محمد شعیب عادل
کرونا وائرس کی وبا سے پاکستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں پس منظر میں چلی گئی ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے سیاسی کارکن سوشل میڈیا پر اپنی آواز تو اٹھا رہےہیں۔تازہ خبر یہ ہے کہ کرونا کی وبا کے باوجود سندھ میں ایک اور ہندو لڑکی کو پہلے اغوا پھر مسلمان کیا گیا اور پھر اغواکار سے شادی کرا دی گئی ہے۔لیکن مطالعہ پاکستان کے زیر اثر پاکستانی اسے جھوٹا پراپیگنڈہ قرار دیتے ہیں جبکہ آزاد میڈیا پہلے ہی ریاست کے آگے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہے۔
چند دن پہلے واشنگٹن میں موجود ایک بلوچ سیاسی کارکن سے پوچھا کہ بلوچستان میں کرونا کے کیا اثرات ہیں تو کہنے لگے کہ کرونا وائرس ابھی تک کوئٹہ میں ہی ہے۔ دوسرے شہروں میں نہیں پھیلا۔انھوں نے بتایا کہ بلوچستان کے دوردراز علاقوں میں ذرائع آمدورفت کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ شاید ہی کوئی متاثرہ شخص بلوچستان گیا ہو اور اگر کوئی گیا بھی ہو تو وہاں صحت کی سہولتیں ناکافی ہیں ۔ لاہور جیسے ترقی یافتہ شہر میں ایک شخص کی مختلف لیبارٹریوں سے مختلف رپورٹیں آتی ہیں تو بلوچستان کس کھاتے میں ہو گا۔ بلوچستان میں تو لوگ موت کو اللہ کا لکھا سمجھ کرقبول کر لیتے ہیں ۔
انھوں نے بتایا کہ البتہ وہاں پاکستان آرمی نے آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ بلوچ سیاسی کارکن سوشل میڈیا پر اپنے خلاف جاری آپریشن پر آواز اٹھا رہے ہیں مگر ریاستی جبر اتنا ہے کہ کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ بین الاقوامی اداروں کی وہاں تک رسائی نہیں اس لیے وہ بھی خاموش ہیں۔
اسی طرح آن لائن میگزین بلوچستان ٹائمز کےچیف ایڈیٹر ساجد حسین دو مار چ سے سویڈن کے شہر اپسلا سے لاپتہ ہیں۔ ساجد حسین کا تعلق بلوچستان سے ہے۔
ساجد حسین پاکستان کے انگریزی روزنامہ ”دی نیوز انٹرنیشنل“ میں بطور ”سب ایڈیٹر“ اور ”سٹی ایڈیٹر“ کام کر چکا تھا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، شورش، سیاست، اور منشیات کے کاروبار جیسے متنازع موضوعات پر لکھا کرتا تھا۔ ستمبر 2012 میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ایک ٹیم کے دورے کے دوران ساجد حسین لاپتہ افراد پر اسٹوری لکھنے والے رائٹرز کے ایک صحافی کی معاونت کر رہا تھا، جس کے نتیجے میں مشکلات پیدا ہونا شروع ہوئیں۔ اور جب ریاستی اداروں نے صوبے میں جبری گمشدگی اور مارو اور پھینکو کی پالیسی اپنائی تو ساجد حسین کو 2012 میں مجبورا ملک چھوڑنا پڑا۔ اور کئی ملکوں کی خاک چھانتا ہوا سویڈن پہنچ گیا۔
اس کی گمشدگی کو دو ماہ ہونے والے ہیں ۔ عالمی پریس میں اس کی گمشدگی پر خبریں اور مضامین شائع ہوئے ہیں ۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اس کے اغوا میں کون ملوث ہے؟ کیا وہ پاکستان کے ریاستی ادارے کا نشانہ بنا ہے ؟ یا کسی ذاتی دشمنی کا نشانہ بنا ہے؟۔ لیکن پاکستان کے انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ یاد رہے کہ دو تین ماہ پہلے بھی ریاستی اداروں کی طرف سے یورپ میں موجود ان پاکستانی بلاگرز اور صحافیوں کو مارنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں جو سوشل میڈیا پر پاکستانی ریاست کی پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
کرونا وبا کی وجہ سے انسانی حقوق کے ادارے بھی پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ ویسے بھی عاصمہ جہانگیر کے جانے کے بعد انسانی حقوق کا ادارہ یتیم ہو گیا ہے۔عاصمہ جہانگیر پاکستان میں انسانی حقوق کی ایک مضبوط آواز تھی یہ انہی کا خاصہ تھا جو ایسٹیبلشمنٹ کو للکارتے ہوئے کہتی تھیں کہ یہ فوجی افسر نہیں ڈفر ہیں۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کبھی پاکستان میں بہت فعال ہوتی تھیں لیکن اب وہ بھی خاموش ہیں۔اس وقت ہیومن رائٹس واچ کے ملکی سربراہ سروپ اعجاز، ایک معروف وکیل ہیں اور انگریزی اخبارات میں کالم لکھتے رہتے ہیں جبکہ ایمنسٹی انٹر نیشنل کے ملکی سربراہ عمر وڑائچ ہیں۔عمر وڑائچ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے قریبی عزیز ہیں۔ ان کے مضامین بھی نیو یارکر، ٹائمز ، واشنگٹن پوسٹ جیسے بین الاقوامی اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ساجد حسین کی گمشدگی پر ان حضرات کی بین الاقوامی فورم یا میڈیا میں کوئی تحریر سامنے نہیں آئی۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے موجودہ سربراہ اب حارث خلیق ہیں۔ حارث خلیق، جنرل مشرف کے روشن خیالی کے دور میں ان کے سیاسی مشیر عمر اصغر خان کے قریب رہے ہیں اور ان کی تیار کردہ عوامی پارٹی کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ ادبی ذوق رکھتے ہیں ،اچھے شاعر بھی ہیں اور ادبی مضامین لکھ کر اہل علم سے داد پاتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ایمپائر نے جہاں وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر اپنا رکھ لیا ہے وہاں انسانی حقوق جیسے یتیم شعبے کو بھی اپنی سرپرستی میں لے لیا ہے۔
♦