کوی شنکر
کچھ عرصہ پہلے ہر طرف مچھرہی مچھر نظر آتے تھے۔۔ گھر، گلی،محلہ، دکان اور بازار ہر جگہ ہر طرف مچھروں کی بھوں بھوں سنائی دیتی تھی۔۔ لیکن آجکل ان کی چھٹی ہے۔۔ مچھروں کی بھوں بھوں نہیں آتی اس کا مطلب یہ نہیں کہ مچھر ختم ہوگئے ہیں۔۔۔ بس ان کی سُر اور تال بدل گئے ہیں۔۔۔ ایک شام مجھے گمان ہوا کہ مچھر اب نہیں رہے تو میں نے اپنے فلیٹ کی بالکونی کا دروازہ کھول دیا۔۔ پہلے جہاں بے شمار مچھر آجاتے تھے اب وہاں ایک بھی نہیں تھا۔۔
میں تازہ ہوا کے لئے بالکونی کے پاس جا بیٹھا اورچائے کی چسکیوں کے ساتھ کتاب پڑھنے لگا۔۔ ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ گردن پر ایک سوئی جیسے چبھن نے میرا گمان ختم کردیا۔۔ اور میں بالکونی کا دوازہ بند کرکے کمرے میں آ گیا۔۔ مجھے یقین ہوگیا کہ مچھر آگئے ہیں۔۔۔ میں نے اسپرے میز پر رکھا اور کتاب پڑھنے لگا۔۔ کمرے میں خاموشی تھی ۔۔ اس لئے کوئی بھی آواز اور آہٹ محسوس کی جاسکتی تھی۔۔ اتنی میں میرے کانوں سے جانی پہچانے آواز ٹکرائی۔۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر اسپرے اٹھایا۔۔ اور اس آواز کا تعاقب کرنے لگا۔۔ لیکن مجھے کامیابی نہ مل سکی۔۔
سوچا وہ بھاگ گئے ہونگے۔۔۔ میں بیٹھ گیا اور پھر سے کتاب میں منہ ڈال دیا۔۔ ابھی چند ہی لائنیں پڑھی تھیں کہ ایک بار پھر سیٹی کی آواز آئی۔۔ پہلے بھوں بھوں اور اب سیٹی ۔ ۔ ۔ میں پھر الرٹ ہوگیا۔۔ آواز میرے کان کے بالکل قریب محسوس ہوئی اورمیں پھرتی سے اسپرے اٹھا کر جیسے ہی اپنے دائیں جانب لپکا۔۔۔ مجھے ایک مچھر دکھائی دیا۔۔ اس سے پہلے کے میں اس کا تیا پانچہ کردیتا اس نے چیخ ماری اور کہا ‘‘ پلیز مجھے مت مارنا۔۔ میں آپ کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔۔ پلیز میری بات سنیں۔۔’’۔
میں یہ آواز سن کر پہلے حیران، پھر پریشان ہوا۔۔ یہ آواز کسی اور کی نہیں ،، مچھر کی تھی۔۔ ایک مچھر۔۔ سالہ ایک مچھر۔ ۔ ۔ میں جیسے چریا ہوگیا تھا۔۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ سالہ ایک مچھر ۔ ۔ ۔کبھی بات بھی کر سکتا ہے۔۔ مجھے یقین نہ ہوا، میں پھر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔۔ سوچا کوئی غیبی آواز ہے۔ ۔ لیکن میری حیرانگی اور تجسس اس وقت اور بڑھ گیا جب وہ مچھر میرے سامنے لہراتا ہوا آکر میز پر رکھی کتاب پر بیٹھ گیا۔۔ اور ہاتھ جوڑ کر مجھے کہنے لگا ‘‘ محترم میں ہی بات کر رہا ہوں ، مجھے مت ماریں ۔۔ میری بات سنیں۔ ۔ ۔ ۔’’۔
کبھی مچھر بھی بات کر سکتا ہے ، میں سوچ میں پڑ گیا۔۔ مجھے یوں سوچتا دیکھ کر مچھر نے چٹکی بجاتے ہوئے میرا دھیان اپنی طرف مبذول کرایا۔ ‘‘ جناب میں مچھر ہی بات کر رہا ہوں ، آپ ہندوستان کی طرح حیران اور پاکستان کی طرح پریشان نہ ہوں۔’’ ‘‘تم مچھر ہو؟’’ میں نے کہا۔ ‘‘جی ہاں میں وہی بدنام زمانہ ڈینگی مچھر ہوں لیکن آجکل ہماری مارکیٹ ڈاؤن ہے ، کیونکہ کورونا وائرس نے ہم کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔۔ ہمارا سارا آتنک ہی ختم ہوگیا ہے۔ ۔ ۔ کوئی ڈرتا ہی نہیں !’’ ‘‘تم بات کیسے کر سکتے ہو ’’ میں نے کہا۔ میرے سوال پر مچھر کہنے لگا ‘‘میں نہ صرف بول سکتا ہوں، بلکہ ڈانس بھی کر سکتا ہوں اور کرتب بھی دکھا سکتا ہوں۔ ۔ ۔ آپ انسان ہم سے بغض رکھتے ہو اس لئے آپ نے ہمارا ٹیلنٹ دیکھا ہی نہیں ۔’’ ۔
‘‘تم مچھروں میں کاٹنے کے سوا اور کوئی ٹیلنٹ نہیں ہوتا۔۔۔’’ میں نے کہا. ‘‘ ہم کو سب سے زیادہ نقصان نانا پاٹیکر نے پہنچایا ہے ۔۔ اس کے ڈائلاگ ایک مچھر سالہ انسان کو ہیجڑا بنا دیتا ہے ۔۔ نے ہماری واٹ لگا ڈالی۔۔ لیکن بھلا ہو ہماری نسل کا جس نے مچھروں کی کچھ کھوئی ہوئی عزت بحال کی ہے۔’’ مچھر بولا. ‘‘ تمہاری بھی کوئی نسل ہے ؟’’ میں نے کہا۔ ‘‘ میں ڈینگی ہوں ’’ مچھر بولا۔ ‘‘ مچھروں کی اور بھی اقسام ہوتی ہیں کیا ؟ ’’ میں نے پوچھا۔ ‘‘ دنیا میں تین ہزار نوع کے مچھر ہوتے ہیں ۔۔’’ مچھر نے کہا۔ ‘‘ اتنی مچھروں کی اقسام ۔ ۔ ۔ تم پھینک رہے ہو !!’’ میں نے ٹوکا۔ ‘’ ۔
انسانوں کی اتنی اقسام ہوسکتی ہیں تو کیا ہماری نہیں۔ ۔ ۔ ۔’’ اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا ‘‘ ان تین ہزار نوع کے مچھروں میں انتالیس اقسام کے مچھر ہوتے ہیں۔ ۔ جس میں گھریلو مچھر، ساؤدرن مچھر، ایشئن ٹائگر ، ییلو فیور اور ڈینگی مشہور ہیں۔’’ ‘‘ اچھا تم کونسے والے ہو ۔ ۔’’ میں نے پوچھا۔ ‘‘ میں ڈینگی ہوں لیکن کٹر والا !’’ مچھر نے کہا۔ ‘‘ کٹر والا سے کیا مطلب تمہارا؟’’ میں نے پوچھا۔ ‘‘ جیسے تم میں کٹرجنونی ہوتے ہیں نا ہم بی ویسے ہی ہیں ۔۔۔ کسی اور کو برداشت نہیں کرتے۔۔ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ ۔ ’’ اس نے وضاحت کی۔ ‘‘ تم یہاں کیوں آئے ہو، تم ایسے گھومو پھرو گے تو تمہارا کام تمام ہوسکتا ہے، خود میں بھی تم کو مارنے ہی والا تھا ۔۔!
’’ میں نے کہا۔ ‘‘ ارے یار ہماری پنچایت نے کچھ مچھروں پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ ہم سمجھدار، بااثر افراد اور لکھاریوں کو جاکر بتائیں کہ کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے۔ ۔ ۔ اور ہمارے مچھروں کے خدا نے بھی کہا ہے کہ انسان اس کا علاج ڈھونڈ لیں گے۔۔۔اس لئے وائرس سے نا ڈریں۔۔ ہم سے ڈریں۔ ۔ کیونکہ ہم وائرس سے زیادہ خطرناک ہیں۔۔’’ اس نے کہا۔ ‘‘ تم زیادہ نہیں بول رہے ؟ ۔ ۔ تم اسپرے کے ایک چھڑکاؤ کی مار ہو۔۔ تمہاری حیثیت ہی کیا ہے، ابے مچھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کورونا وائرس نے پوری دنیا کو بند کردیا ہے۔ ۔ ۔’’ میں نے کہا۔
اس نے میری بات سن کر طنزیہ انداز میں کہا: ‘‘ تم بھی مجھے کنویں کے مینڈک لگتے ہو۔ لگتا ہے جدید تحقیق کا تمہیں کچھ پتہ نہیں۔ کیا تم نے آسٹریلوی جریدے بزنس انسائیڈر کا یہ انکشاف نہیں پڑھا کہ ملیریاانسانی تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز بیماری ہے ۔اب تک جتنے انسان بھی پیدا ہوئے ہیں ان میں سے کم و بیش 50 فیصد ملیریا کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں۔ مچھر نے اپنی ہلاکت خیزی فخریہ انداز بیان کی۔ مچھر اپنی دھاک بٹھانے کے بھرپور موڈ میں تھا۔ بولا: ملیریا نے تو بڑے بڑوں کے قدم اکھاڑدئے۔ کیا چنگیزخان،کیا اٹیلا دی ہن کے لشکر۔ یہاں تک کے سکندر اعظم اور فرعون توتن خامن بھی ملیریا میں مبتلا ہوکر پرلوک سدھارگئے۔ باتیں کرنے والے مچھر نے اپنی تاریخی علم اور داستان گوئی سے مجھے حیران کردیا۔ ‘‘ وہ تو سب ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ لیکن مندر، مسجد، گرودوارہ، گرجا گھر، ہری دوار، مکہ ، ویٹیکن سٹی اور دیوار گریا۔ ۔ ۔ سب کے سب کورونا وائرس کی وجہ سے بند ہوگئے ہیں۔۔ تم ایسا کچھ نہیں کرسکے ہو۔ ۔ ۔ ۔’’ میں نے اپنی بات جاری رکھی ‘‘۔
تمہاری وجہ سے ان کی دکانیں کبھی بند نہیں ہوئیں تھیں۔ ۔ ۔ لیکن اس وائرس نے سب کا دھندہ چوپٹ کردیا ہے۔ ۔ ۔ اور لوگوں نے سائنسدانوں سے امیدیں جوڑ لیں ہیں!’’ ‘‘ کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔ تم بھی یہیں ہو اور میں بھی ۔۔۔۔سب دکانیں کھلیں گی’’ مچھر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں ابھی تک اس کی باتیں سن کر حیرانی میں مبتلا تھا کہ اس نے پیار سے میرے گال پر کاٹا اور میرے کان میں بھوں بھوں کرتا ہوا بغیر الوداع کئے غائب ہوگیا۔
♦