فروری 1849 میں گجرات کے نزدیک چیلیانوالہ میں دوسری اینگلو سکھ جنگ میں لاہور دربار کی افواج کو شکست دے کر مارچ 1849 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب پر قبضہ کرلیا۔ 40 سال قبل مہاراجہ رنجیت سنگھ نے لاہور فتح کرکے جس سلطنت کی بنیاد رکھی تھی وہ اس کے جانشینوں کی نااہلی، درباری سازشوں، سکھ سرداروں کے لالچ، باہمی آویزشوں اور معاشی و اقتصادی بدحالی کا بوجھ نہ سنبھالنے کی بدولت زمین بوس ہوئی تھی۔
رنجیت سنگھ کے پرکھوں کا تعلق گجرانوالہ کے نواحی علاقوں سے تھا۔ اس کے خاندان میں بدھ سنگھ وہ پہلا شخص تھا جس نے نمایاں مقام حاصل کیا تھا۔ بدھ سنگھ بارے کہا جاتا تھا کہ سکھ مذہب کے دسویں گورو گوبندسنگھ نے اسے پہول دے کر سکھ مذہب میں داخل کیا تھا۔بدھ سنگھ اور اس کی گھوڑی دیساں کو گجرانوالہ اور اس کے گردو نواح کے علاقوں میں الف لیلوی شہرت حاصل تھی۔
بدھ سنگھ آخری عہد مغلیہ کے پنجاب کے ان وار لارڈز میں سے تھا جنھوں نے ابتدائی طور پر راہزنی کی بنیاد پر طاقت و قوت حاصل کی تھی اور پنجاب بھر میں چھوٹی چھوٹی خود مختار ’حکومتیں‘ قائم کرلی تھیں۔بدھ سنگھ 1718میں اپنے دشمنوں کے ہاتھوں زخمی ہوکر مرگیا۔بدھ سنگھ کے بیٹے نودھ سنگھ نے سکر چک کے گاوں کو اپنا مرکز بنایا اور ایک گروہ منظم کیا جو بعدازاں اس کے گاوں کے نام کی مناسبت سے سکرچکیہ مشہور ہوا تھا۔
سکر چکیہ گروہ سے وابستہ افراد نے دیگر سکھ گروہوں جنھیں ان دنوں مثل کا نام دیا جاتا تھا احمد شاہ ابدالی کے خلاف متعدد لڑائیوں میں حصہ لیا اور جہلم اور راوی دریاوں کے درمیانی علاقوں پر قبضہ جمالیا۔نودھ سنگھ بھی 1752میں ہوئی ایک لڑائی میں مارا گیا۔
نودھ سنگھ کی موت کے بعد اس کے سب سے بڑے بیٹے چڑھت سنگھ نے اپنے باپ کے قبضے کئے علاقوں کا انتظام و انصرام سنبھالا۔ چڑھت سنگھ نے اپنا مرکز سکر چک گاوں سے گجرانوالہ منتقل کرلیا۔چڑھت سنگھ نے گجرانوالہ شہر کے اردگرد فصیل بنوائی اور شہر کی حفاظت کے لئے اس کے چاروں اطراف میں مورچے بنواے تھے۔
چڑھت سنگھ اپنی ہی بندوق پھٹنے سے ہلاک ہوگیا اور اس کا 42 سالہ بیٹا مہاں سنگھ اس کا جانشین قرار پایا۔ مہاں سنگھ نے گجرانوالہ شہر کے اندر اپنا قلعہ تعمیر کرایا جس کا نام اس نے گڑھی مہاں سنگھ رکھا تھا۔ مہاں سنگھ نے رسول پور، علی پور، پنڈی بھٹیاں، ساہی وال،عیسی خیل اور سیال کوٹ پر قبضہ کرلیا۔ یہ مہاں سنگھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا باپ تھا۔
رنجیت سنگھ 13نومبر 1780 کو گجرانوالہ میں پیدا ہوا۔ ایک تحقیق کے مطابق وہ سندھ کے قریب واقع ایک قصبے بدرکھان میں پیدا ہوا تھا کیونکہ اس کی ماں راج کور کا تعلق اسی قصبے سے تھا۔بچپن میں رنجیت سنگھ چیچک کا شکار ہوگیا جس کی وجہ سے اس کی بائیں آنکھ ضایع ہوگئی تھی اور اس کے چہرے پر بد نما داغ ابھر آئے تھے۔ رنجیت سنگھ کے بچپن بارے کچھ زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں لیکن ایک بات مصدقہ ہے کہ وہ بالکل ان پڑھ تھا۔
رنجیت سنگھ کے سوانح نگاروں نے اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے۔ہندو اور سکھ لکھاریوں نے اسے ایک نیک،پاکباز اور ایثار و قربانی سے بھرپور پنجابی قوم پرست کے طور پر پیش کیا ہے۔ان لکھاریوں کی علمی اور تحقیقی بد دیانتی نے رنجیت سنگھ جیسے ولولہ انگیزانسان اور پختہ کار سیاستدان کو ایک بے روح سادھو اور سادہ فہم و فراست کا حامل قوم پرست بنادیا ہے۔
مسلم مورخین کا رویہ رنجیت سنگھ کے بارے میں تعصبات سے بھرپور اور یک طرفہ ہے۔وہ اسے بے وقوف، مجہول اور عیاش انسان کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں آج بھی رنجیت سنگھ کی بے وقوفی بارے لطایف زبان زد عام ہیں۔ جہاں تک تعلق ہے انگریز مورخین کا تعلق ہے تو انھوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو اخلاق سے عاری، شاطر اور وعدوں سے مکرجانے والے ہندوستانی حکمران کے طور پر یاد کیاہے۔انگریز مصنفین نے مہاراجہ بارے سنی سنائی باتوں کو اپنی تحقیق کی بنیاد بنا کر انھیں مستند بنانے کی کوشش کی ہے۔
رنجیت سنگھ نہ تو ایک بے غرض پنجابی قوم پرست تھا جیسا کہ پنجابی قوم پرست اس پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی عیاش اور لالچی اور خود غرض جیسا کہ اس کے مخالفین اسے پینٹ کرتے ہیں۔وہ نہ تو نیکی کا مجسمہ تھا اور نہ ہی محض شہوت پرست شیطان۔وہ تو ایک ایسا ولولہ انگیز اور زندگی سے بھرپور کردار تھا کہ اس کی داستان حیات کو بے جان حقایق اورخشک اور ادق اعداد و شمار کے ذریعے بیان نہیں کیا جاسکتا۔
رنجیت سنگھ ہر اعتبار سے اتنا ہی غیر معمولی حکمران اور انسان تھا جتنا اس کا ہم عصر فرانس کا نپولین۔وہ ایک عام سے سکھ سردار سے ترقی اور عروج حاصل کرکے انیسویں صدی کے ہندوستان کا ایک طاقتور حکمران بنا ایک ایسا حکمران جس نے انگریز وں سے برابری کی سطح پر مذاکرات اور معاہدے کیے تھے۔
یہ کریڈٹ رنجیت سنگھ کو ہی جاتا ہے کہ اس نے اپنی سلطنت قائم سینکڑوں جاگیرداروں اور وار لارڈز کو اپنا مطیع اور فرماں بردار بنایا اور اور بہت بڑی خون ریزی کے بغیر اتنی بڑی سلطنت قائم کی جس کی سرحدیں شمال میں چین اور افغانستان جب کہ جنوب میں سندھ کے صحراوں تک پھیلی ہوئی تھیں۔
رنجیت سنگھ نے اپنی رعایا میں مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق روا نہیں رکھی تھی اور اس کی فوج میں شامل ہندو اور سکھ فوجیوں نے اپنے ہم مذہب ہندو اور سکھ فوجیوں کو شکست دی تھی اور مسلمان فوجیوں نے’کافروں‘ کا ساتھ نہ دینے کے مطالبے کو حقارت سے مسترد کردیا تھا۔
رنجیت سنگھ کی شخصی زندگی اس کے سیاسی اور فوجی کیر ئیرکی طرح ہی رنگین تھی۔ اگرچہ وہ کوئی خوبصورت انسان نہیں تھا تاہم وہ اپنے ارد گرد خوبصورت عورتوں اور مردوں کو دیکھنا بے حد پسند کرتا تھا۔ اس کی قدوقامت معمولی تھی لیکن وہ انتہائی بہادر اور دلیر تھا۔وہ شراب نوشی میں احتیاط برتنے پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ تاہم ناو نوش کی محفلیں ختم ہونے کے بعد وہ صبح تک اپنے عملے کو خطوط اور اور دیگر دفتری امور ڈکٹیٹ قرایا کرتا تھا۔ وہ سیاسی چالیں بہت سمجھ بوجھ کر چلتا تھا لیکن یہ بھی مشہور تھا کہ وہ صرف ایک گھوڑے کے حصول کے لئے قتل و غارت بھی کرسکتا تھا۔
رنجیت سنگھ کی قائم کردہ سلطنت کے انہدام بارے بھی بہت سطحی اور غیر متعلق وجوہات کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ تمام فیوڈل ایمپایرز کسانوں کے استحصال اور فتوحات سے حاصل ہونے والی لوٹ مار پر چلتی رہی ہیں۔ رنجیت سنگھ کی زندگی ہی میں فتوحات کا سلسلہ رک چکا تھا۔ جاگیرداروں کی طرف سے نافذ کردہ بھاری ٹیکسوں کی بدولت کسان غربت اور ناداری کے ہاتھوں نڈھال ہوچکے تھے۔ ان کے پاس لاہور دربار کو دینے کے لئے کچھ نہیں تھا۔
ریونیو کے دونوں ذرائع بند ہونے اور یورپ میں برطانیہ، فرانس اور بعد ازاں وسطی ایشیا کی پیش قدمی کی بدولت ایسٹ انڈیا کمپنی زیادہ تر سکھ سلنطت کی آزادی و خود مختاری کو برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔ چنانچہ رنجیت سنگھ کے جانشینوں کی نالایقی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی سازشوں اور بہتر فوجی، سفارتی اور سیاسی حکمت عملی کی بدولت رنجیت سنگھ کی سلطنت چار دہائیوں کے بعد زمین بوس ہوگئی۔
رنجیت سنگھ از خشونت سنگھ
اردو ترجمہ: احسن بٹ،
نگارشات پبلشرز مزنگ روڈ لاہور