سعودی حکومت نے ملکی شاہی خاندان کے تین اہم ارکان کو گرفتار کر لیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے چھوٹے بھائی شہزادہ احمد بن عبدالعزیز اور بھتیجے محمد بن نائف بھی شامل ہیں۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے مطابق نقاب پوش سعودی گارڈز نے شاہی خاندان کی ان شخصیات کو جمعے کے روز ان کی رہائش گاہوں سے حراست میں لیا اور ان کی رہائش گاہوں کی تلاشی بھی لی گئی۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ شاہی خاندان کے ان سینیئر ارکان کو کن الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا۔ سعودی حکومت نے بھی اس حوالے سے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ تاہم مختلف ذرائع کے مطابق ان افراد کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
روئٹرز سمیت مختلف نیوز ایجنسیوں اور دیگر میڈیا اداروں کی طرف سے سعودی حکومت سے ان گرفتاریوں کے حوالے سے بیان لینے کی کوششیں بھی کی گئیں، تاہم ریاض حکومت نے اب تک کوئی وضاحت نہیں کی۔
شاہ سلمان نے سن 2017 میں اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو محمد بن نائف کی جگہ سعودی ولی عہد مقرر کر کے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لی تھی۔ محمد بن نائف تب سے اب تک عملی طور پر نظر بند تھے اور اُن کی سرگرمیوں کی نگرانی بھی جاری تھی۔
سن 2017 میں ولی عہد مقرر ہونے کے بعد محمد بن سلمان نے انسداد کرپشن کے نام پر شاہی خاندان کی کئی شخصیات، حکومتی وزرا اور کاروباری شخصیات کو حراست میں لے لیا تھا۔
شہزادہ محمد بن سلمان ہی عملی طور پر سعودی عرب پر حکومت کر رہے ہیں۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق شاہی خاندان نے ان افراد کو محمد بن سلمان کے حکم پر ہی گرفتار کیا گیا ہے۔
اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ شاہی خاندان کی ان بااثر شخصیات کو اس لیے گرفتار کیا گیا کیوں کہ وہ ولی عہد کے لیے ممکنہ خطرہ ثابت ہو سکتے تھے۔ ولی عہد کے تازہ اقدامات اس بات کا بھی عندیہ ہیں کہ وہ اپنے لیے کسی بھی ممکنہ خطرے کو برداشت نہیں کرتے۔
محمد بن سلمان کی اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کی ایسی ہی کوششوں اور سعودی عرب میں اصلاحات کرنے کے باعث شاہی خاندان کے کئی بااثر طبقے ان سے خوش نہیں ہیں۔ ترکی میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد محمد بن سلمان کی قیادت کرنے کی صلاحتیوں پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے تھے۔
اس صورت حال میں شاہ سلمان کے واحد زندہ بھائی احمد بن عبدالعزیز کا نام بھی سعودی عرب کے آئندہ ممکنہ حکمران کے طور پر سامنے آ رہا تھا۔ ذرائع کے مطابق احمد بن عبدالعزیز کو شاہی خاندان، دیگر اہم شخصیات اور کچھ مغربی طاقتوں کی بھی ممکنہ طور پر حمایت حاصل ہو سکتی تھی۔
روئٹرز نے سعودی شاہی خاندان کے ذرائع اور مغربی ممالک کے سفارت کاروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ شاہ سلمان کی زندگی میں ولی عہد کی مخالفت کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
احمد بن عبدالعزیز نے سن 2018 میں لندن میں قیام کے دوران سعودی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ تاہم وطن واپسی کے بعد سے وہ کسی بھی سطح پر متحرک دکھائی نہیں دے رہے تھے۔
DW