کی کلاس نہیں ہے نہ میں آپ کی میتھ کی ٹیچر ہوں۔
۔4۔ اگر آپ مجھ سے پچھلی نشست پر بیٹھ ہی گئے ہیں تو نشست کی ٹیک اور سیٹ کے بیچ سے پیر میری تشریف میں گھسانے سے پرہیز کریں۔
kicking someone’s ass
کا کیا یہ مطلب آپ غلط سمجھے ہیں۔ اصل مطلب کیا ہے یہ میں آپ کو ایسی کسی کوشش کے نتیجے میں سمجھا سکتی ہوں
۔5۔ اگر میرا وزن آپ کی توقع سے زیادہ ہے تو اس کے بارے میں اپنے خیالات اپنے تک محدود رکھیں آپ کا دماغ چھٹانک بھر کا ہے میں نے آپ سے کبھی نہیں کہا۔
۔6۔ اگر خدا حافظ کہتے ہوئے آپ کے ہاتھ بڑھا دینے پر میں نے ہاتھ ملا ہی لیا ہے تو اسے چھوڑ دیجیے میں ایک ہاتھ آپ کے ہاتھ میں چھوڑ کر گھر نہیں جا سکتی۔
۔7۔ مجھے دوڑتا دیکھ کر اگر آپ کا سانس سینے میں نہیں سما رہا تو فوری ڈاکٹر سے رجوع کریں دل کا دورہ پڑنے کی صورت میں میں سی پی آر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
۔8 ۔جسم میں جنسی اعضاء کے علاوہ دیگر اعضاء بھی ہوتے ہیں کبھی ان کے بارے بھی سوچ لیا کریں۔
اس حوالے سے یہ کہنا ضروری ہے کہ اس ضمن میں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ شامل ہے اور مجھے بھی اس میں سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ سیکھتے جائیے صورتحال بہتر ہوتی جائے گی۔
Web Desk