کورونا وائرس کی وبا نے لگ بھگ دنیا بھر میں اپنے پنجے گاڑھ دیئے ہیں۔ دوتہائی آبادی لاک ڈاؤن کا سامنا کررہی ہے، ان کی حکومتوں یہ فیصلے اس لیے کیے ہیں تاکہ اس وبا کی مہلک انگیزی سے اپنے شہریوں کا بچایا جاسکے۔
فضائی اور زمینی سرحدیں بند کردی گئیں ہیں۔ معمولات زندگی معطل ہوکر رہ گئے ہیں۔ بیشتر سرکاری کام اب دفاتر کے بجائے گھروں میں منتقل ہوگیا ہے۔ کارخانے اور دکانیں بند ہوچکی ہیں۔ اپنے ممالک کے اندر حکومتوں نے ایک شہر کا رابطہ دوسرے سے منقطع کردیا ہے۔ کروڑوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ اسلحے کے بعد تیل کی بڑی صنعت زوال کی طرف جارہی ہے۔ چھوٹی معیشتیں ڈوب رہی ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے دنیا کی بڑی معیشتوں کو اپیل کر رہے ہیں کہ مقروض ممالک کی ادائیگیوں کو معطل کردیں۔ بے یقینی نے دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔
اس بار انسان کو اپنی زمین نہیں بلکہ خود کو بچانے کا چیلنج درپیش ہے۔ جان ہوگی تو جہان ہوگا۔ ورنہ کچھ بھی نہیں۔
انسان نے جن روایات کو بنانے میں صدیاں لگائیں، وہ مہنیوں میں میں الٹ ہوگئی ہیں۔ زندگی بچانے کا ذریعہ قربت کے بجائے فاصلے بن چکے ہیں، دنیا بھر کے لوگ ایک دوسرے کیلئے اتنے اچھوت پہلے نہ تھے ۔ جو جتنا زیادہ باخبر ہے وہ اتنا ہی زیادہ خوف میں مبتلا ہے۔خودساختہ قرنظینہ میں موجود کروڑوں لوگ اب گھروں میں بیٹھ بیٹھ کر بیزار ہونے لگے ہیں۔ نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہورہا ہے، یومیہ کمائی پر زندگی گذارنے والے لوگوں کا صبر جواب دیتا جارہا ہے، دنیا میں کوئی بھی باخبر انسان یہ بات بتانے کی پوزیشن میں نہیں کہ موجودہ حالات کب تک چلیں گے۔ بھوک نے اگر لوگوں کا صبر ختم کردیا تو کیا ہوگا؟
اس عالمی وبا کے باعث جہاں دنیا بھر کی بڑی معیشتیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئیں ہیں، وہاں سیاسی نظاموں پر ابھی سے سوالات اٹھنے شروع ہوگئے ہیں، یہ پیشنگوئیاں سامنے آنے لگی ہیں کہ کورونا وائرس دنیا کی بڑی طاقتوں کو کس طرح لے ڈوبے جارہا ہے۔ اس وائرس کو کنٹرول کرنے کیلئے دوائی کب تک بنے گی، اور بنے گی تو دنیا بھر میں کب تک پہنچے گی، کب لوگ وائرس کے خوف سے آزاد ہوکر ایک دوسرے کے قریب آسکیں گے، زندگی کب اپنے معمولات پر آئے گی، اس بارے میں ابھی تک کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
دنیا بھر کے سیاسی دانشور فکر مند ہیں کہ اگر عالمی نظام تلپٹ ہوا تو اس کی جگہ کون سا نظام دنیا کی رہبری کرے گا، کیا دنیا ایک بار پھر سیاسی لوگوں کی نااہلی کی وجہ سے جمہوریت کے بجائے سیاسی آمریت کی طرف جائے گی۔ یہ دانشور چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی عالمی اجاراداری کو نظرانداز نہیں کرتے۔
چین اور امریکہ کے درمیان کورونا وائرس کی بنا پر تنازعہ اب نئی بات نہیں، ایک طرف امریکہ کے سیکریٹری خارجہ کورونا وائرس کو ووہان وائرس کے نام سے پکار رہے ہیں تو دوسری جانب خود امریکی صدر ٹرمپ کورونا کو چینی وائرس کا نام دے رہے ہیں، امریکی سیاسی شخصیات کی جانب سے اس طرح کے بیانات سے عالمی سطح پر یہ پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کے دنیا کو اس وبا میں دھکیلنے کا ذمہ دار چین ہے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ چین کی لیبارٹری سے یہ وائرس لیک ہوا ہے۔ جبکہ خود امریکہ میں لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کورونا وائرس کا دنیا بھر میں پھیلاؤ امریکی اینٹلی جنس کی بدترین ناکامی ہے، اس ناکامی کو پرل ہاربر اور نائن الیون سے بھی بڑی اینٹلی جنس ناکامی مانا جارہا ہے۔
امریکی کیمپ میں موجود ممالک کا کارپوریٹ میڈیا بھی اسی بیانئے کو اپنے ناظرین، سامعین اور قارئیں تک پہنچا رہا ہے، سوا ارب آبادی والے بھارت کے ٹی وی چینلز کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ چین ہی اس وبا کو دنیا میں پھیلانے کا ذمہ دار ہے۔
جبکہ چین بھی امریکی الزامات کے کھل کر جواب دے رہا ہے، چینی حکام کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ووہان میں گذشتہ برس اکتوبر میں ملٹری گیمز کے انعقاد پر امریکی فوجیوں کے نام پر سی آئی اے کے لوگ یہ وائرس اپنے ساتھ لائے تھے۔ ان دونوں ممالک کے حکام کی لفظی جنگ مزید آگے برھتی جارہی ہے۔ دوسری طرف چین، کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ممالک کو مدد دینے میں آگے ہے۔
چین کی سیاسی قیادت، الفاظ کے گورکھ دھندے میں زیادہ الجھنے کے بجائے عملی اقدامات کے ذریعے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی کوششوں میں کامیاب ہوتی جارہی ہے تو دوسری طرف یہ تاثر بڑھتا جارہا ہے کہ یہ وائرس کسی لیبارٹری نہیں بلکہ کسی جانور سے لوگوں میں منتقل ہوا ہے۔
کورونا وائرس کس لیبارٹری سے لیک ہوا یا کس جانور سے انسانوں میں منتقل ہوا، شاید اس بارے میں دنیا ایک طویل عرصے تک مختلف سازشی تھیوریز میں گھری رہے، کیونکہ جراثیمی جنگ اب دنیا میں کوئی نئی بات نہیں، البتہ حیاتیاتی لیبارٹری سے لیک ہونے یا کسی ملک میں وائرس چھوڑنے کی تھیوری امریکہ اور تیزی سے دنیا کی بڑی طاقت بننے جا رہے چین کے دبدبے کو بڑھانے کا سبب ضرور بنے گی۔
کورونا وائرس کے سبب دنیا بھر کے کئی ممالک میں لاک ڈاؤن کے باعث بنیادی ضروری اشیا اور خوراک کی فراہمی کے مسائل آنے والے چند دنوں میں شدت سے ابھریں گے۔ دنیا بھر کے خوشحال لوگ، اپنے ممالک میں معاشی طور پر کمزور لوگوں کی مدد کرنے کیلئے آگے آرہے ہیں، جبکہ ترقی پذیر ممالک میں حکومتوں کو اپنے شہریوں تک خوراک پہنچانے کا چیلنج بھی درپیش ہے، ان ممالک کے پاس نہ کوئی مکینزم ہے اور نہ ہی ان کی انتظامی مشینری اور عام لوگ اتنے ایماندار ہیں کہ ضرورت مند شہریوں تک خوراک بہ آسانی پہنچاسکیں۔
ترقی پذیر ممالک میں سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کے پاس اپنے کارکنان کا ڈیٹا اور ان کی سیاسی پختگی کا کوئی ریکارڈ تک موجود نہیں۔ ان جماعتوں کی لیڈر شپ کی صلاحیت پر کم لیکن ان کی ایمانداری پر ان کے اپنے ہی ووٹر سوال اٹھاتے ہیں۔
اس بار ایسی سیاسی قیادتیں، پالیسی فیصلے تو ممکن ہے کہ اچھے کرلیں لیکن انتظامی فیصلوں پر عمل کرانا بہت مشکل ہوگا، کیونکہ ان ترقی پذیر ممالک کا پورا سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ قدرتی آفات یا جنگوں میں اپنے شہریوں کو کبھی بھی ایک منظم طریقے سے داد رسی نہیں کرسکا ہے، اس بار تو ایک وبا کا سامنا ہے جو عالمی سطح پر پھیل چکی ہے ۔بھوک بغاوتوں کو جنم دے سکتی ہے۔ کیونکہ وبائیں دوریاں لاتی ہیں اور دوریاں نفرتوں کو مزید طاقتور کرتی ہیں۔
ان بدترین حالات، جن کے بارے میں ابھی تک یہ واضح نہیں کہ وہ کتنا عرصہ جاری رہیں گے، عوامی سطح پر بڑھتی ہوئی یہ بے یقینی کو ختم کرنے کیلئے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں کی معاشی، انتظامی اور سیاسی صلاحیت کا امتحان ہوگا،۔
انسانی تاریخ میں پہلی بار ہی ایسا ہورہا ہے کہ وبا کے اس دور میں دھرتی کے گولے پر موجود انسان ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی حاصل کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے، ایک خبر یا ویڈیو چند گھنٹوں میں دنیا بھر میں وائرل ہوجاتی ہے، لہذا اس غیر معمولی صورتحال میں ایک طرف ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کو اپنے سیاسی اور انتظامی فیصلوں سے ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ اپنے عوام کیلئے کیا کچھ کرسکتی ہیں۔ دوسری جانب میڈیکل سائنس کا بھی امتحان ہے کہ وہ کتنا جلد اس عالمی وبا کے تدارک کیلئے دوا ایجاد کرلیتی ہے۔
چین اس وقت دنیا کی تیزی کے ساتھ ترقی کرتی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے، ووہان بحران سے نکلنے کے بعد وہ کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے نئے تجربات کے ساتھ سامنے آیا ہے، عالمی کارپوریٹ میڈیا کی اپنے خلاف مہم کے باوجود چین دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوچکا ہے کہ وہ ہی وہ قوت ہے جو اپنے سیاسی اور انتظامی فیصلوں اور اپنی ہی بنائی ہوئی ٹیکنالوجی سے کورونا وائرس جیسی وبا سے کامیابی سے نمٹ چکا ہے، اور اب وہ دنیا کے دیگر ممالک کی مدد کیلئے سامنے آرہا ہے، جبکہ امریکہ اس وبا کے سامنے آنے کے بعد بھی ایسا کوئی کام نہیں کرسکا جو اس کی مستند حیثیت کو مستحکم کرتا۔
صدر ٹرمپ کے رویئے کی وجہ سے نہ صرف امریکہ میں بلکہ عالمی سطح پر بھی شہریوں کی امیدیں مزید کم ہوئی ہیں۔ امریکہ میں جتنے لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں ان کا نصف صرف اس کے اقتصادی دارلخلافے نیویارک میں ہیں۔
دنیا اس وقت جن حالات سے نبرد آزما ہے، ان میں امریکی سیاسی قیادت، دنیا کوکوئی امید نہیں دلا رہی۔ کورونا وائرس سے نجات کیلئے اگر دنیا کے شہریوں کو کہیں سے کوئی امید نظر آرہی ہے تو وہ چین ہے۔
دوہزار بیس کا سال نہ صرف امریکہ میں انتخابات کا سال ہے، بلکہ یہ سال دنیا بھر کے سیاسی نظام کے مستقبل کا بھی تعین کرے گا، کیونکہ موجودہ عالمی نظام کی رہبر قوتوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ بے پناہ طاقت کے باوجود عالمی وبا کے سامنے بے بس ہیں۔ آنے والے دو ماہ اس سوچ کو مزید تقویت دیں گے۔ اگر چند ہفتوں میں اس وائرس کے انسداد کیلئے ویکسین سامنے نہیں آتی، ہلاکتیں بڑھتی ہیں تو دنیا بھر کے ممالک میں لوگوں کے اندر اپنی حکومتوں کے خلاف بے یقینی بڑھ جائیگی اور یہ بے یقینی نہ صرف ترقی پذیر ممالک کیلئے پریشانیاں پیدا کرے گی بلکہ عالمی طاقتوں کے مسائل بھی بڑھ جائیں گے۔
موجودہ عالمی سیاسی نظام کو کورونا وائرس سے نجات کیلئے بننے والی ویکسین ہی بچاسکتی ہے۔ اس ویکسین کے بننے میں جتنی دیر ہوتی جائے گی، اتنی ہی اس عالمی سیاسی نظام کی بے یقینی بڑھتی جائے گی۔
♦
عبدالرزاق کھٹی سینئر صحافی ہیں، اور اسلام آباد میں اب تک ٹی وی میں سینئر پولیٹیکل رپورٹر کے طور پر کام کرتے ہیں اور پارلیمانی امور کو قریب سے دیکھتے ہیں، انہیں ٹوئٹر پر فالو کیا جاسکتاہے
Tweeter #@razakkhatti