بیرسٹر حمید باشانی
کورونا وائرس کی چوٹ نےدنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔معاشی مشکلات کا شکار تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کے لیے یہ ایک تباہ کن افتاد ہے ۔ غریب ممالک کے ساتھ ساتھ اس بحران نے ترقی یافتہ ، خوشحال اورمعاشی اعتبارسے مضبوط ترین ممالک کی معشیت کوبھی ایسے بحران سے دوچار کردیا ہے، جس سے نکلنےمیں ان کو کئی برس لگ سکتے ہیں۔
کورونا کے جھٹکےسے دنیامعیشت کا جو حال اس وقت ہو گیا ہے، اورآنے والے دنوں میں جو شکل یہ اختیار کرنے والی ہے ، وہ بہت ڈروانی ہے۔
دانشوراورماہرین معاشیات تو یہ جانتے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ اوراس کا انجام کیا ہو گا؟ اگلے چند مہینوں اورسالوں میں یہ بحران کس شکل میں سامنے آئے گا ؟ مگرعام آدمی بھی اجتماعی دانش کی روشنی میں اس کا ادراک رکھتا ہے۔ عام آدمی کا فکراندیشہ خواص سے بہت زیادہ ہے، چونکہ تاریخی اعتبار سےاس طرح کے حالات کا پہلا شکارعموما عام آدمی ہی ہوتا رہا ہے۔ اس طرح کے بحرانوں میں اس کا روزگارختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بچوں کی تعلیم و صحت کی سہولیات کم ہو جاتی ہیں۔ اسے شدید جسمانی اور ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا کرنا ہڑتا ہے۔ یہ ایک خوفناک صورت حال ہے، جس سے عام آدمی ڈرتا رہتا ہے۔
کورونا وائرس کی طرح کے بحرانوں میں فیکٹریاں ، کارخانےاور بینک بند ہوتے ہیں تو سرمایہ دار بھی دیوالیہ ہو جاتا ہے۔ مگر وہ دیوالیہ بھی ایک شان سے ہوتا ہے۔ امیروغریب ملکوں میں اس کی حفاظت اوردیکھ بھال کے لیے ایک قانون موجود ہے، جسے ہم دیوالیہ پن کا قانون کہتے ہیں۔ یہ قانون دنیا کے ہرلاء سکول میں پڑھایا جاتا ہے۔ ہرملک میں پوری جزئیات سمیت اس پرعمل کیا جاتا ہے۔ مہذب زبان میں اسے “بینک ریپسی پروٹیکشن” بھی کہا جاتا ہے، جس کے تحت دیوالیہ ہونے والے امیر شخص کو قرض خواہوں سے بچا کر قانونی تحفظ دیا جاتا ہے۔
اس قانون کےاندرخوش نصیب اور دولت مند لوگوں کی ذاتی گھرباراورضروریات زندگی کے تحفظ کا کافی سامان ہے۔ چنانچہ دیوالیہ ہونے کے باوجود نہ ان کے خاندان کے سر سے چھت چھنتی ہے، اورنہ ہی ان کے پرتعیش طرز زندگی پراثر پڑتا ہے۔چنانچہ خوشحالی اور بے فکری کے دورمیں آسودہ حال اورزندگی کی بنیادی ضروریات کی تگ و دو میں شب ورز گزرانے والےعام لوگوں کی طرز زندگی میں جو فرق ہوتا ہے، وہ معاشی بحرانوں کے دوران بھی باقی رہتا ہے۔
بحران اور اس کے بعد کے دنوں میں کئی عام لوگ گھروں سے بے دخل ہوکر فٹ پاتھ پرآجاتے ہیں، کیونکہ پہلے ہی ان کے گھراورسڑک کے درمیان فاصلہ ایک “پے چیک” کا ہی ہوتا ہے۔ اور بد قسمتی سےغریب لوگوں کے لیے دنیا میں بینک ریپسی یا کوئی “غریب پروٹیکشن ایکٹ” نہیں ہے۔
کرونا وائرس کے شدید جھٹکے سے حیرت زدہ دانشوروں اورمعاشیات دانوں کے درمیان بحث یہ ہے کہ اس بحران کے بعد کیا ہو گا ؟ اس بحث میں کسی قسم کی رجائیت پسندی یا خوش امیدی نہیں ہے۔ یہ بحث بد اوربدترین کےدرمیان کسی ایک کے انتخاب کی ہے۔ اندازہ یہ لگایا جا رہا ہے کہ اس بحران کے بعد ہمیں کتنے بدترین قسم کے ریسیشن (کساد بازاری) یا ڈیپریشن کا سامنا ہو گا؟
عوام کو مکمل مایوسی سے بچانے کے لیے کئی کئی یہ خوش خبری بھی دی جاتی ہے کہ خواہ ڈیپرشن ہویا ریسشن، ہم دونوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ انسان میں اس کی ہمت ہے،اور تجربہ ہے۔ تاریخ میں ہم نے ایسا کئی بارکیا ہے۔ یہ نیوکنزرویٹوزاورنیولبرل ازم کا منترہ ہے۔ وہ عام لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جو کچھ ہوا یہ ہمارا مقدر تھا۔ اس میں ہماری کوئی غلطی یا کوتاہی نہیں۔ اس لیے جو کچھ ہم ماضی میں کرتے رہے ہیں، وہ اسی طرح دہراتے رہیں گے۔ اس کے سوا ہمارے پاس کیا چارہ ہے۔
سرمایہ داری نظام کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ سوشلزم پہلے ہی ناکام ہو گیا ہے۔ مگر وہ عوام کو یہ نہیں بتانا چاہتے کہ سوشلزم کے نام پر قائم ایک بندوبست تو صرف ایک بار ناکام ہوا، مگر سرمایہ دارانہ نظام کئی بارمنہ کے بل گر چکا ہے۔ جب سے سرمایہ داری بطورایک معاشی نظام چل رہی ہے، یعنی تقریبا 1850 سے لیکراب تک دنیا میں تقریبا 35بڑے ریسیشن آئے ہیں۔ آزاد سرمایہ داری کے نظریہ سازاس بات پربھی متفق ہیں کہ گزشتہ دیڑھ دو سو سالوں میں سرمایہ داری نظام ایک بار پوری طرح ناکام اورزمین بوس بھی ہوا ہے، مگر ہم اسے ناکامی کے بجائے “گریٹ ڈیپریشن” کہتے ہیں۔ یہ1929میں آیا اور1938 تک جاری رہا۔
نیوکنزرویٹیوز یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ریسیشن ہویا ڈپریشن یہ دراصل سرمایہ داری نظام کی ہی ناکامی کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ اس میں سٹاک مارکیٹ کرش ہو جاتی ہے۔ لوگوں کی ذاتی جائدادوں کی قیمت مٹی میں مل جاتی ہے۔ فیکٹریاں کارخانے بند ہو جاتےہیں۔ لوگ وسیع پیمانے پربے روزگارہو جاتے ہیں۔ اشیا خورد نوش کی قمیتیں بڑھ جاتی ہیں۔ سماج بطورمجموعی ایک نفسیاتی ڈیپریشن میں چلا جاتا ہے۔ لیکن ہم اسے ایک وقتی بدقسمتی قراردیکر دوبارہ اپنے پاوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں، مگرستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ہم دوبارہ اپنے پاوں پر کھڑَ ےہو کر پھر اسی راستے پر چل پڑتے ہیں، جس پرہمیں ایک بارپھر منہ کے بل گرنا ہوتا ہے۔
چونکہ ہم اپنی غلطی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بالکل جس طرح ہم ایک وائرس کے حملے کا شکار ہو کراس سے کوئی سبق نہیں سیکھتے، اور اگلے حملے سے بچاو کا کوئی فکر نہیں کرتے۔ اس طرح ہم سپینش وائرس سے لیکر کورونا وائرس تک درجنوں بار خاک چاٹتے ہیں، اور یہ فرض کر کہ زندہ رہتے ہیں کہ اب کوئی نیا وائرس نہیں آے گا۔ بالکل یہی رویہ ہمارا معاشی نظام کے بارے میں ہے۔ ہم کہتے ہیں جو آدم سمتھ نے لکھ دیا تھا، وہ مقدس اورحرف آخر ہے۔ خواہ یہ پینتیس بارجھوٹ ثابت ہو چکا ہو۔ کارل مارکس نے جو کہا تھا وہ سچ محض اس لیے سچ نہیں ہوسکتا کہ یہ کارل مارکس نے کہا تھا۔ یہ جو ہمارا سیاسی اورمعاشی نظام ہے، اس کے ہم ہروقت قصیدے پڑھتے رہتے ہیں، لیکن وقت آنے پریہ صرف ایک وائرس کی مارہوتا ہے۔
معاشی انصاف پرمبنی متبادل نظام کے مطالبے کے جواب میں ہم کہتے ہیں ہم جمہوری دورمیں زندہ ہیں، جموریت میں فیصلےعوام کرتے ہیں، ان کی مرضی کے بغیر ہم کوئی متبادل یا منصفانہ معاشی نظام کیسے لا سکتے ہیں ؟ اورجمہوریت کا کوئی متبادل نہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ دنیا میں جمہوریت کا متبادل کوئی معلوم نظام نہیں ہے۔ مگرشرط یہ ہے کہ یہ واقعی جمہوریت ہی ہو، جسے ہم جمہوریت کہتے ہیں۔ ابراہم لنکن کے خیال میں جمہوریت وہ طرزحکومت ہے، جس میں عوام کی حکومت، عوام کے زریعے اورعوام کے لیے ہوتی ہے۔ مگر ہم جمہوریت کے نام پر جو انتظام آج چلا رہے ہیں یہ ایسا طرزحکومت ہے جس میں امیر کی حکومت ، امیر کے لیے ، اورامیر کے ذریعے ہے۔
ہماری جمہوریتوں میں محدودے چند استشناوں کے دنیا بھر میں حکمران طبقات اپنے ملک کے دولت مند، خوشحال، اوربااثرطبقات کے مفادات کے مطابق پالیسیاں بناتے ہیں۔ سیاسی نظام کی طرح ہی ہمارے معاشی نظام میں مساوات ومساوی مواقع کا فقدان ہے۔ گزشتہ پچاس سالوں میں یہ دنیا ماضی کی نسبت کئی ہزارگنا غیرمساوی ہوئی ہے۔
مثال کے طور پر صرف امریکہ کو لے لیتے ہیں۔ چالیس سال پہلے امریکہ میں ایک فیصد امیرترین لوگ کل دولت کے آٹھ فیصد کے مالک تھے۔ نیولبرل ازم کی پالیسیوں کے نتیجے میں آج یہ ایک فیصد لوگ کل دولت کے بیس فیصد سے زائد کے مالک ہیں۔ دوسری طرف عام آدمی کی تنخواہ تقریبا وہی ہے، جو بیس سال پہلے تھی۔ امریکہ میں گزشتہ تیس سالوں میں آمدنی میں جو اضافہ ہوا، اس کے سو فیصد کے مالک صرف دس فیصد لوگ ہیں، دوسری طرف نوے فیصد کی آمدنی میں واضح کمی ہوئی ہے۔
نیو لبرل ازم کا سب سے بڑا ایجنڈا یہ تھا کہ یہ مارکیٹ سے اجارہ داری کا خاتمہ کر کہ آزاد مقابلے کو فروغ دے گا۔ مگر خود لبرل ازم نے زندگی کے ہرشعبے میں جس قدر اجارہ داریوں کو فروغ دیا، اس کا تصورتو ریاستی اجاردہ داریوں میں بھی نہیں تھا۔ دانشمندی کا تقاضہ یہ ہےموجودہ معاشی وسیاسی نظام کے اگلے کسی بحران کے ہاتھوں تباہ و برباد ہونےاور پھراٹھ کراسی راستے پر چلنے کے بجائے ایک نئے منصفانہ معاشی وسیاسی نظام کی طرف بڑھا جائے ۔
♥
2 Comments