قانون فہم
ڈپلومیسی ،سفارتکاری اور سیاست یہ سب کا مفہوم بات کو صحیح انداز میں کرنے کا ڈھنگ ہے۔ اگر آپ کسی سے کہیں کہ میں آپ کے والد محترم کو ملنے آیا ہوں تو وہ آپ کو پیار سے ڈرائنگ روم میں بٹھائے گا اور اگر آپ اسے کہیں کے میں آپ کی والدہ کے خصم کو ملنے آیا ہوں تو یقینی طور پر وہ آپ کو گولی مار دے گا۔
ایک وقت میں محترم راحیل شریف کو ڈپلومیسی کا بھوت سوار ہوا۔چین نے پاکستان کو متنبہ کیا کہ وہ 2015 کی برکس کانفرنس میں پاکستانی دہشت گردوں کے خلاف پیش کی جانے والی ہندوستانی قرارداد کو رکوانے کی پوزیشن میں نہیں رہا ہے۔ وزیراعظم نے یہ سب صورتحال محترم راحیل شریف کے سامنے رکھی تو محترم راحیل شریف نے وزیراعظم کو کہا کہ وہ فکر نہ کریں یہ سب کام انکےبائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
وزیرخارجہ راحیل شریف نے طیارہ پکڑا اور روس، برازیل اور چین جا پہنچے۔ کہتے ہیں کہ روس جا کر انھوں نے اپنے ہم منصب سے اپنی سیاسی قیادت کو ملانے کی درخواست تھی جو شائستگی کے ساتھ ٹال دی گئی ۔راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد محترم وزیر خارجہ نے اپنے ہم منصب کو کہا کہ وہ پاکستان کے ذریعے روس کو گرم پانیوں تک رسائی دینے کو تیار ہیں ۔نابغہ کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ گرم پانیوں تک پہنچنے کی کوشش روس پر الزام تراشی تھی اور روسی اس لفظ اور جملہ سے چڑتے ہیں ۔ اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اور چین میں پاکستانی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف قرارداد منظور ہوئی۔
ایٹمی ہتھیاروں پر پاکستان کا معروف بیانیہ ہمیشہ سے رہا ہے کہ 1971 میں پاکستان کا دایاں بازو مشرقی پاکستان انڈیا نے فوجی حملہ کے ذریعے کاٹ کر الگ کرکے آزاد ملک بنا دیا۔ جس سے پاکستان کی سالمیت خطرے میں پڑی اور انڈیا نے حملہ اور جارحیت کی نیت سے ایٹمی ہتھیار بنائے ۔جس کی وجہ سے پاکستان مجبور ہوگیا کہ ڈیٹرنس اور اپنے دفاع کے لیے ایٹمی ہتھیار بنائے ۔آج تک اگر پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک کے طور پر مختلف ترقی یافتہ ممالک بھیک، خیرات دیتے ہیں تو اس کے پیچھے یہ ایک لازمی منطق ہے کہ وہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے جنون کی تاریخ سے واقف ہیں۔
سنہ 88 سے 99 کے دوران پاکستان سرمایہ کاری کے لیے دنیا کے پسندیدہ ترین ممالک میں سے تھا۔ اور پاکستان کی ہر خواہش پر سینکڑوں انویسٹر پاکستان آئے اور مختلف پروجیکٹس میں انویسٹمنٹ کی۔ شاید ہی آج کسی کو یاد ہو کہ آرامکو سعودی تیل کمپنی جو ریفائنری انڈیا میں 75 ارب ڈالر کی لگانے جا رہی ہے وہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے ادوار میں اس نے پاکستان میں لگانے کی دلچسپی ظاہر کی تھی۔
پاکستان میں مختلف اداروں کی اپنے اختیار سے تجاوز کرنے کی عادت نے پاکستان کو کبھی ایک مستحکم ملک نہیں بننے دیا اور سب سے اہم بات اس کے پوری دنیا کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ پاکستان کے ریاستی ادارے دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کرتے ہیں اور ان کے ذریعے ملک کے اندر سیاسی قیادت پر حملوں اور غیر ممالک میں کاروائیوں کے مجرم ہیں۔
سنہ2008 سے 2013 تک پاکستان میں سیاسی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کیلئے سپریم کورٹ نے جس قدر جدوجہد کی اس دوران دنیا نے انویسٹمنٹ کے لیے پاکستان کے علاوہ دیگر جگہوں پر غور کرنا شروع کیا اور 2015 میں چین میں برکس کی قرارداد پاکستان کے خلاف منظور ہونے کے بعد انڈیا کا سفارتی سطح پر آگے بڑھنے کا سفر شروع ہوا۔ سب دور اندیش لوگ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو متنبہ کرتے رہے کہ آگے آنے والے وقت میں آپ کو بدترین سفارتی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم پاکستان کا کا اقوام کے سامنے یہ کہنا کہ آپ انڈیا کے بڑی مارکیٹ ہونے کی وجہ سے انڈیا میں انویسٹمنٹ کرنے رہے ہو اور آپ کو یہ علم نہیں ہے ۔ کہ انڈیا کے تضادات اور تنازعات پاکستان جیسی ایٹمی قوت کے ساتھ ہیں۔آپ کو اس امر سے خوف زدہ ہونا چاہیے کہ آپ کی انویسٹمنٹ انڈیا میں محفوظ نہیں ہے اسے کبھی بھی پاکستان ایٹمی حملہ کے ذریعے تباہ کر سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ بہت سے لوگ اس امر کو سمجھتے ہوں کہ یہ ڈپلومیسی کا کوئی نیا انداز ہے ۔
مجھے اس بات سے شدید اختلاف ہے وزیراعظم یا کسی وزیر کی سطح پر ایسا بیان بین الاقوامی میں ڈپلومیسی کے تسلیم شدہ دہ حدود و قیود سے سے بالاتر ہیں اور بین الاقوامی امن پر حملہ کی مانند ایک پیغام اسے سمجھا جائے گا۔پہلے ہی مودی اپنی جارحانہ مارکیٹنگ سٹریٹجی کے ذریعے پاکستان کو ایک کونہ میں لگا چکا ہے۔مجھے خوف ہے کہ اس غیر ذمہ دارانہ اور احمقانہ بیان کے بعد پاکستان پر دباؤ بڑھے گا۔خدا موجودہ پاکستان کو اپنی حفاظت میں رکھے حفاظت کے ذمہ داران ہرگز اس اس کی اہلیت نہیں رکھتے۔
سلیکٹڈ وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں پہلی تقریر پر بھی میں نے یہی معروضات پیش کی تھیں۔ رات اقوام عالم سے سلیکٹڈ وزیراعظم نے دوبارہ خطاب فرمایا ہے۔ اس لئے انہیں دوبارہ دہرا دیا ہے۔
وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم کو بریفنگ دی جاتی ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں 600 کے قریب اعلی افسران کن کاموں کے لیے تعینات ہیں اور وہ وزیر اعظم کے لئے کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے وزیراعظم ان تمام افسران کو وسائل کا زیاں سمجھتے ہیں ۔ اور پالیسی میکنگ یا سفارت کاری میں ان کی رائے لینے کے سرے سے ہی منکر ہیں۔
مصیبت کی اس گھڑی میں بھی ان کے مخاطب پاکستان میں موجود ان کا ووٹ بینک ہے۔ بین الاقوامی سفارت کاری کیا ہوتی ہے۔پاکستان کو اس وقت کس کی مدد کی ضرورت ہے اور کس طرح کی مدد کی ضرورت ہے ان باتوں سے ان کا ہرگز کوئی علاقہ نہیں ہے۔
♥