بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ برس اگست سے مودی حکومت نے لاک ڈاؤن کا نفاذ کر رکھا ہے۔ اس لاک ڈاؤن کو کورونا وائرس کی وبا سے مزید طوالت مل گئی ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے اگست سن 2019 میں سکیورٹی لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا تھا۔ اس لاک ڈاؤن کے کئی مہینوں کے بعد نئی دہلی حکومت نے جب اس میں نرمی پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تو کورونا وائرس کی وبا پھیلنا شروع ہو گئی اور یوں پہلے سے لاک ڈاؤن کو مزید طوالت مل گئی۔ اس وبا نے کشمیری علیحدگی پسندوں کی تحریک کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کشمیری قوم کو پہلی مرتبہ کسی لاک ڈاؤن کا سامنا نہیں ہوا ہے۔ علیحدگی پسندی اور آزادی کی تحریکوں نے انہیں ایسے حالات کا عادی بنا ڈالا ہے۔ تجزیہ کار مزید کہتے ہیں کہ مسلسل کئی برسوں سے پیدا ایسی صورت حال کے باعث کشمیری قوم کے لیے کرفیو، ناکوں اور مختلف سکیورٹی پابندیاں نئی نہیں ہیں لیکن وبائی صورت حال نے ان کی تحریک کو کمزور کرنا شروع کر دیا ہے اور یہ ایک نئی بات ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور اداروں کا خیال ہے کہ مودی حکومت کورونا وائرس کی وبا کا سہارا لے کر نرم شدہ شہری آزادیوں کو مزید جکڑنے کے اقدامات متعارف کرا سکتی ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو سکیورٹی پابندیوں کا یہ ایک ایسا جال ہو گا جس کے اندھیرے میں کشمیری قوم محبوس ہو کر رہ جائے گی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بھارتی چیپٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ابھیناش کمار کا کہنا ہے کہ پبلک ہیلتھ ایمرجینسی کا فائدہ اٹھا کر کشمیر میں کیے گئے اقدامات کے احتساب سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔
کمار کے مطابق غیر قانونی اور اپنی مرضی کی گرفتاریاں، انٹرنیٹ اور طبی سہولیات کو محدود کرنے کا ساتھ ساتھ کووڈ انیس کی وبا سے کشمیری قوم کی اینگزائٹی میں اضافہ ہوا ہے۔
کشمیر میں کام کرنے والے محکمہٴ صحت کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ حکومتی پابندیوں کی وجہ سے اس علاقے کے لوگوں کو بہت مشکلات کا سامنا ہے، ایسی صورت میں کورونا وائرس کی وبا نے ان مشکلات میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ ان اہلکاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں یعنی کووڈ انیس کی وبا میں یہاں کے لوگوں کے لیے پابندیوں کو کم کرنا شدید خطرات کا باعث ہو گا۔
DW
♥