پاکستان کی احمدی برادری اورانسان حقوق کی تنظیموں نے احمدی برادری کے خلاف ایک تازہ نفرت امیز مہم پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔یہ مہم ایک پاکستانی چینل کی طرف سے چلائی جانے والی اس خبر کے بعد شروع ہوئی جس میں دعوی کیا گیا کہ حکومت نے احمدی برادری کو ملک کی اقلیتی کمیشن میں نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
چینل92نے یہ خبر بریک کی تھی، جس کے بعد اس مسئلے پر پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑ گئی اور احمدی برادری خلاف نفرت انگیز مہم شروع کردی گئی۔ اس کمیشن کے قیام کا حکم 2013کے پشاور چرچ حملے کے بعد سپریم کورٹ نے دیا تھا تاکہ اقلیتوں کے حقوق کا بہتر انداز میں تحفظ کیا جا سکے۔
اس معاملے پر حکومتی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق نے بھی حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کردیا ہے۔ پارٹی کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے اس فیصلے پر تنقید کی اور اس پر اپنے سخت تحفظات کا اظہار کیا۔ اس بیان کے بعد نفرت انگیز مہم میں مزید تیزی آگئی ہے۔
تاہم ان کی پارٹی اس مخالفت کا دفاع کرتی ہے۔ ق لیگ کے ترجمان کامل علی آغا نے اس مسئلے پر اپنا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “ہماری پارٹی نے اس کی مخالفت کی ہے کیونکہ احمدی اپنے آپ کو اقلیت نہیں مانتے، اس لیے وہ اس کےرکن نہیں بن سکتے۔ اس کے علاوہ حکومت نے اس مسئلے پر ہمیں اعتماد میں بھی نہیں لیا“۔
جمیعت علمائے اسلام کے ترجمان حافظ حسین احمد کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ احمدی پہلے اپنے آپ کو غیر مسلم مانیں۔ “قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں وہ اقلیتی نشستوں پر الیکشن نہیں لڑتے، جس کا واضح مطلب ہے کہ وہ اپنے آپ کو اقلیت نہیں مانتے، تو حکومت کیسے ان کو اس کمیشن میں شامل کر رہی ہے“۔
مذہبی جماعتوں کی مخالفت اور چوہدری شجاعت کے بیان کے بعد شروع ہونے والی نفرت انگیز مہم نے احمدیوں میں خوف پیدا کردیا ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک احمدی برادری کے رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، “جب سے یہ خبر نشر ہوئی ہے، سوشل میڈیا پر نفرت کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا ہے اور پوری برادری خوفزدہ ہے۔ اس طرح کی مہم نے ماضی میں بھی ہماری برادری کو جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے اور اب بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے“۔
جماعت احمدیہ پاکستان کے مرکزی ترجمان سلیم الدین نے اس مہم کو افسوس ناک قرار دیا۔ “ایک چینل نے غلط خبر چلائی اور پیمرا نے اس کا نوٹس بھی نہیں لیا ۔ اس کے بعد ہماری پر امن کمیونٹی کے خلاف نفرت کی ایک مہم شروع ہوگئی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ نہ ہی ایسا کوئی نوٹیفیکیشن جاری ہوا اور نہ ہی حکومت نے ہم سے اس کمیشن کا ممبر بننے کا کہا اور نہ ہی رابطہ کیا لیکن پھر بھی نفرت انگیز مہم جاری ہے“۔
واضح رہے کہ پاکستان میں دہشت گردانہ کاررائیوں میں سینکڑوں احمدیوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ کچھ برسوں پہلے لاہور میں احمدیوں کی ایک مسجد پر بہت بڑا حملہ ہوا تھا، جس میں کئی افراد ہلاک و زخمی ہوئے تھے۔ پاکستانی پارلیمان نے احمدیوں کو 1974 میں غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعوی ٰہے کہ اس وقت سے لے کر آج تک اس کمیونٹی کو تعصب کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں موجودہ نفرت انگیز مہم کو انتہائی خطرناک قرار دیتی ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان سے تعلق رکھنے والے اسد بٹ کا کہنا ہے کہ اس طرح کی مہمیں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔ “احمدی حضرات کو پہلے ہی برابر کا شہری نہیں سمجھا جاتا اور اب موجودہ مہم ان کے لیے مزید خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔ چوہدری شجاعت کا بیان انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔ ان کے اس بیان سے اس نفرت انگیز مہم کو مذید ہوا ملے گی، جس سے اس برادری کو نقصان ہو سکتا ہے“۔
ڈی ڈبلیو نے جب حکومت کا موقف جاننے کے لئے پی ٹی آئی کی میڈیا ٹیم سے رابطہ کیا، تو انہوں نے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری کی طرف سے جاری کردی ایک بیان بھجوادیا، جس کے مطابق، ” وفاقی حکومت نےاقلیتی کمیشن کے ارکان کا حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ ان ممبران کی تقرری کا معاملہ دو ہفتے قبل زیر غور آیا تھا۔ قادیانیوں کو بطور اقلیتی غیر مسلم ممبر بنانے یا نا بنانے کا فیصلہ کابینہ کرے گی۔ معاملے کے تمام پہلووں پر غورو فکر کیا جائے گا۔ عقیدہ ختم نبوت ہمارے ایمان کا مرکزی نکتہ ہے، اس پر سمجھوتہ ممکن نہیں۔ جو بھی فیصلہ ہوگا، عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ہوگا“۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ قومی اقلیتی کمیشن میں احمدیوں کا نام شامل کرنے کا اعلان محض دھوکہ ہے جس کا مقصد بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک بھونڈی کوشش سوا کچھ نہیں ہے۔احمدی خود کو اقلیت تسلیم ہی نہیں کرتے لہذاجماعت احمدیہ اس کمیشن میں اپنا کوئی رکن نامزد نہیں کرے گی۔
یاد رہے کہ جنرل ضیا نے 1985 میں جوغیرجماعتی انتخابات کروائے تھے ان میں قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اقلیتی نشستوں پر دو بھائیوں نے احمدی ہونے کا دعوی کرتے ہوئے الیکشن لڑا اوروہ بلا مقابلہ اسمبلی میں پہنچ گئے تھے۔ ان دونوں بھائیوں کو جماعت احمدیہ نے ڈس اون کیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اسمبلیوں کے تحلیل ہونے تک رکن رہے تھے۔
DW/Web Desk
♦