ولید بابر ایڈووکیٹ
موجودہ کرونا وائرس حملہ سے جہاں ریاست مکمل ناکامی اور محرومی کی تصویر بن کر سامنے آئی ہے وہاں عوام کی اپنی مدد آپ فلاحی کاموں کی شروعات ایک اچھی کاوش اور “قوم کی تعمیر” کی جانب پیش قدمی ہے جسے ایک امریکی مصنف سیمور مارٹن لپسٹ قوم کی تعمیر میں
conscious integration and assimilation process
کا نام دیتا ہے۔
ہمیں جہاں ایک طرف عوامی انجمنوں کو مزید فعال کرنا ہو گا دوسری طرف انہی انجمنوں کو اپنے حقوق کی مانگ کے لیے منظم کرتے ہوئے ریاست سے اپنے حقوق چھیننے کا حوصلہ دینا ہو گا۔ یہ دوہرا عمل ہے جس میں ایک طرف خود کو منظم کرنا ہوتا ہے اور پھر اسی منظم گروہ/عوام کو ریاست کے سامنے لاکر اپنے حقوق لینے پڑتے ہیں۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے صرف ایک پہلو پر توجہ دی جاتی ہے یعنی یا تو محض سیاسی عمل کو اہم سمجھا جاتا ہے یا پھر فلاحی کام پر ہی تکیہ کر کے سیاسی عمل کو یکسر مسترد کر دیا جاتا ہے۔بنیادی طور پر عوامی مسائل کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے مگر مشکل وقت میں عوام کو تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا اس سے عوام میں عوامی حقوق کے دعویدار (سیاسی راہنماؤں ) کے خلاف بدظنی پیدا ہوتی ہے جس کا اظہار وہ سیاسی عمل سے علیحدگی کی صورت کرتے ہیں۔
عوامی مدد سے حاصل کیے گئے حقوق عوام میں “کامیابی کا اساس” پروان چڑھتے ہیں جس وہ آئندہ جدوجہد پر آمادہ ہوتے ہیں۔مگر عوام کے چند مسائل حل کر دینے کا مطلب یہ نہیں کہ عوام کے تمام مسائل فلاحی انداز میں حل ہو سکتے ہیں (جیسا کے این جی اوز یعقین رکھتی ہیں) اور سیاسی کام’ مرکزیت’ اجتماعیت اور عمل سے الگ ہو کر صرف ایک اصلاح کار بنا جائے بلکہ ایک تبدیلی پسند سیاسی ورکر کا فریضہ ہے کہ وہ ہر دو پہلو میں تال میل رکھے۔
قوم کی تعمیر میں جہاں مشترکہ خطہ زمین’ زبان’ ثقافت’ تاریخ’اخلاقیات’ زہنی ہم آہنگی’ادب اور معاشی سرگرمیاں وغیرہ شامل ہیں وہاں ایک قوم بنے کا اجتماعی شعور بھی اشد ضروری ہے۔ قدیم اقوام میں یہ “اجتماعی شعور” “غیر ارادی” یا “غیر شعوری” تھا جیسا کہ اٹلی’ جرمنی’ فرنس’ ایران’اور عرب وغیرہ کے مختلف قبائل (قبائل برادری اور قومیت کی بنیادی اکائی ہیں) نے ایک قوم کی تشکیل کی۔
ان اقوام کا سفر تاریخی اور ارتقائی تھا جس میں زراعت اور صنعت نے اہم کردار ادا کیا۔ اس کی نسبت ایسی اقوام جن کی تاریخ بہت قدیم نہیں ہے یا جو “بیرونی تسلط” کا شکار رہی ہیں ان میں درجہ بالا اجزاء (مشترکہ زمین’زبان’ثقافت’اخلاقیات’زہنی ہم آہنگی’معاشی سرگرمی وغیرہ) کے علاوہ قوم بنے کی “شعوری خواہش” ایک لازمی جزو رہا ہے۔جسے عام طور پر آزادی پسند انقلابی راہنماؤں نے اُبھار کر عوام کو ایک تحریک و ترغیب دی ہے۔
امریکہ’ پاکستان(عمل ہنوز جاری ہے)’ وسطی ایشیائی اور افریقی ریاستیں اس کی مثالیں ہیں۔ آزادی پسند راہنماؤں اور تحاریک نے یہ عمل عمومی طور پر عوام کے اجتماعی شعور کو جنجھوڑ کر’ وسائل کی جانب توجہ مبذول کروا کہ’ عوام کی حالت زار’ بیرونی قابضین و آبادکاروں کے کردار کو بے نقاب کر کے اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ کو سامنے لاکر عوام کو اس بات پر قائل کر لیا کہ وہ اپنے اجتماعی وسائل اپنے ہاتھ میں لیں۔ چونکہ وہ ایک الگ قوم ہیں اس لیے خطہ زمین پر حکمرانی’مطلق العنایت اور حق خود اداریت ان کا پیدائشی حق ہے اور مقامی حکمران گماشتے کا کردار ادا کرتے ہوئے قابضین کے سہولت کار بن کر اپنی اور اپنی نسلوں کا مستقبل سنوار رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے تمام تر تصورات 18/19 ویں صدی میں اور بلخصوص نوآبادیاتی خطوں میں ظہور پذیر ہوئے۔
ایک نقطہ نظر کے مطابق قوم کی ابتداء ایک مخصوص عہد میں ہوئی اور اس کا اختتام بھی مخصوص عہد میں ہی ہو گا مگر موجودہ عہد میں جب کہ وسائل و مسائل اور سماجی’ سیاسی و معاشی ترقی غیر ہموار ہیں تو ایسی اکائی کی اشد ضرورت ہے کہ جس کے پلیٹ فارم سے عوام کو اکٹھا کیا جا سکے۔عوامی مسائل کے حل کے لیے ریاستی کنٹرول عوامی نمائندوں کے ہاتھ ہو’دولت کی منصفانہ تقسیم اور قومی ادارے ریاستی ملکیت میں ہوں۔یہ حقیقت ہے کے پاکستان سے ہو کر کوئی امریکن عوام کو موثر انداز میں مخاطب نہیں کر سکتا۔ چند دانشورں کے نزدیک قوم میں مالک و محروم طبقات کو علیحدہ علیحدہ طور پر رکھنا چاہئے۔
“قوم کی تعمیر” میں “شعوری کاوش”ایک نیا موضوع ہے جس پر برصغیر کی قومی تحاریک میں بہت کم استفادہ حاصل کیا گیا ہے۔ اس موضوع پر گرمچی اور امریکن دانشوروں کا خاصا کام ہے۔
جموں کشمیر جیسے خطے جو ابھی تک نوآبادیاتی تسلط کا شکار ہیں اور قوی تعمیر کا سفر تعطل کا شکار ہو کر رک گیا ہے۔ قومیتوں کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں اور مشترکہ معاشی سرگرمی نہ ہونے کے باعث انضمام کا عمل سست روی کا شکار ہو گیا ہے۔جموں کشمیر کی قومی تشکیل کا فریضہ ایک متحرک سیاسی تحریک/تنظیم ہی سرانجام دے سکتی ہے جو تمام خطوں کے عوام کا نمائندہ آئین تشکیل کرتے ہوئے نئے عمرانی معاہدہ پر سب کو متفق کر سکے۔ منقسم ریاست کے کسی ایک خطہ کی مضبوط نمائندہ تحریک ریاست کے دوسرے خطہ کے عوام کو لازمی طور پر اپنی طرف راغب کرے گئی کیونکہ تقسیم کے ستر برس کے بعد بھی ریاست کے تینوں اکائیوں میں “قوم کی تشکیل” کی “شعوری خواہش” بدرجہ اُتم موجود ہے اور وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ایسےمیں ریاست کی آزادی پسند سیاسی تنظیموں کو ان موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کرنا ہو گئی اور موجودہ حالات سمیت کسی بھی ہنگامی یا نارمل حالات میں ان دو پہلوں پر خاص توجہ دیتے ہوئے عوام کے مشکل وقت میں ان کا سہارا بھی بنا ہو گا اور عوام کو اپنے حقوق کی بازیابی اور بیرونی قبضہ اور مقامی گماشتوں سے نجات دلانے لے لیے تحریک منظم کرتے ہوئے حوصلہ فراہم کرنا ہو گا۔
♦