محمد شعیب عادل
دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ شروع ہوا۔ ابتدا میں اسے کسی نے بھی سنجیدگی سے نہ لیا۔ جب ووہان کے ایک ڈاکٹر نے تباہ کن وائرس کے بارے میں سوشل میڈیا پر اپنے ساتھی ڈاکٹروں کو آگاہ کیا تو مقامی حکومت نے اسے عوام میں خوف و ہراس پھیلانے کے جرم میں گرفتار کرلیا اور اس سے یہ لکھوایا کہ وہ اس موضوع پر بات نہیں کرے گا۔ مگر جنوری2020 کے آغاز میں جب اموات زیادہ ہونی شروع ہوئیں تو چین سمیت دنیا بھر میں تشویش شروع ہوئی۔ اس دوران ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے چینی حکام سے رابطہ کیا تو انہیں بھی انکار کر دیا گیا۔
تئیس جنوری کو چین نے اس شہر میں لاک ڈاؤن کر دیا لیکن اس دوران ووہان شہر سے ، جو کہ ایک صنعتی شہر ہے، ہزاروں افراد پوری دنیا میں جاچکے تھے اور دوسرے ممالک میں بھی اس وائرس کے کیس سامنے آنا شروع ہو گئے۔
امریکی میڈیا میں صدر ٹرمپ پر تنقید ہورہی ہے کہ اس نے کورونا وائرس کو ابتدا میں سنجیدگی سے نہیں لیا جس کی وجہ سے امریکہ میں اس کی شدت میں اضافہ ہوا۔
چار مارچ کو صدر ٹرمپ نے اس کی شدت محسوس کرتے ہوئے 8 بلین ڈالر کے فنڈز کا اعلان کیا۔ صدر ٹرمپ کا خیال تھا کہ دو بلین ڈالر کافی ہونگے مگر کانگریس نے اسے 8 بلین ڈالر کاکہا۔ اس رقم میں سے تین بلین ڈالر ویکسین کی تیاری کےلیے مختص کیے گئے۔
تیرہ 13 مارچ کو صدر ٹرمپ نے اس کی شدت دیکھتے ہوئے نیشنل ایمرجنسی کا اعلان کیا اور اس مقصد کے لیے پچاس بلین ڈالر کے فنڈز کااعلان کیا یہ فنڈز ویکسین کی تیاری، میڈیکل آلات، ماسک، ٹیسٹ کٹس کی تیاری اور سپلائی ، ہسپتالوں کو ایمر جنسی کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے دیئے گئے اور ساتھ ہی متاثرہ علاقوں میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔ اور آہستہ آہستہ یہ لاک ڈاؤن تمام امریکی ریاستوں میں ہو گیا۔
امریکہ میں تمام چھوٹی بڑی فیکٹریاں اور کاروبار بند ہوچکے ہیں ۔آئی ٹی سے متعلقہ لوگ گھر بیٹھ کر اپنا کام کررہے ہیں۔ سکول، کالج اور یونیورسٹیز بند ہیں لیکن ایک ہفتے کے اندر اندر ہی ان اداروں نے آن لائن کلاسز شروع کردی ہیں۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے ائیر لائن، شپنگ، کروز ، کار ساز فیکٹریاں، ہوٹل ، ریسٹورنٹس، بارز، سینما، تھیڑز ، شاپنگ مالز بند ہو گئے اوران سے جڑے کروڑوں ورکرز گھر بیٹھ گئے ہیں۔ اور جب کوئی کاروبار ہی نہیں تو ان ورکرز کو تنخواہ بھی نہیں مل سکتی۔ امریکہ میں جبہاں بڑی بڑی کارپوریشنز ہیں وہاں درمیانے درجے کے کروڑوں کاربار ہیں۔
بڑی کارپریشنز کو حکومت نے ہدایت کی ہے کہ اس لاک ڈاون میں اپنے ملازمین کو چودہ دن کی تنخواہ کی ادائیگی کریں۔ باقی ورکرز کے لیے صدر ٹرمپ کی ہدایت پر کانگریس نے ابتدائی طور پر ایک ٹریلین ڈالر کے پیکچ پر کام شروع کیا۔ جس سے امریکہ میں کام کرنے والوں کو نقد رقم کی ادائیگی اور درمیانے اور چھوٹے درجے کے کاروبارز کو بینکوں کے ذریعے قرضہ کی فراہمی ہے۔
لیکن آنے والے دنوں میں اس بحران کی شدت میں اضافہ ہوا تو کانگریس نےامدادی پیکج ایک ٹریلین ڈالر سے بڑھا کر دو ٹریلین ڈالر کر دیا جو کہ امریکی تاریخ میں سب سے بڑا امدادی پیکیج ہے۔ امریکی سینٹ اور کانگریس نے متفقہ طور پر 2.2 ٹریلین ڈالر کے پیکچ کی منظوری دے دی ہے اور صدر ٹرمپ نے فوری طور پر اس پر دستخط کر نے کا اعلان کیا ہے ۔
اس بل کی خصوصیت یہ ہے کہ اس امدادی پیکج سے صدر ٹرمپ، نائب صدر پنس، کابینہ کے ارکان، سینٹ اور کانگریس کے ارکان کے کاروبار کو کوئی پیسہ نہیں لے سکیں گے۔ بڑی کارپوریشنز کو بھی جو ادائیگی ہو گی وہ براہ راست پے رول اکاونٹ میں جائے گی تاکہ اس سے ملازمین کو تنخواہ دی جا سکے۔اس کے علاوہ دیہاڑی دار ، ہوٹلز، بارز اور دکانوں اور کئی چھوٹے موٹے کام کرنے والوں کو براہ راست محکمہ سوشل سیکورٹی کے ذریعے ان کے گھروں کو چیک ارسال کیے جائیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ یہ ادائیگی اضافی نوٹ چھاپ کر کرے گا جس سے افراط زر میں اضافہ ہو گا۔ ایسا بالکل نہیں یہ فنڈز فیڈرل ریزور بینک جاری کرے گا۔ امدادی پیکج کے ذریعے جو قرضہ دیا جائے گا اس کے لیے سرمایہ بینکوں سے فراہم ہوگا۔
امریکہ میں رہنے والوں کو ایک سوشل سیکیورٹی نمبر دیا جاتا ہے ۔ یہ ایک کمپوٹرائزڈ سسٹم ہے جس میں اس شخص کے تمام کوائف شامل ہوتے ہیں جس میں اس کی سالانہ انکم اور اس پر کتنا ٹیکس دیا گیا تمام ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔ امدادی پیکج میں ان افراد کو چیک دیے جائیں گے جن کی آمدنی ایک 95ہزار ڈالر سالانہ سے کم ہے۔
اس کے علاوہ امریکی حکومت نے سٹوڈنٹ لون کی وصولی کا کام چھ ماہ کے لیے روک دیا ہے۔مارٹگیج کی ادائیگی بھی موخر کر دی گئی ہے۔اور ان پر کوئی سود وصول نہیں کیا جائے گا۔امریکی سینٹ اور کانگریس کے ارکان رخصت پر نہیں گئے اور تازہ ترین صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے دونوں ایوانوں کے اجلاس جاری ہیں۔امریکی صدر اور ان کی ٹیم روزانہ پریس کانفرنس کرکے عوام کو تازہ ترین صورتحال اور حکومتی اقدامات سے آگاہ کر رہے ہیں۔ امریکی کانگریس نے کہا ہے کہ اگر یہ بحران لمبا ہوتا ہے تو اس کے لیے انھوں نے پہلے سے ہی مزید امدادی پیکج پر غور وفکر شروع کردیا ہے۔
دوسری طرف کئی امریکی اداروں میں اس وائرس کی ویکسین تیار کرنے کا کام شروع ہو گیا۔ بلکہ یہ ویکسین تیار بھی ہوگئی ہے مگر جب تک اس کے کلینکل ٹرائل مکمل نہیں ہو نگے اس کو وسیع پیمانے پر تیار نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ میں اس وقت سیاٹل اور نیویارک میں اس کے ٹرائل شروع ہو ئے ہیں ۔ امید کی جارہی ہے کہ چند ماہ بھی ہی اس کے نتائج کا پتہ چل سکے گا۔
ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے امریکن آرمی کی میڈیکل برانچ نے زیادہ متاثرہ علاقوں میں فیلڈ ہسپتال قائم کرلیے ہیں۔ امریکی بحریہ ہستپال جو بحری جہازوں پر مشتمل ہے کئی بندرگاہوں پر پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔ جہاں ضروری ٹیسٹ اور علاج کی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔
امریکی فیکٹریوں میں میڈیکل آلات بنانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ سب سے بڑی ضرورت، وینٹی لیٹرز، ٹیسٹ کٹس ، ہینڈ سینی ٹائزرز، ماسک اور حفاظتی لباس کی ہے۔ فورڈ موٹر کمپنی نے جنرل الیکٹرک اور تھری ایم کے ساتھ مل کر ہنگامی بنیادوں پر وینٹی لیٹرز بنانے کا اعلان کیا ہے اور مئی کے وسط میں اس کی فراہمی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
♦
One Comment