حسن مجتبیٰ
یہ ایک اور لیکن اچھی کورونا کی کہانی ہے۔ میرے دل کے شہر نیویارک کے جس علاقے میں میں رہتا ہوں اسے کورونا کہتے ہیں۔ میں نے نیویارک میں کورونا کو رہائش کیلے سال دو ہزار سات میں چنا تھا۔ وہ سال جب بینظیر بھٹو قتل ہوئی تھی۔ جہاں میں کیلیفورنیا میں امریکہ کے ایک بہت ہی خوبصورت شہر سین ڈیا گو سے نقل مکانی کر کر آیا تھا جسے میں اب بھی یاد کرتا ہوں۔
نیلے پانیوں والے پیسیفک کو، اوشین بیچ کو، اپنے چھوٹے خوابیدہ شہر لامیسا اور اسکی لائیبریری کواور اسکے لوگوں کو ، اپنے پڑوسیوں اور دوستوں کو خاص طور جوائنا، بیورلی اور صغیر کو۔ وہاں کے بے گھر لوگوں کو، خاص طور بے گھر جوڑے جیسن اور بیکی اور انکی کتیا سینٹ پالی کو(سینٹ پالی ایک عیسائی برگزیدہ شخصیت گذری ہے۔
سینٹ پالی جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں جگ مشہور ریڈ لائیٹ علاقے کا نام بھی ہے۔ اسی نام کی ایک بئیر بھی ہے ۔اسی شہر میں مجھے عراق جنگ شروع ہونے پر میرے بی بی سی کے دوستوں نے ڈھونڈھ نکالا تھا۔ پھر اگلے چار سال تک سین ڈیا گو کیلیفورنیا کی ڈیٹ لائین سے بی بی سی پر میرے کالم، بلاگ، اسٹوریاں یہاں تک کہ نظمیں بھی شائع ہوتے رہے۔
مگر یہ نیویارک ہے۔ میں اکثر اپنے پیاروں یاروں سے کہتا رہتا ہوں امریکہ کا مطلب ہے نیویارک۔ اور نیویارک کا مطلب ہے میں یعنی حسن مجتبیٰ۔ جس طرح وہ گانا ہے نہ “اگر سان فرانسسکو جاؤ تو بالوں میں پھول لگا کر جاؤ ، اسی طرح جب نیویارک آؤ تو تین کام کرو: پہلا اسٹرینڈ بوک اسٹور جائیں، دوسرا “اسٹون وال ان میں دو دو ڈرنکس شراب کی لیں اور تیسرا حسن مجتبیٰ سے ملو۔
میں اکثر اپنے یاروں پیاروں سے کہتا ہوں۔ تو میں اپنے اس علاقے کورونا سے اور کورونا میں محبت میں گرفتار ہوگیا۔ یہ ایک چھوٹا کولمبیا ہے۔ یہاں ہر تیسرا یا چوتھا شخص گیبو کو جانتا ہے۔ میرے محبوب لکھاری اور ناول نگار گبریل گارشیامارکئیز کو اسکے لوگ پیار میں گیبو کہتے ہیں۔
یہاں کورونا میں اپ کو اپنے پڑوسی، گروسری اسٹور پر آپ کا سودا تھیلی میں میں بھرنے والی، شراب خانے میں آبدار (بارٹینڈر) یا ٹیکسی والے سے اسکی ِآپ کو آؤ بھگت کے جواب میں روزمرہ کی زندگی میں استعمال ہونیوالے دو چار الفاظ ہسپانوی کے نہ بول سکنے پر ضرور شرمندگی محسوس ہوگی۔ اور ھونی بھی چاہیے۔
جگ مشہور گائیکہ میڈونا بھی اسی علاقے میں پلی بڑی ہوئی تھی۔ اسی علاقے میں امریکی جاز کا خدا لوئیس ٓآرمسٹرانگ پید ا ہوا تھا۔ اب جس کے گھر کو عجائب گھر میں تبدیل کردیا گیا ہوا ہے۔ جیسے میں نے جرمنی کے شہر بون میں عظیم موسیقار بیتھووین کا گھر دیکھا تھا جو ایک عجائب گھر سے زیادہ زیارت گاہ ہے۔ ہونا بھی چاہیے۔
تو بات کر رہا تھا اپنے اچھے شہر کورونا کی۔ یہیں دو سو سالہ پرانا یہودی عبادت گاہ سائناگ بھی ہے اور مشہور الفلاح مسجد بھی۔ اگرچہ میں ایک لاخدا صوفی ہوں پر تمام مذاہب کا احترام کرتا ہوں۔ یا تو سب مذاہب میرے ہیں یا کوئی مذہب میرا نہیں۔ مگراس مسجد کا بمبئی کا جم پل مولوی بڑا بیہودہ نکلا۔ اس نے اسکے سوال پر میرے جواب کہ “نہیں میں نماز نہیں پڑھتا پر کہا تھا “ حدیث ہے کہ جو شخؐ نماز ادا نہیں کرتا وہ اپنی ماں کیساتھ زنا کرتا ہے”۔
اب یہ مولوی ٹیکسی ڈرائیور ہے۔ مسجد سے ملحق اسکی گروسری اور گوشت کی دکان ہے (ذبیحہ حلال جہاں میں پہلی اور آخری بار گیا تھا۔ میں دوستوں سے ازراہ مذاق کہتا ہوں آؤحلال کھائیں حرام پیئیں)۔ لیکن اس دکان پر کام کرنے والا قصائی اچھا اور مزے کا آدمی تھا۔ وہ فیڈرل بی ایریا کراچی کا رہنے والا تھا اور اپنے پڑوسی خالد شہنشاہ سے اپنی یاری اور اسکے کارناموں کے قصے بڑے شوق سے سناتا تھا۔
تو میرا نیبرہوڈ کورونا زیادہ تر اطالوی پڑوس تھا جو اب خاص طور لاطینی امریکی آباد کاعلاقہ ہے۔ جیسے میں نے کہا کہ یہ چھوٹا کولمبیا ہے۔ یہاں کئی دکانوں اور مقامات کا نام “کورونا” اسکے تاریخی اس علاقے پر ہونا عام بات ہے۔ معرکتہ الآرا “کورونا پیزا” تمام نیویارک میں مشہور ہے۔ اسی طرح “کورونا لیمن ٓآئیس” یہاں کی امریکیوں میں پاپولر گولے گنڈے ٹائیپ ہر کئی وکھرے وکھرے ذائقوں یا سواد والی آئیس کریم کی دکان ہے۔ “۔
کورونا ڈسکائونٹ” جو کہ ایک مراکشی کا ہے اور “کرونا ڈیلی” جو کہ کافی، ہلکے پھلکے کھانے پینے، بیئر اور تمباکو اور شیشے سگریٹ کی دکان ہے جو کہ یمنی فیملی چلاتی ہے۔ میرے اس محلے میں میکسیکن “کورونا” بئیر بھی پاپولر ہے جسکی باقی امریکہ میں کورونا وائرس کے بعد فروخت میں چالیس فی ؐصد کمی آئی ہے۔ لیکن اس علاقے “کورونا” میں نہیں۔
امریکہ تو وہ ملک ہے جہاں گیارہ ستمبر کے دہشتگردانہ حملوں کے بعد والے شروعاتی دنوں میں کئی ایک نے سکھوں کو بھی طالبان سمجھ رکھا تھا۔ پھر انکا اس سے کیا کہ طالبان ظالمان نے سکھوں کو کتنا بڑا قتل عام کیا ہے۔ کچھ روز قبل بھی پھر کابل میں انہوں نے یہی کیا۔ نیز اسی کورونا میں کورونا پارک بھی ہے جو سمجھو کہ کوئینز کا سینٹرل پارک ہے، یہاں پر ہی مشہور ھال ٓآف سائنس ہے جہاں ہر ماہ رمضان میں نیویارک شہر کا میْر مسلمان کمیونٹی کے اعزاز میں ایک بڑے افطاری ڈنر کا اہتمام کرتا ہے۔
یہیں اسی پارک سے ملحق سٹی فیلڈز ہیں جہاں امریکی کرکٹ بیس بال اور عالمی چیمپین شپ یو ایس اوپین ٹینس کے میچ کھلے جاتے ہیں جنہیں پورے امریکہ سمیت دنیا بھر سے لوگ دیکھنے آتے ہیں۔ اب اس سٹی فیلڈ سٹیڈیم کو کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے ہسپتال میں بدلا جا رہا ہے۔
اسی پارک میں قائم نیویارک میوزیم آف آ ٓرٹس میں ہی میں ذلفی بھٹو جونئر سے پہلی بار ملا تھا، اسکی پرفارمنس دیکھی تھی۔ اسے جھپی ڈالی تھی۔ اب تو میں اپنے بیٹے کو بھی جھپی نہیں ڈال سکتا۔ جو جب چوتھی کلاس ایلمینٹری میں تھا تو میں اسے کیلیفورنیا سے نیویار ک کے پڑوس کورونا میں لایا تھا۔ اب وہ مینہیٹن کے ایک کالج کے آخری سال میں بیالاجی کا طالبعلم ہے۔ وہ میرے گھر میں داخل ہونے پر بہت دنوں سے سب سے پہلے ہاتھ صاف کرنے کو کہتا جب سے افریقہ میں کورونا سے بھی خطرناک بیماری ایبولا نے اپنا گندا سر نکالا تھا۔
پرسوں وہ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ ابو تمہں پتہ ہے امریکہ میں کورونا کے سب سے زیادہ مریض نیویارک میں ہیں، نیویارک کیوئینز بورو میں ہیں (کوئینز جہاں کا جم پل ٹرمپ بھی ہے) اور کوئینز میں بھی ایلمہرسٹ ہسپتال میں ، جیسے اب امریکی میڈیا مریضوں کا سیلاب کہہ رہی ہے۔ کل ٹرمپ اپنی بریفنگ میں کہہ رہا تھا اسکے علاقے نیویارک کے المہرسٹ ہسپتال میں لاشیں ڈھونے والے ایئر کنڈیشنڈ ٹرک کھڑے دیکھ رہا ہے۔
ہسپتال سے باہر کالی پلاسٹک کی باڈی بیگز لدی دیکھ رہا ہے۔ اس سے قبل، وہ کہہ رہا تھا، اس نے یہ مناظر ٹیلیو یژ ن پر دوسرے ملکوں کے دیکھا کرتا تھا۔ ٹرمپ کہہ رہا تھا “اگر امریکہ میں آنے والے دنوں میں فقط ایک لاکھ تک لوگ مرتے ہیں تو اسکا مطلب ہے ہم نے اچھا کام کیا”کیسے لوگ ہیں یہ! ایلمہرسٹ ہسپتال میرے گھر سے دس منٹوں کی ڈرائیو پر ہے۔
فیس بک پر ایک تدفین گھر کا اشتہار ہے جس میں تدفین گھر کے باہر ایک فیملی کو مسکراتا ہوا دکھا یا گیا ہے۔ میرے شور شرابہ کرتے پڑوسی (کورونا میں لاطینی لوگوں کے فقط تین شوق ہوتے ہیں پر شور میوزک بجانا، پارٹیاں کرنا اور بینر پینا) خاموش ہیں۔ یہاں تک کہ انکے پیارے پیارے کتے بھی۔
میں اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے باہر دیکھتا ہوں تاحد نظر کورونا میرا محلہ “سونی ہو جاوون گلیاں وچ مرزا یا پھرے” کی تصویر بنا ہوا ہے۔ بس دور ایک کونے پر بیمار زرد روشنی کے جلتے بلب کے نیچے ایک ٹاکو کا ٹھیلا حسب معمول کھڑا ہے۔گلوریا کے ٹاکو۔
ہر سو خاموشی ہے جسے چیختی چنگھاڑتی ایمبولینسوں اور پولیس سائرن کی آوازیں چیرتی پھاڑتی گذر جاتی ہیں۔ اور پبلک ٹرانسپورٹ بسیں اپنے وقت پر گذرتی رہتی ہیں چوبیس گھنٹے، ہفتے کے ساتوں دن۔
♦