سلمان حیدر
میں پاکستان چھوڑ چکا تھا اور سری لنکا میں بیٹھا وہاں سے نکلنے کے راستے پر کام کر رہا تھا جب مجھے مشال خان کے قتل کی خبر ملی۔ ایک صحافی نے مجھے بتایا کہ کس طرح ہجوم نے اس بے گناہ بچے کو مار مار کر مار ڈالا۔ پاکستان سے نکلتے ہوئے میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں ایک دو سال باہر رہوں گا۔ تب تک لوگوں کو میرا نام اور چہرہ بھول جائے گا جو ٹی وی پر بار بار دکھائے جانے کی وجہ سے نمایاں ہو چکا تھا۔ اس کے بعد جب لوگ کسی اور چیز کے پیچھے لگے ہوں گے تو میں واپس پلٹ آوں گا۔
مجھے چھوڑنے سے پہلے یہ دھمکی دی گئی تھی کہ اگر تم اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو اول مولوی تمہیں نہیں چھوڑیں گے اور دوسرے ہم بھی تمہارا انتظام کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے ایک صاحب میرے والد سے اظہار ہمدردی میں یہ کہہ چکے تھے کہ آپ نے بھائی چالیس سال کی عمر میں قتل کروایا اور بیٹا اس عمر سے بھی پہلے لاپتہ کروا لیا۔ تھوڑا سٹیپ بیک کر لیں۔
میرے چچا جو پنجاب لاء کالج فیصل آباد کے پرنسپل تھے کوئی بیس سال پہلے سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں کا نشانہ بن چکے تھے۔ میرے والد نے کافی مذہبی ہونے کے باوجود مجھے ساری زندگی کبھی سیاست سے روکا نہ کبھی مذہب پر بات کرنے سے۔ ہاں جب بھی کوئی وقت ایسا آتا تھا کہ میں خطرے میں ہوتا تھا تو ان کی تشویش بڑھ جاتی تھی۔ اس بار بھی مجھے انہوں نے روکا تو نہیں لیکن یہ ضرور کہا میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔
میرے بڑے بھائی کا یہ خیال تھا کہ مجھے چپ چاپ چھ آٹھ مہینے پاکستان میں ہی سر جھکا کر گزار دینے چاہئیں اس کے بعد معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔ دوسری طرف میرے وہ دوست جو سیاسی حالات سے واقف تھے ان سب کا مشورہ تھا کہ مجھے پاکستان چھوڑ دینا چاہئیے کم سے کم کچھ وقت کے لیے۔
ایک صحافی نے مجھے فروری کے آخر میں فون پر بتایا کہ جس جج کے پاس ہمارے خلاف توہین رسالت کا پرچہ درج کرانے کی درخواست لال مسجد والوں نے دائر کی ہے اس نے ایک صحافی کے سامنے کہا ہے کہ وہ جانتا ہے سلمان حیدر توہین میں ملوث نہیں ہے۔ اس صحافی نے مجھے مبارکباد دی کہ میرا مسئلہ حل ہو گیا۔ مولوی دوسری طرف اپنا پورا زور لگا رہے تھے اور ایف آئی اے میں ایک پرچہ درج ہو چکا تھا جس میں میرا نام تو موجود نہیں تھا لیکن موچی پیج کا نام موجود تھا۔
میں نے پولیس میں موجود ایک دوست کو اس مبارکباد کی خبر دی۔ اس نے مجھے کہا رکو میں تمہیں فون کرتا ہوں۔ اگلے دن اس کا فون آیا تو اس نے مجھے کہا کہ تم آج ہی فلاں شہر پہنچو میں تمہارے پاکستان سے نکلنے کا انتظام کر رہا ہوں۔ میں نے اس سے کہا کیوں۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ اطلاع تم تک پہنچوائی گئی ہے۔ لال مسجد والے تم سب لوگوں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالنے کی درخواست دے چکے ہیں۔ اس کی سماعت سات مارچ کو ہے۔ باقی سب لوگ پاکستان سے نکل چکے ہیں۔ ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر نام آنے کے بعد تمہارے پاس افغانستان کے راستےنکلنے کے علاوہ کوئی چوائس نہیں ہو گی تم شیعہ ہو توہین رسالت کا الزام ہے تمہیں افغانستان سے نکالنے کا رسک نہیں لیا جا سکتا۔
اس پولیس افسر کے مولوی ذرائع اسے بتا رہے تھے کہ نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈال کر اس کے بعد پرچہ بذریعہ عدالت درج کروا لیا جائے گا۔ پرچہ درج ہونے کے بعد بچنا قریب قریب ناممکن ہے۔ سو وہ چاہتا تھا کہ میں نکل جاوں۔ میں نے اسے کہا میرے ایک اور دوست نے یہ انتظام کر رکھا ہے کہ میں تین دن کے نوٹس پر نکل جاوں۔ اس کا کہنا تھا کچھ بھی ہو سات تاریخ سے پہلے پاکستان چھوڑ دو۔ بعد کی بعد میں دیکھیں گے۔
میں نے بیرون ملک موجود اس دوست سے رابطہ کیا گھر میں ایک گرما فرم بحث ہوئی اور اس کے بعد فیصلہ یہی ہوا کہ میں ابھی پاکستان چھوڑ دوں۔ باقی باتیں بعد میں دیکھیں گے۔ میں نے پانچ مارچ کو پاکستان چھوڑ دیا۔ سات مارچ کی سماعت پر اسی جج نے جس کا کہنا تھا کہ وہ میرے توہین میں ملوث نہ ہونے کے بارے جانتا ہے تمام بلاگرز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالنے کا حکم دے دیا۔
جج کو میری بے گناہی کا علم ہونے کی “خوش خبری” سنانے والا صحافی اور مشال خان کے قتل کی خبر دینے والا صحافی ایک ہی تھا۔ میں نے پھر اپنے اس پولیس افسر دوست سے رابطہ کیا اور اسے بتایا کہ اس صحافی “دوست” کا فون آیا تھا مشال کا بتانے لیے۔ پولیس والے دوست نے کہا وہ تمہیں یہ بتا رہا تھا کہ اس کی بات مان لیتے تو تمہارا مسئلہ بھی اسی طرح حل کر دیا جاتا۔۔۔
♦