سہولیات کے فقدان اور سماجی دوری کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافے نے طبی عملے کو بھی تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں ایک سینئر ڈاکٹر کی موت سمیت اس وقت متاثرہ ڈاکٹروں کی تعداد دوسو تک پہنچ گئی ہے۔ زیادہ تر متاثرہ ڈاکٹرہسپتالوں یا اپنے گھروں میں قرنطینہ ہیں۔ گزشتہ روز صوبائی دارالحکومت میں بارہ خواتین ڈاکٹروں سمیت تیس مزید ڈاکٹروں کے ٹیسٹ پازیٹیو آئے ہیں۔ جبکہ متاثرہ نرسز،پیرا میڈیکس اور معاون عملے کی تعداد چالیس سے زیادہ بتائی گئی ہے۔
ڈاکٹرزایسوسی ایشن ،پیرا میڈکیس اور نرسز کی تنظیمیں بار بارحکومت سے لاک ڈاؤن میں سختی کرنے کا مطالبہ کررہی ہیں تاہم لاک ڈاؤن میں رمضان کی وجہ سے نرمی کار دی گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بازاروں میں لوگوں کا رش ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کو خدشہ ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کورونا وائرس پھیلنے کا سبب بن گئی ہے۔
اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے ‘سارک میڈیکل ایسوسی ایشن‘ اور ‘کامن ویلتھ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن‘ کے صدر ڈاکٹر عمر ایوب سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا، “اس وقت خیبر پختونخوا میں متاثرہ ڈاکٹروں کی تعداد دو سو سے زیادہ ہے۔ ان میں زیادہ تر کے ٹیسٹ پازیٹیو آنے کے بعد وہ گھروں میں ہیں۔” ڈاکٹر عمر ایوب نے مزید بتایا کہ ایک کیس مثبت آنے پر پورا علاقہ سیل کیا جاتا ہے لیکن ہسپتال میں کئی کیسز آئے لیکن وہاں ایسا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے دوسرے متاثر ہو رہے ہیں۔
سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جو حفاظتی سامان فراہم کیا جاتا ہے وہ ڈسپوزیبل ہے لیکن دوسری بار فراہم نہیں کیا جاتا اور طبی عملے کو وہی طبی سامان دوبارہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر ایوب نے مزید بتایا کہ ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں خیبر پختونخوا میں شرح اموات زیادہ ہیں، لاک ڈاؤن پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، بازاروں میں رش ہے جو وائرس کے مزید پھیلنے کا باعث بن رہا ہے۔ ٹیسٹ کرانے کی تعداد بھی کم ہے اگر درست تعداد میں ٹیسٹ کیے گئے تومتاثرہ افراد کی تعداد خطرناک حد تک زیادہ ہوگی‘‘۔
مردان کے ایک ڈاکٹر کے خلاف محکمہ صحت کے اعلی حکام نے تاد یبی کاروائی اس لیے کی تھی کیوں کہ وہ میڈیا کے ذریعے ڈاکٹروں کو سہولیات کے فقدان کے بارے میں آگاہ کر رہا تھا۔ جبکہ اسی طرح کوئٹہ میں حفاظتی سامان کا مطالبہ کرنے والے کئی ڈاکٹروں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
‘ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا‘ کے نمائندے ڈاکٹر اسفند یار خان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں بتایا،” پشاور میں اس وقت چھیالیس ڈاکٹرز متاثر ہیں حکومت لاک ڈاؤن سخت کرے، اگر وبا اسی شرح سے بڑھتی گئی تو ہمارے پاس مریضوں کی دیکھ بھال کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ڈاکٹرز فرنٹ لائن پر کام کررہے ہیں لیکن سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں حکومت وعدہ تو کرتی ہے لیکن حفاظتی سامان کی فراہم میں تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔” ڈاکٹر اسفند یار عوام سے اپیل کی کہ وہ گھروں تک محدود رہیں۔
ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ پیرا میڈیکس کے ہزاروں اہلکار فرنٹ لائن پر کام کررہیں ‘پیرا میڈیکل ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا‘ کے صوبائی صدر سید روئیداد شاہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس وقت بیس ہزار پیرامیڈیکل سٹاف متاثرہ افراد کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں۔ ان میں سے پچیس کو کورونا وائرس نے متاثر کر دیا ہے۔ کہ اگر حکومت نے پندرہ دن کے لیے مکمل لاک ڈاؤن نہ کیا تو یہ وبا خطرناک حد تک بڑھ سکتی ہے”۔
خیبر پختونخوا میں کورونا وائرس کی تشخیص کا ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت انتہائی کم ہے۔ صوبائی وزیر برائے صحت تیمور سلیم جھگڑا کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت کو جلد دو ہزار ٹیسٹ یومیہ تک بڑھائیں گے۔
‘پراونشل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن‘ کے صدر ڈاکٹر امیر تاج خان کا کہنا ہے،” ہمارا صحت کا نظام انتہائی کمزور ہے، حکومت دیگر بیماریاں کنٹرول نہیں کرسکتی تو وبا پر اتنی جلدی کیسے قابو پاسکتی ہے؟ لاک ڈاؤن کو مزید سخت کیا جائے اور ہر ضلع میں ایک ہسپتال کورونا وائرس کے متاثرین کے لیے مختص کیا جائے۔ ‘‘۔
ملک بھر میں مجموعی طور پر متاثرہ طبی عملے کی تعداد تین سو پینتالیش ہے۔ اس تعداد میں ایک سو پینسٹھ ڈاکٹر،ایک سو اکتیس پیرا میڈیکس اور اکتالیس نرسز شامل ہیں۔
DW
♦