ڈاکٹر عبدالمالک کاسی کی زندگی کے مختلف پہلو
پائند خان خروٹی
یہ ایک معاشرتی المیہ ہے کہ مختلف شعبوں میں اعلیٰ صلاحیتوں اور صفات کی حامل شخصیات کے علم ، تجربے اور دانش سے سماج کو مستفید کرنے اور قومی کارواں کوآگے بڑھانے کیلئے نہ ریاست کے پاس کوئی قابل عمل حکمت عملی موجود ہے اور نہ ہی موجودہ قومی سیاسی تنظیمیں معاشرے کی نمایاں شخصیات کو مفاد خلق کے فائدے میں ایڈجسٹ کرنے کی کوئی صلاحیت رکھتی ہیں ۔ ایسی شخصیات اپنی ذات کی تزئین اور اہل خانہ کیلئے کوئی روٹی روزی کابندوبست تو کرلیتے ہیں مگر سماج ان کے حاصل کردہ قیمتی تجربات سے محروم رہ جاتا ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کی ان گراں مایہ نازشخصیات کے علم ، تجربہ اور سرمایہ سے پورے معاشرے بالخصوص محروم اور محکوم طبقات کو مستفید کیا جائے ۔ یہ فریضہ ریاست کے ساتھ ساتھ قیادت کے علمبردار قومی سیاسی تنظیموں کابھی ہے ۔
ایسی شخصیات میں ایک نام ڈاکٹر عبدالمالک کاسی کا ہے جو صحت کے شعبہ کے علاوہ سیاست اور علم وادب کے میدان میں نہ صرف گہری دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ ایک قد آور شخصیت کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب سابق وفاقی وزیر صحت کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں ۔
واضح رہے کہ کاسی قبیلہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ شہر کی قدیم ترین آبادیوں میںسے ایک ہے جسے عمومی طورپر وادی کوئٹہ کے سب سے پرانا والی ووارث بھی تسلیم کیاجاتا ہے ۔ کاسی قبیلہ کی شہر کی ترقی میں خدمات سے سب ہی واقف ہیں ۔ ان کے بزرگوں کے نام سے کوئٹہ میں آج بھی دود رجن کے قریب شاہرائیں اور گلیاں منسوب ہیں اس کے علاوہ صحت اور تعلیم کے متعدد ادارے کاسی قبیلے کے سرکردہ افراد نے تحفے کے طو رپر عوام کی فلاح وترقی کیلئے دیئے ہیں ۔
ڈاکٹر عبدالمالک کاسی سمیت کاسی قبیلے کے کئی ممتاز شخصیات ہیں ۔ سلطنت عثمانیہ سے لے کر تحریک استقلال تک ، خدائی خدمتگار سے لے کر انجمن وطن تک آل انڈیا مسلم لیگ سے لے کر’’ ورورپشتون ‘‘تک اور لٹ خانہ سے لے کر پشتونخوامپ تک اور اس کے علاوہ علم وادب کے شعبے میں کاسی اہل علم ودانش نے ناقابل فراموش خدمات سرانجام دی ہیں ۔ ان میںعباس کاسی (پٹہ خزانہ) ، نواب عبدالقادر کاسی ، منشی ملک عبدالرب کاسی ، اختر محمد کاسی ، ملک سید محمد کاسی ، ملک جان محمد کاسی ، ملک عثمان کاسی ، عبداللہ جان کاسی ، خالو کاسی ، ملک امان کاسی ، ارباب ظاہر کاسی ، در محمد کاسی ، سپین گل کاسی ، ملک عنایت کاسی ، آغا محمد کاسی اور ماہر تعلیم عبدالقادر کاسی وغیرہ نمایاں ہیں ۔
ڈاکٹر مالک کاسی نے کتابوں کاایک ذخیرہ اپنی ذاتی لائبریری میںجمع کررکھا ہے جو تمام دلچسپی رکھنے والوں کیلئے ہروقت دستیاب رہتی ہے۔ مذکورہ نایاب کتابوں کے علاوہ آثار قدیمہ کی دستاویزات اور مختلف یادگاریں بھی موجود ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب انتہائی شفیق شخصیت کے مالک ہیں اور خاص طو رپر نوجوانوں کوزیادہ سے زیادہ سوشل اور سائنسی علوم تک رسائی دیکر خوش ہوتے ہیں ۔ علم کے طلبگاروں کے علاوہ دکھی انسانیت کی ہرطرح کی خدمت کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں اور اکثر ان کی فراہم کردہ مالی امداد سے ان کے گھر والے بھی باخبر نہیں ہوتے ۔
سال 2008ء میں دہشت گردی کے ایک افسوسناک قومی سانحہ میں ان کے بیٹے بیرسٹر دادو کاسی سمیت متعدد وکلاء شہید ہوئے تو انہوں نے تمام شہداء کے یتیم بچوں کو مفت زمین فراہم کرکے لوگوں کے دل ودماغ میں احترام کی ایک نئی جگہ بنالی ۔
صحافی اور اہل قلم کے ساتھ ڈاکٹر عبدالمالک صاحب خاص ربط وتعلق رکھتے ہیں ۔ کوئٹہ کے اکثر سینئر کالم نگاروں کو نہ صرف وہ نام سے جانتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ خوش گوار مراسم بھی رکھتے ہیں ۔ روزنامہ جنگ کوئٹہ کاعلم وادب کاصفحہ وہ باقاعدگی سے پڑھتے ہیں او راکثر اپنی رائے بھی دیتے ہیں ۔
ڈاکٹر عبدالمالک صاحب پورے خطے اور بالخصوص پشتون افغان کی تاریخ ، سیاست علم وادب اور قبائل کے حوالے سے گہرا علم رکھتے ہیں ۔ اس کے حوالے سے متعدد انٹرویوز ، تقاریر اور مضامین بھی موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کی زخیم تاریخی کتاب ’’آریانہ‘‘ انگریزی زبان میں شائع ہوچکی ہے ۔
ایسی شخصیات کے علم وتجربے کی سماجی افادیت مسلمہ ہے اور کسی صورت ضائع نہیں ہونا چاہیے ۔ اس سلسلے میں ریاست اور سیاسی جماعتوں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے اور خود ڈاکٹر عبدالمالک کاسی جیسی شخصیات کوبھی مختلف ذرائع اختیار کرکے اپنے تجربات سے زیر دست طبقے کے تحفظ کیلئے نئی نسل تک منتقل کرنے کی عملی کاوشیں کرنی چاہیے ۔
اس تحریر کامقصد اس ضرورت کواُجا گر کرنا ہے کہ ایسی شخصیات کے علم وخدمات کو ضائع ہونے سے بچایاجائے ۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی نے اس عمل کو ہمارے لیے آسان بنادیا ہے کہ کسی بھی شخص کی صلاحیت کواُجاگر کر کے اس سے استفادہ کرنے اور اس کی سماجی افادیت کو یقینی بنا نا سب کیلئے ممکن اور آسان ہوگیا ہے ۔ ضروری ہے کہ ہمیں اپنی قومی ذمہ داری کااحساس اور اس کی ادائیگی کا ار ادہ ہو۔
♦