بیرسٹرحمید باشانی
کوروناوائرس نے دنیا میں بہت تباہی اورخوف پھیلایا ہے۔ بہت زیادہ جانی و مالی نقصان کیا ہے۔ جانی نقصان پرماتم کرنےاورمالی نقصان پرکف افسوس ملنے کےبعداب وقت آگیا ہےکہ یہ دیکھا جائےکہ دنیا اس بحران سےکیا سبق سیکھ سکتی ہے ؟
کورونابحران میں دنیا کے لیے بہت اسباق ہیں۔ ایک سبق یہ ہے کہ ہم لوگ اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیےجن عالمی یا مقامی اداروں پرانحصار کرتے ہیں، اگر وہ ادارے اپنے فرائض منصبی کما حقہ بجا لینے میں کوتاہی کریں تو اس کے خوفناک نتائج نکل سکتے ہیں۔
کورونا وائرس کے خلاف لڑائی میں ایک بنیادی اورمرکزی کرداراقوام متحدہ کی تنظیم برائے صحت عامہ کا بنتا تھا۔ لیکن اس تنظیم کی کارکردگی کے پیش نظر آج دنیا میں کئی سیاست دان، سائنسدان اوردانشورکورونا کے ہاتھوں ہونے والی تباہی کی وجہ اس تنظیم کی ناکامی قراردیتے ہیں۔
الزام تراشی انسانی فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ انسانی سماج میں ہرحادثے، مصیبت ، آفت یا وبا کی ذمہ داری کسی دوسرے کے سر تھونپنے کا عام رواج ہے۔ ہرایسے موقع پر کوئی نہ کوئی قربانی کا بکرا تلاش کر لیا جاتا ہے۔ اس طرح انسان اپنی انا بچاتا ہے۔ اپنا بھرم قائم رکھتا ہے۔ دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنےاپ کوبری الذمہ قرار دے دیتا ہے۔ لیکن کورونا کے معاملے میں یہ محض الزام تراشی نہیں ہے، بلکہ کچھ لوگ غیرجانب داری اور دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تنظیم اگربروقت اس عالمی وبا کے خطرے کا پوراادراک کرلیتی ، اوردنیا کو بروقت اس کی شدت سے آگاہ کردیتی تو شاید دنیا اتنی بڑی تباہی سے بچ سکتی تھی۔ ایسا کرنا کوئی اضافی بات نہیں، بلکہ اس تنظیم کی آئینی اوراخلاقی ذمہ داری تھی۔
اگراس تنظیم کے اغراض ومقاصد اوروجود کی جواذیت دیکھی جائے تواس تنظیم کے قیام کی واحد اوربنیادی وجہ ہی عالمی صحت عامہ کی حفاظت اور دنیا کو ایسے خطرات سے بچانا ہے۔ اس کے مینڈیٹ میں یونیورسل ہیلتھ کئیر کی وکالت، عالمی سطح پرصحت عامہ کودرپیش خطرات کو مانیٹر کرنا، اور انسانی صحت کو فروغ دینا، ملکوں کو وبائی امراض کی تشخیص اورروک تھام کے لیے تیکنیکی امداد فراہم کرنا شامل ہے۔ اس کی ذمہ داریوں میں عالمی سطح پرصحت کے معیارکا تعین کرنااوراس باب میں ملکوں کو رہنمائی فراہم کرنا ہے۔
اس تنظیم کے قیام کا ایک طویل پس منظر ہے۔ وباوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دنیا میں آج تک جتنی بھی قابل ذکروبائیں پھیلی ہیں، ان میں سے کوئی بھی کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہی۔ بلکہ یہ وبائیں جلد یا بدیرقومی حدود پارکرکہ عالمی وبا کی شکل اختیار کرتی رہی ہیں۔ چنانچہ اس طویل تاریخی تجربے کے بعد ملک و قومیں انیسویں صدی کے شروع میں ہی اس نتیجے پر پہنچ چکی تھِیں کہ وبائی امراض کا مقابلہ دنیا مل جل کر ہی کر سکتی ہے، اور اس کے لیے عالمی سطح پراجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔
دنیا میں اس حقیقت کے ادراک اورشعورکےساتھ ہی اس محاذ پرتعاون کے لیے مختلف بین الاقوامی اجلاس اورکانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایسی چھوٹی موٹی سینکڑوں کوششوں کے بعد پہلی عالمی سطح کی کامیاب کانفرنس 1851کے موسم بہار میں ہوئی۔ اسے عالمی سینیٹری کانفرنس کا نام دیا گیا۔ اس سےعالمی کانفرنسوں کا ایک سلسلہ چل پڑا، اوراگلے سوبرسوں میں اس طرح کی پندرہ سے زائد کانفرنسوں کا انعقاد ہوا ۔
سنہ1892 میں ہیضے کی وبا کے خلاف ایک کامیاب عالمی کنوینشن ہوا، جس میں عالمی سطح پراس وبا کے خلاف مشترکہ لڑائی پر اتفاق ہوا۔ اسی طرح کادوسرا بڑاعالمی کامیاب کنونشن طاعون پرہوا۔ ان کوششوں کے نتیجے میں آگے چل کر 1907 میں ایک عالمی فورم قائم ہوا، جسے “عالمی دفتربرائے صحت عامہ” کا نام دیا گیا۔ بعد ازاں جب لیگ آف نیشنز قائم ہوئی تو اس کے زیر اہتمام صحت عامہ کی باقاعدہ تنظیم قائم کی گئی۔ لیگ آف نیشنز کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کے زیراہتمام عالمی تنظیم برائے صحت کا قیام عمل میں آیا۔
اقوام متحدہ میں اس تنظیم کے قیام کے پس منظرمیں بنیادی کردارچین نے ادا کیا۔ 1945میں چین کے وفد نے ناروے اوربرازیل کے وفود کے ساتھ مل کراقوام متحدہ میں ایسی عالمی تنظیم کے قیام کی کوشش شروع کی۔ بلاخرجولائی1946 میں اقوام متحدہ میں اکیاون ملکوں نے دنیا کی اس تنظیم کے آئین کو منظور کر لیا۔ اگلے دوبرسوں میں یہ دنیا کا ایک متفقہ ادارہ برائے صحت بن گیا۔
اپنے قیام کے بعد اس تنظیم نے وبائی امراض کے خلاف کامیاب لڑائی کاآغاز کیا۔ اس کی ابتدا 1950 میں تپ دق کے خلاف ویکسین کی مہم سے شروع ہوئی۔ اس کے بعد میلیریا، چیچک ، پولیوسے لیکر ایڈزاوردیگر کئی وبائی اورخطرناک امراض کے خلاف کام شروع ہوا۔اس پس منظراورطویل تجربے کے باوجودجب اس تنظیم کو گزشتہ سال چین کے شہرووہان میں کوروناوائرس کا سامنا ہوا تو یہ تنظیم وہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی، جس کی اس سے توقع تھی۔ چنانچہ اس تنظیم کو اپنےکچھ ممبرممالک کی ناراضگی اوربعض حالات میں غم وغصے کاسامنا کرنا پڑا۔
ان ناراض ممالک میں امریکہ سرفہرست ہے۔ امریکہ روایتی طورپر اس تنظیم کے اخراجات برادشت کرنے والے ممالک میں اول نمبرپر رہا ہے۔ امریکہ اس تنظیم کو سالانہ چارسوملین ڈالر دیتا رہا۔2017 میں جب صدرٹرمپ برسراقتدار آئے، توانہوں نے فوری طور پراس تنظیم کو دیےجانے والے فنڈزمیں چالیس فیصد کمی کا اعلان کیا۔ اس وقت دنیا کو کسی وبا کا سامنا تو نہ تھا، مگر شاید ٹرمپ اور ان کے رفقاء کو یہ تنظیم اس لیے نا پسند تھی کہ یہ ملکوں کو یونیورسل ہیلتھ کیئر کا مشورہ دیتی تھی۔ موجودہ کورونا بحران کے نتیجے میں صدرٹرمپ نے اس تنظیم کوناکام قرار دیتے ہوئے فنڈنگ روکنے کا اعلان کر دیا، اورکہا کہ کرونا کے باب میں اس کی کارکردگی یا ناکامی کی تحقیق مکمل ہونےتک یہ فنڈ منجمد رہیں گے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ یہ تنظیم اس طرح کی تنقید کا نشانہ بنی ہے۔2014میں مغربی افریکہ میں ایبولا کی وبا کے دوران اس تنظیم پرنااہلی اورناقص کارکردگی کے سنگین الزامات عائد کیے گئے تھے۔ کورونا اورایبولا، وباؤں کے خلاف برقت اقدامات اٹھانے اوردنیا کو خبردار کرنے میں ناکامی کےعلاوہ اس تنظیم پر کچھ دوسرے سنگین الزمات بھی لگتے رہے ہیں، جن کا پس منظر سیاسی ہے۔ کینسر کی تحقیق اوررپوٹوں کے حوالے سے بھی اس تنظیم پرکئی سائنسدانوں نے جابنداری اورسیاسی عزائم رکھنے کا الزام لگایا ہے۔
تائیوان کے حوالے سے بھی اس تنظیم کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب اس نے چین کے دباؤ میں آکر تائیوان کو اپنے اجلاسوں میں شرکت سے روک دیا ۔ اس سے بڑا ایک تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا تھا جب اس تنظیم نے رابرٹ مگابے کو اپنا “گڈول ایمباسیڈر” مقررکیا تھا۔ مگابے کے دورمیں زمبابوے میں صحت عامہ کی حالت انتہائی مخدوش اورناگفتہ بہ رہی ہے۔ مگر اس سے بڑھ کر ستم ظریفی کی بات یہ تھی کہ مگابے پراپنے دوراقتدار میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات تھے، جن کی سچائی سےانکارممکن نہیں تھا۔ تنظیم کےاس ناقابل وضاحت فیصلے کے خلاف دنیا بھرمیں اتنا شدید ردعمل اور تنقید ہوئی کہ اسےاپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔
تنظیم کی موجودہ بحران میں کارکردگی پرجوسنگین سوالات اٹھائے گئے اس میں چین کے حوالے سے جنوری کا ایک ٹویٹ تھا، جس میں یہ کہا گیا کہ یہ وائرس انسانی رابطے سے نہیں پھیلتا، جس کی وجہ سے دنیا نے اس وبا کے تدارک کے لیے فوری طور پروہ اقدامات نہیں کیے، جن کی اشد ضرورت تھی۔ اس وائرس کی خطرناکی اورعالمی وبا کی شکل اختیار کرنے کے امکانات کو بھی دنیا پرواضح نہیں کیا گیا۔ اگرچہ یہ ہرایک ملک کی انفرادی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے طور پراپنے شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کے لیے اس وقت ہی سخت اقدامات اٹھاتے، جب اس وائرس نے ووہان میں تباہی کا آغاز کیا تھا۔
کسی بھی ملک کی حکومت اپنےآپ کو اس سے بری الزمہ نہیں قرار دے سکتی۔ مگراس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس باب میں بنیادی ذمہ داری صحت عامہ کی اس عالمی تنظیم کے سرہی ہے، جس کوعالمی برادری نے متفقہ طور پراس مقصد کے لیے تشکیل دیا ہوا ہے۔ یہ تنظیم اپنے مینڈیٹ کے مطابق اپنی بنیادی ذمہ داری سےعہدہ براہ ہونے اوربرقت سیٹی بجانے میں ناکام رہی ہے۔
♦