عدنان حسین شالیزئی
پاکستان بنا ، یا بنایا گیا ۔ اس پر الفاظ کا ذخیرہ ضائع کرنے کے بجائے بلاواسطہ اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ۔ سنہ1947 سے لے 2020 تک ہم نے دیکھا کہ پنجاب کے علاوہ باقی صوبوں میں پاکستان سے محبت کرنے والے نہیں ملتے ۔ پاکستان میں پہلے دن سے ہی پنجاب اور پنجاب کے باسیوں کے مفادات کا تحفظ کیا گیا ۔ دیگر صوبوں کے ساحل اور وسائل کو صوبہ پنجاب کی بلا واسطہ ملکیت میں دیا گیا ۔ دیکھا جائے تو وفاق نے اٹھارویں ترمیم کے نفاذ سے قبل سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا ۔ جس میں گیس ، بجلی ، پانی ، تمباکو ، زمرد ، سونا ، چاندی ، کوئلہ ، کرومائیٹ ، تانبا ، جنگل ، بندرگاہیں اور زمینوں پر قبضے شامل ہیں ۔
پاکستان کے قیام کے بعد پارلیمانی طور پر پنجاب کی بالادستی قائم کی گئی۔ پنجاب میں انتخابات میں اول نمبر پر آنے والی سیاسی جماعت ہی ملک پر حکمرانی کر سکتی ہے ۔ پنجاب کے علاوہ باقی صوبے اپنے بل بوتے پر کبھی بھی مرکز میں حکومت نہیں بنا سکتے ۔ حتیٰ کہ پنجاب کے علاوہ باقی صوبے مل کر بھی مرکزی حکومت بنانے کے اہل نہیں ۔
ملک میں برائے نام حد تک جمہوریت ہے ۔ آئین و قانون پر تاحال عمل در آمد نہیں کیا گیا ہے ۔ ملک میں صوبہ پنجاب کے مفادات کے تحفظ کیلئے پے در پے آئین و قانون کو کچلا گیا۔ مارشل لاء حکومتوں کیلئے راہیں ہموار کی گئیں ۔ جس کے باعث ملک اور بالخصوص چھوٹے صوبے مسائل سے دو چار ہوئے ۔ ریاست اور چھوٹے صوبوں کے درمیان بداعتمادی کی بنیادی وجہ آئین و قانون سے روگردانی ہے ۔
فی الوقت ریاست میں پارلیمنٹ ، عدلیہ اور میڈیا فوجی اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر اور زیر تسلط آ چکے ہیں ۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ عدالت کے فیصلے ، پارلیمان کے قوانین اور میڈیا کی خبریں تیار کرتی ہیں ۔ ملک میں سیاسی جماعتیں برائے نام حد تک پالیسیاں مرتب کرتی ہیں ۔ ملک میں عملاً فوجی اسٹیبلشمنٹ کا راج ہے ۔
سہولیات اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کے حوالے سے دیکھا جائے تو باقی صوبوں کے وسائل سے ملنے والی رقوم سے ہر دور حکومت میں پنجاب کو ترجیح دی گئی ہے ۔ پاکستان کے بہترین تعلیمی ادارے ، اعلیٰ ہسپتال ، فیکٹریاں ، حکومتی دفاتر ، بجلی و گیس کے مرکزی ادارے صوبہ پنجاب میں بنائے گئے ہیں ۔ اس وقت پنجاب باقی صوبوں سے کئی سال آگے ہے ۔ بلوچستان ، خیبرپختونخوا اور سندھ کے وسائل سے جڑے معاہدے اور فیصلے پنجاب میں حکومت بنانے والی سیاسی جماعتیں اور پنجاب کی بیوروکریسی کرتی ہے ۔
مثال کے طور پر گودار پورٹ ، ریکوڈک اور سیندک کے معاملات پنجاب کی سیاسی قوتیں اور بیوروکریسی دیکھ رہی ہے ۔ صوبہ بلوچستان میں بیوروکریسی کے بڑے عہدوں پر شاذ و نادر ہی مقامی بلوچ و پشتون تعینات ہوتے ہیں ۔ ملکی فوج میں بھی چھوٹے صوبوں سے متعصبانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے ۔ محمود خان اچکزئی کے بقول پاکستان کی فوج میں محض تین اضلاع کے شہری بھرتی کیے جاتے ہیں ۔ ریاست ، پنجاب کے کلچر اور زبان کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ پنجاب کے کلچر اور زبان کو فروغ دینے کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے ۔ اس کے بالکل برعکس ریاستی ایماء پر باقی اقوام کے کلچر اور زبانوں کی بیخ کنی کی جا رہی ہے ۔ ریاستی میڈیا پر پشتون اور بلوچ کو دہشتگرد اور پشتون و بلوچ کے کلچر کو منفی معنوں میں پیش کیا جا رہا ہے ۔
اگر بات کی جائے کشمیر اور گلگت بلتستان کی تو وہاں بھی ریاست مثبت تاثر قائم کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ مقامی آبادی ، زمینوں پر قبضے اور جنگلات کی کٹائی پر ریاست کو قابض قوت تصور کرتی ہے ۔ کشمیر و گلگت بلتستان میں پاکستان سے آزادی چاہنے والی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں ۔ پشتون و بلوچ بیلٹ میں وسائل پر قبضے کے علاوہ دہشت گردی اور فرقہ واریت کے مصنوعی بیج بوئے گئے ہیں ۔ بلوچستان اور سابقہ فاٹا میں مسنگ پرسنز ، لینڈ مائنز ، ٹارگٹ کلنگ اور گڈ و بیڈ طالبان کے مسائل نے مقامی آبادی کا جینا دوبھر کر دیا ہے ۔ مذکورہ مسائل کے حل کا مطالبہ کرنے والی روایتی سیاسی جماعتوں کے علاوہ پی ٹی ایم اور بلوچ تحریک کے مطالبات پر عمل درآمد کے بجائے ریاست انہیں ” غداری ” کے اسناد سے نوازتی ہے ۔
چونکہ آئین ، ریاست اور شہری کے درمیان ایک سماجی معائدے کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اسی طرح اقوام اور ریاست کا تعلق بھی آئین کا مرہونِ منت ہے ۔ اگر آئین کو درمیان سے ہٹا دیا جائے تو نہ ریاست ، ریاست رہتی ہے اور نہ ایک فرد ، ریاست کا تابعدار شہری ۔ اس لیے پاکستان میں ہر ادارے کو اس کی آئینی حدود میں رہنا ہوگا ۔ وگرنہ پنجاب ، پنجابی اور ریاست پاکستان سے نفرت میں مزید اضافہ ہوگا ۔ پاکستان کو اپنی سالمیت عزیز ہے تو مظلوم اقوام کو ان کے ساحل اور وسائل پر اختیار دینا ہوگا ۔ ان کے کلچر اور زبان کو تحفظ دینا ہوگا ۔
صوبوں کے اندرونی معاملات میں وفاق کی مداخلت بند کرنی ہوگی ۔ سیاست میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اثر و رسوخ کی بیخ کنی کرنی ہوگی ۔ اظہارِ رائے پر عائد پابندیاں ختم کرنی ہوں گی ۔ پارلیمان میں صوبوں کی مساوی نمائندگی یقینی بنانی ہوگی ۔ چھوٹے صوبوں سے فوج ، ایف سی اور رینجرز کو نکال کر قلعوں کے اندر لے جانا ہوگا ۔ اب تک کے جابرانہ اور استحصال پر مبنی ریاستی رویے پر معافی مانگ کر مظلوم اقوام سے ایک نیا عمرانی معائدہ کرنا ہوگا ۔ اس کے علاوہ ریاست کے پاس کوئ راستہ نہیں ہے ۔
♦