امین مغل
چند عزیز و دوست آجکل خیرخیریت پوچھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ستر اسی یا نوے سال کے پیٹے میں خود ساختہ قید میں سارا دن کیا کرتا ہوں؟
تھوک میں آئے کھٹے میٹھے واٹس ایپ اور ٹیکسٹ میسج دیکھتا ہوں مگر وقت کافی بچ جاتا ہے۔ کچھ دیر ورق گردانی اور کچھ دیر عبادت ۔ ایک آدھ گھنٹہ ٹریڈ مل پر بھاگ لیتا ہوں اور بس. ۔ کاش انِ دنوں دو بٹیرے ہوتے تو اُن کی لڑائی دیکھتا۔ اور کسی ایک پر شرط لگا کر کبھی جیتتا اور کبھی ہارتا۔
میرے دوست!اگر تمہارے جیسا قریب ہوتا تو اس کے ساتھ لڈو کھیلتا۔
ٹی وی صبح شام موت بیچ رہا ہے۔ مردے جلانے دفنانے کی بحث جاری ہے ۔
ہمارا وزیر اعظم اپنے ہر بھاشن میں ہم جیسے بوڑھوں کو مرنے کے لیے پوری طرح تیار کر چکا ہے۔
اب مرنے کے لیے بوڑھے تیار بیٹھے ہیں۔ جو مر کر معیشت کا بوجھ ہلکا کریں گے بلکہ مکانوں، فلیٹوں کی موجودہ کمی کو بھی کسی حد تک کم کر جائیں گے۔
تمام دینی ادارے موت کی معینہ مدت پوری ہونے تک زندہ رہنے کی ڈھارس بندھا رہے ہیں ۔ مگر سائنس اسی کھوج میں ہلکان ہورہی ہے کہ اس وائرس کو جننے والی ماں کون تھی جس نے آج کے ہلاکو خان کو پیدا کیا۔ اب یہ ہلاکو بے شطر بے مہار ط ملکوں ملکوں دنداناتا پھر رہا ہے۔
ہلاکو کو بھی گلے کاٹنے میں مزہ آتا تھا اور یہ بھی اپنا پہلا پڑاؤ گلے میں کرتا ہے ۔ اس کے منہ نہ لگنے کی کئی تجاویز خوف کی مارکیٹ میں ہاتھوں بک رہی ہیں۔ جن میں گرم پانی ۔ لیموں۔ ہلدی۔ ادرک۔ گرم بھاپ۔ وضو کا اولین جز( ہاتھ دھونا)۔
ان دنوں ٹڈی دل کی طرح نیم حکیم ۔ حکیم۔ وید۔ ڈاکٹر۔ ناصح۔مسخرے۔ شاعر۔ مغنی۔ سب اپنا اپنا مال ہمت بندھا کر یا خوف دلا کر خوب بیچ رہے ہیں ۔
میرے جیسے ضعیف العتقاد فوراََ نہ صرف خریدتے ہیں بلکہ اُن کے مال کو پھیلانے میں اپنا فرض کفایا سمجھتے ہیں۔ جہاں مولوی کا رزق بند ہوا ہے وہاں طوائف کا کو ٹھا بھی اجڑ گیا ہے۔
میرے دوست! دعا کیا کر کہ یہ رونقیں جلد بحال ہوں اور دونوں اپنے اپنے گاہکوں کے درمیان ہوں۔
ایک عام مشورہ دیا جاتا ہے اپنا خیال رکھنا۔
روٹی ہاتھ دھو کر کھانا۔ وسلام