ڈاکٹر حضرات سازوسامان کے نہ ہونے کی وجہ سے مر رہے ہیں اور خود کرونا وائرس کا شکار ہو رہے ہیں جبکہ چین سے ملنے والے حفاظتی سازوسامان کو پہن کر فوجی پریڈ کرتے پھر رہے ہیں۔
جی ہاں یہ بالکل سچ ہے۔
چین کی طرف سے ملنے والی امداد دراصل فوج کے تحت چلنے والے ادارے این ڈی ایم اے کے پاس جا رہی ہے جو اس امداد میں ملے حفاظتی سازو سامان کو دباکر بیٹھا ہواہے۔ فی الحال یہ سازو سامان صرف فوجی ہسپتالوں اور شہروں میں موجود فوجیوں کو دیاجا رہا ہے۔ وجہ صرف یہ ہےکہ اس وقت جرنیلوں کو اپنی چوہدراہٹ ہلتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ظاہر ہے ان جرنیلوں کی اصل طاقت وہ سپاہی ہیں جو ان کے حکم پر عوام پر بندوقیں تانتے رہے ہیں اور پارلیمنٹ ہاوس یا وزیر اعظم ہاوس کی دیواریں پھلانگتے رہے ہیں۔ اگر یہ وائرس ان فوجیوں میں پھیل گیا تو پھر عوام کو بندوق کون دکھائے گا؟ اس خطرے کے پیش نظر چین اور دیگر ممالک سے ملنے والی امداد کو فوج نے پوری طرح قبضے میں لیاہوا ہے جبکہ فوجی ہسپتالوں میں شہریوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔
اس موقع پر این ڈی ایم اے کی تاریخ جاننی بہت ضروری ہے۔ یہ ادارہ براہ راست فوج کے زیر اثر ہے جس کا قیام 2005 کے زلزلے کے نتیجے میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور ادارہ ایرا بھی قائم کیا گیا تھا۔ این ڈی ایم اے کے ذمہ بیرونی امداد لے کر اس سے متاثرین کی مدد کرنا تھا جبکہ ایرا کے ذمہ بیرونی امداد کو استعمال کر کے بے گھر ہونے والے متاثرین کی آبادکاری تھی۔
سال 2018 میں این ڈی ایم اے اور ایرا کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ چلا تھا جس میں یہ بات پتہ چلی کہ بیرونی امداد میں سے پانچ ارب ڈالر ان اداروں نے خورد برد کر لیئے تھے۔ اس وقت کے چیف جسٹس نے این ڈی ایم اے کے سربراہ جنرل عمر محمود حیات کو عدالت میں طلب کیا تھا لیکن جرنیل صاحب نے اکڑ دکھاتے ہوئے عدالت کے سامنے آنے سے انکار کر دیا تھا۔
کیس کا حوالہ یہ ہے:۔
https://nation.com.pk/01-Jan-2019/cjp-seeks-response-on-irregularities-in-2005-earthquake-fund
اس کیس پر مزید کاروائی ہوئی توپتہ چلا کہ این ڈی ایم اے اور ایرا کو چلانے والے فوجی افسروں نے اس پیسے کو متاثرین کی بحالی پر خرچ کرنے کی بجائے اس سے قیمتی گاڑیاں اور جائیدادیں خرید لی تھیں۔
خبر کا حوالہ یہ ہے:۔
https://www.dawn.com/news/1396091
بہرحال کیس کا کوئی فیصلہ نہ ہونا تھا اور نہ ہوا۔ اگر ہو جاتا تو بھی جرنیلوں کو سزا تو کیا ہی ہونی تھی الٹا فیصلہ سنانے والے جج نے گھر چلے جانا تھا۔ فیض آباد دھرنہ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج جسٹس فائز عیسیٰ کی مثال آپ کے سا منے ہے۔ عدالت نے صاف الفاظ میں جنرل فیض حمید کو سویلین حکومت کے خلاف سازش اور شدت پسندوں سے سازباز کا ذمہ دار قرار دیا تھا لیکن جنرل فیض دھڑلے سے آئی ایس آئی کا چیف بن گیاجبکہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف انکوائری شروع کروا دی گئی جو بعد میں جعلی ثابت ہوئی۔ دوسری مثال یا جنرل مشرف کے آئین شکنی کیس کے فیصلے کی ہے۔ چار سال چلنے والے مقدمے کا فیصلہ سنانے والا اعلی عدالت کا بینچ ماتحت عدالت کے زریعے راتوں رات غیر قانونی قرار دلوا دیا گیا اور کیس ختم کروا دیا گیا۔
درحقیقت اس ملک میں فوجی جرنیل دھڑلے سے بدمعاشی کرتے ہیں اور ان کو کوئی پوچھنے والانہیں۔ ظاہر ہے ان جرنیلوں کے ساتھ بندوق والے سپاہی ہیں۔ وہی سپاہی جن کی جان آج بائیس کروڑ عوام سے زیادہ قیمتی ہے۔ دوسری طرف عوام کا یہ حال ہے کہ ان کو چاہے جتنے بھی حقائق دکھائے جائیں ان کی عقل پر پڑا پردہ ہٹنے کانام ہی نہیں لیتا۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ جرنیل کیا کرتے رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں لیکن پھر بھی یہ لوگ مذمت کرنے کی بجائے الٹا ان جرنیلوں کا دفاع کرنے لگتے ہیں۔ پچھلے بہتر سالوں میں جھوٹ اور منافقت پر مبنی پراپیگنڈے کے ذریعے اس قوم کو اتنا بے حس بنا دیا گیا ہے کہ اب ان کو اپنے حقوق کی پرواہ ہی نہیں۔ لیکن ۔۔۔
اس بار حالات بہت مختلف ہیں۔ اب اگر قوم بےحسی کامظاہرہ کیا تو انتہائی تکلیف دہ موت تیار کھڑی ہے۔ یہ موت بھی آپ کے لیے جرنیلوں کا تحفہ ہے جنہوں نے ڈالروں کے لالچ میں جانتے بوجھتے تفتان بارڈر سے کرونا متاثرین کو ملک میں آنے دیا تاکہ پاکستان میں یہ وائرس پھیلے اور عالمی برادری امداد بھیجے۔ یہ موت کس شکل میں آپ کے سامنے آئے گی اس کی ایک جھلک پاکستان کے ڈاکٹروں کی طرف سے جاری کیئے گئے ایک اعلامیئے کی روشنی میں پیش خدمت ہے: ۔
ڈاکٹروں کے مطابق پاکستان کے پاس کرونا کے ٹیسٹ کی سہولیات موجود نہیں لہذا تمام ممکنہ متاثرین کو ٹیسٹ نہیں کیاجا سکتا۔ اس وقت تک جتنے ٹیسٹ ہوئے ہیں ان کے مطابق ستر فیصد سے زائد مثبت کیس سامنے آئے ہیں اور اگر ہزاروں ممکنہ متاثرین کے ٹیسٹ کیئے جائیں تو پاکستان میں کرونا کے مریضوں کی تعداد اٹلی یا چین سے بہت آگے چلی جائے گی۔
ڈاکٹروں کے مطابق ہزاروں پاکستانی اس وقت انکیوبیشن پیریڈ سے گزر رہے ہیں یعنی وہ دورانیہ جب وائرس آپ کے جسم میں ہوتا ہے لیکن علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ اس دوران بیماری کا پتہ صرف خاص ٹیسٹ کے ذریعے لگایا جا سکتا ہے جس کی سہولیات ہمیں میسر نہیں۔انکوبیشن پیریڈ تیرہ دنوں کا ہوتا ہے جس کے دوران مریض بالکل نارمل ہوتے ہیں لیکن وہ چلتے پھرتے یہ وائرس دوسروں میں منتقل کر رہے ہوتے ہیں۔ تیرہ دن بعد جب علامات ظاہر ہوتی ہیں تو چوبیس گھنٹے میں مریض کی حالت غیر ہو جاتی ہے اور اس کی موت بھی ہو سکتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ سب کے درمیان اس وقت کئی ممکنہ متاثرین گھوم رہے ہیں جن سے وائرس دوسروں میں منتقل ہو رہا ہے اور مارچ کے اختتام یا اپریل کے پہلے ہفتے میں پاکستان میں اس وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی صحیح تعداد سامنے آئے گی۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو تڑپ تڑپ کر اور تنہائی کی حالت میں موت کی آغوش میں جائیں گے کیونکہ لوگ ان سے دور بھاگ رہے ہوں گے۔ جی ہاں اس ملک میں وائرس کی وجہ سے اموات زیادہ ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ ناکافی اور جعلی خوراک کے معاملے میں ہم دنیا میں کافی نچلے درجے پر ہیں۔
ان معلومات کی روشنی میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی اموات میں شاید پاکستان سب سے آگے جاسکتا ہے۔ دکھ اس بات کاہے کہ جب آپ یا آپ کے بچے وائرس سے متاثر ہونے کے بعد تڑپ رہے ہوں گے تو بغیر حفاطتی اقدامات کیے ڈاکٹر آپ کو بچانے میں لگے ہوں گے اور فوجی افسران چین سے ملی حفاظتی کٹوں میں ملبوس آپ کے نام پر آئی ایم ایف سے ملنے والے ڈالر گن رہے ہونگے۔ بس ہماری آپ سے ایک التجا ہے کہ اگر آپ وائرس سے متاثر ہو کر مر رہے ہوئے تو پاک فوج زندہ آباد کا نعرہ ضرور لگا دیجیئے گا اور اگر خوش قسمتی سے آپ وائرس سے محفوظ رہتے ہیں تو آئندہ اپنے اصل دشمن کو پہچان کر جیئیے گا۔
Web Desk
♦