خالد محمود
اسّی کی دہائی میں مجھے بغرض تعلیم لاہور جانا ہوتا تھا۔ہوسٹل میں جگہ نہ ملی ۔ اس لئے ڈیلی کمیوٹرز کے ساتھ ٹرین پر روزانہ لاہور آنا جا نا لگا رہا۔وقت پر پہنچنے کے لئے بائوٹرین کا انتخاب ہوا۔بائو ٹرین صبح صادق سے پہلے سیالکوٹ سے روانہ ہوتی تھی۔وزیرآباد جنکشن سے یہ لاہور کی طرف مُڑ جاتی تھی۔پسنجر ٹرین تھی ہر اسٹیشن پر رُکتی تھی۔زندگی کے ہر شعبے کے لوگ،سرکاری نیم سرکاری ملازمین،یونیورسٹی اور کالجز کے طالب علم، پروفیسرز،مزدور،سیکرٹیریٹ کے بابو اور کاروباری لوگ اپنے اپنے اسٹیشن سے سوار ہوتے اور آخر کار ساڑھے سات بجے لاہور اسٹیشن پر اتر جاتے تھے۔
ان دنوں پنجاب یونیورسٹی اور دوسرے کالجز میں جماعت اسلامی اور جمعیت کا طوطی بولتا تھا۔پیشہ ورانہ میرٹ کو یکسر نظر انداز کر کے ہر محکمے میں دعائے قنوت سنا کر بھرتی کئے گئے مخبروں کو بغلی دروازے سے داخل کر دیا گیا تھا۔ ملّا اور مودودی پر سوال اٹھانے والوں کو دربدر کیا جاتا تھا۔مخالف نقطہ نظر کے اساتذہ اور طلبہ کی تکفیر اور تشدّد عام چلن تھا۔
کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ ان اداروں میں کوئی آزادانہ سوال اٹھائے ، تنقید کرے اور ان کے شر سے بچ جائے۔ان دنوں پنجاب یونیورسٹی اور دیگر کالجز میں، سعودی وہابی اور مودودی کی کتب مفت تقسیم کی جاتی تھیں۔اسی لٹریچر سے عقل کھرچنے اور اندھی تقلید کی راہ ہموار کی گئی تھی۔اس بھونڈی ذہن سازی کے کرشمے اور نمونے ہر محکمے میں نظر آتے ہیں۔
بائو ٹرین ان آلائشوں سے پاک صاف ریل کی پٹڑی پر چلتی ایک الگ غیر سرکاری اور غیر رسمی یونیورسٹی تھی۔ان میں جماعت اسلامی کے اقلیتی لوگ بھی ہوتے تھے مگر عوامی رائے عامہ کے سامنے ہمیشہ دبے رہتے تھے۔ایک بنچ پر چار لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی تھی مگر یہاں باہمی روادای اور مروت کا یہ عالم تھا کہ بنچ پر پانچ سے چھ لوگ گھسڑ کر بیٹھ جاتے تھے ۔آمنے سامنے کے بنچوں پر الگ الگ ٹولیاں اپنی اپنی محفلیں جمایا کرتی تھیں۔
کہیں تاش کی بازیاں چل رہی ہیں۔کہیں ٹریڈ یونین والے مزدوروں کے مسائل پر بحث کر رہے ہیں۔کہیں موسیقی،کہیں شاعری اور کہیںکاروباری دنیا کے لوگ اپنی منڈیوں کے بھید بھائو پر تکرار کیا کرتے تھے۔انہی سنگتوں میں ایک سنگت امان اﷲ بٹ مرحوم کی ہوا کرتی تھی جس میں موسیقی سے پیار کرنے والے جُڑے ہوتے تھے۔انہی میں سیّد رضا شاہ اے جی آفس والے بھی اپنا سٹڈی سرکل لگایا کرتے تھے۔
ضیاع الحق پر سر عام اور کھلّی تنقید ہوا کرتی تھی۔ایک بحث میں گوجرانوالہ کے مشہور عرضی نویس بابا شوق کے برخوردار سلیم نے جو ضیاع کا بہت بڑا ذاکر تھا ذولفقار علی بھٹو کو گالیاں دینا شروع کردیں۔پہلے تو یار لوگ ہنستے رہے اور تنگ آ کر ہمارے پنجابی شاعر جمشید ساہی مرحوم نے گریبان سے پکڑ کر دو چار چپت رسید کردیں۔آخر شہر داروں نے معاملہ رفع دفعہ کروا دیا ۔
اسی ٹرین میں میری ملاقات پنجاب پولیس کے دو حوالداروں سے ہوئی جو سپیشل برانچ گوجرانوالہ کی ڈائری لے کر پولیس ہیڈکوارٹر جایا کرتے تھے۔یہ تھے یونس بٹ اور اقبال خاں۔یہ دونوں سنگین باتوں کو ہلکے پھلکے چٹکلوں اور لطیفوں میں بدلنے کے ماسٹر تھے۔سرکاری درباری غیر نصابی تاریخ اور حالات حاضرہ پر ان کی دسترس بہت جاندار تھی۔ان دنوں مختلف محکموں کے ملازمین اپنے کام میں فوجیوں کی بے جا مداخلت پر بہت ناراض رہتے تھے۔میرٹ چھوڑ کر ڈندے کی دھونس سے کام کرواتے تھے جس سے افسران اور ماتحت دونوں پریشان رہتے تھے۔ تب پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میںسراسر غیر پیشہ ورانہ عسکری مداخلت کو عام لوگوں میںبھی غیر آئینی اورغیر اخلاقی سمجھا جاتا تھا۔ اب تو مداخلت اس قدر پختہ ہو چکی ہے کہ لوگ کہتے ہیں اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے ۔مداخلت کی سرگذشت سنا کر یونس بٹ اور اقبال خاں ایک ساتھ یہ جُگل بندی کیا کرتے تھے:
عجب ماں کے۔۔۔۔۔سے پالا پڑا ہے، بیوی کے بستر پہ سالا پڑا ہے
آج بائو ٹرین کی برجستہ تنقید اور چٹکلے اس لئے یاد آ رہے ہیں کہ اس وقت عالمی وباء کے عین درمیان جس کا جو پیشہ ورانہ فرض بنتا ہے اس سے وہ کام نہیں لیا جا رہا ہے۔ملک بھر میں کچھ وائرالوجسٹ اور ماہر وبائیات کہیں نہ کہیں ضرور موجود توہوں گے مگر ان سے کوئی راہنمائی اور کام نہیں لیا جا رہا ہے۔بار بار کیمرے کے سامنے وہی ٹھہرے ہوئے موسم کی ماری اشکال دکھائی جا رہی ہیں جن کی کہہ مکرنیوں سے لوگوں کی زندگیوں میں مزید ابتری چھا گئی ہے ۔ باقی ماندہ دنیا میں،اس جنگ کو ماہر وبائیات اور وائرالوجسٹ طبّی ماہرین اور منتخب سیاسی انتظامیہ کے ساتھ مل کر اسے فرنٹ سے لڑ رہے ہیں۔
یہاں اپنی دانست میں سب سے ایماندار قیادت، بار بار فیلڈنگ بدل رہی ہے۔ ہر صوبے میں سوشل ویلفئیرکے محکمے اور مریضوں کی بہبود کے لئے پہلے سے رجسٹرڈ تنظیمیں موجود ہیں۔مگر انہیں ان سے کام لینا آتا ہی نہیں۔ ابھی ٹائیگر فورس بنانی ہے اور پھر اس سے کام لینا ہے۔اتنی بڑی سرکاری مشینری اب نہیں تو کب کام آئے گی؟
غیر سیاسی ہاتھوں چُنے لال بھجکڑوں کو اتنی بڑی بیورو کریسی سے کام لینے کی کوئی عملی تربیّت نہیں ہے۔ربڑ اور لیٹکس سے بنے لیڈر صرف ربرسٹیمپ کا کام دیتے ہیں۔ ملک میں کوئی منتخب وفاقی وزیر صحت نہیں ہے جو تمام بندوبست کو اپنے پیشہ ورماہرین کے شانہ بشانہ لیڈ کرتا اور ڈلیور کرتا نظر آتا ہو۔ سیاسی عمل میں بار بار کی مداخلت سماج کی مسماری کی طرف اگلا قدم ہے۔
♦