مغربی ممالک اور معاشرے عالمی سطح پر جتنا مرضی انسانی حقوق کے چیمپئین اور جمہوری بنیں، حقیقت یہی ہے کہ یہ ممالک اپنی مضبوط معیشت، اور علمی، اقتصادی و تکنیکی ترقی کے بعد بھی قائم و توانا اپنی عسکری قوت کے بل پر ہی رہتے ہیں، اور دنیا بھر میں اپنے اور اپنے اتحادیوں کے مفادات اور اثرورسوخ کا تحفظ سفارتکاری کے ساتھ ساتھ اپنے جدید ترین اسلحے اور افواج کے ذریعے کرتے ہیں۔
مغربی معاشروں میں ریاست کے جنگجو ادارے یا فوج کا احترام کیا جاتا ہے اور حکومت و ریاست کے تابعِ فرمان فوجیوں سے اظہارِ یکجہتی جاری رہتا ہے، بس جو فوجی افسر سول لیڈرشپ کی بات نہیں مانتا اسے معذول کر کے برخاست کر دیا جاتا ہے اور کوئی اس عمل پر چوں بھی نہیں کرتا۔جب کہ ہمارے ہاں جنگجو گروہ یا فوج کے احترام عقیدت سے آگے بڑھ کر عبدیت کی حد تک کیا جاتا ہے۔ ہماری فوج ہر عوامی احتساب اور جوابدہی سے بالاتر ہے اور سب پر حاکم ہے۔
امریکہ اور یورپ میں دفاعی اخراجات کا آڈٹ ہوتا ہے اور فوج یا اسکے ذیلی اداروں کا ٹیکسوں سے مستثنیٰ اربوں کھربوں کا کاروبار ہر گز نہیں ہوتا۔ فوج کا کوئی اپنا ریونیوتو ہوتا نہیں اس لیے دفاع اور فوج کا سارا خرچہ ریاست کے وسائل کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے اور اخراجات کا آڈٹ بھی ہوتا ہے۔
امریکہ میں سینٹ اور ہاؤس کی انٹیلیجنس کمیٹیز سے فوجی اخراجات کی بابت عوامی نمائندوں سے کچھ بھی نہیں چھپایا جا سکتا۔ یہاں فوجی جرنیلوں کے حاشیہ نشین ججز نہیں ہوتے اور نہ ہی فوج کے طفیلی نیب جیسے ادارے ہوتے ہیں جو کہ فوجی مفادات کے تحفظ کے لیے ناپسندیدہ سیاستدانوں کو بوقتِ ضرورت انتقامی احتساب کے شکنجے میں کس لیتے ہوں۔
یہاں سول حکمرانی کی مضبوط روایت ہے اور یہاں کوئی طاقتور جرنیلی یا پینٹاگونی گروہ نیشنل سکیورٹی اور احتساب کا راگ الاپ کر ریاست کے چیف ایگزیکٹیو کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کر سکتا۔ کوئی جرنیل چاہے کتنا بھی طاقتور یا مقبول کیوں نہ ہو، یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اپنے اختیار سے باہر نکل کر امریکہ کے کاروباری طبقے سے معیشت کی بہتری کے نام پر میٹنگز کرتا پھرے۔
مگر پاکستان جیسا ملک جہاں فوج اسلحے، تقدیس، خوف اور طاقت کے زور پہ ناقابلِ چیلنج قبضہ گروپ بن کر آئین، پارلیمان، عدلیہ، معیشت، کاروبار، ریاستی ریونیو، میڈیا، مذہب حتیٰ کہ معاشرے کے ہر شعبے سے بالاتر ہو کر سب کی حاکم بنی ہوئی ہو اور جس کے اعلیٰ افسران کا مفاد ریاست کے ہر مفاد سے مقدم ہو۔ وہاں پہ فوج کا احتساب یا اسکی جوابدہی کرنا ناممکن ہوتا ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد برطانوی راج اور مغربی اتحاد کی تدبیر سے بنی انجنیئرڈ مسلم اکثریتی ریاستوں کا المیہ یہ ہے کہ وہاں پہ جمہور اور انصاف کی چیمپئین بنی مغربی ریاستیں جمہوری عمل کی جگہ جرنیلی یا کسی اور مسلح فسطائیت کو سپورٹ کرتی آئی ہیں، ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ ان انجنیرڈ ریاستوں کو کنٹرول میں رکھ کر انہیں کمیونسٹ اور آگے چل کر بننے والے اوپیک بلاک کے خلاف اپنے جیو سٹریٹیجک مفادات کے لیے حسبِ ضرورت استعمال کیا جا سکے اور ان ریاستوں میں سول لیڈرشپ کے زیادہ قوت پکڑ جانے پر اسے وہاں کی طاقتور فوج میں اعلیٰ سطح پر کام کرتے لالچی جرنیلوں کے ذریعے کٹ ٹو سائز کیا جا سکے۔
ایسی ریاستوں یا ممالک میں جب تک کہ عوامی اکثریت باشعور ہو کر اپنے سول حکمرانوں اور پارلیمان کا احترام فوجی جرنیلوں اور عسکری اداروں سے زیادہ بڑھ کر نہیں کر گی، پستی و خجالت کے دلدل میں دھنسی نامراد رہے گی۔
اشرافیہ جو کہ ایک قابلِ عمل نظام کے ذریعے محنت، قابلیت اور ہنر کے بدلے ورکرز کو اس کا جائز حق دینے پر مجبور ہوتی ہے۔ جہاں ریاست صرف دو یا تین سو جرنیلوں اور انکے تابع فرمان چند الیکٹیبل سیاستدانوں، نوسربازوں، رسہ گیروں، مذہبی اداکاروں اور فسادیوں کا ہی نہیں عام لوگوں کا معیارِ زندگی بھی بہتر بناتی ہے۔
بد قسمتی سے پاکستان میں بدمعاشیہ ہی اس کی مستقل اشرافیہ ہے اور صرف اسی کی چلتی ہے۔ ملک میں بدمعاشیہ نے سرمایہ کار اور سیاسی اشرافیہ کو قابو کرکے اقتدار پر تو مکمل قابو کر لیا ہے۔ لیکن یہ چھوٹی سی بدمعاشیہ پہ اب گلوبلائزڈ اور انسانی عقل سے کہیں زیادہ ذہین آرٹیفیشیل انٹیلیجنس پر بھروسہ کرنے والی نئی عالمی اشرافیہ اب پہلے جیسا اعتبار اور انویسمنٹ نہیں کر رہی۔
اسی لیے پراجیکٹ عمران کی چھتری تلے جنرل باجوہ کی حد سے زیادہ پولیٹیکل انجنیئرنگ، سیلف پروموشن، اور میڈیا مینیجمنٹ کے بعد آخر میں انکی ایکسٹینشن ہو جانے کے باوجود مالی طور پر کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
سنہ ا1971میں مشرقی پاکستان میں شکست اور نوے ہزار کے قریب فوجیوں کے جنگی قیدی بنائے جانے کے بعد عسکری قیادت کو ہزیمت کا سامنا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو نے فوجی قیدیوں کی واپسی کے خراج میں عسکری قیادت کے نہ چاہتے ہوے بھی سول بالادستی کے تصور والا جمہوری آئین تشکیل دے کر پارلیمان سے منظور کرا لیا۔
آئین میں متعین کئے گئے وزیرِاعظم کے اختیارات اور سول قیادت کو مِلی بالادستی کا تصور عسکری قیادت کو ہضم نہیں ہو سکا اور اُسنے اس تصور کو داغدار کر کے نشانِ عبرت بنانے کا مصمم ارادہ کیا۔عسکری قیادت، بیوروکریسی اور عدلیہ کے اس گٹھ جوڑ کے نتیجے میں کسی بھی حقیقی عوامی مینڈیٹ کے حامل چیف ایگزیکٹو یا وزیرِاعظم کو کبھی اس کے عہدے کی معیاد عزت کے ساتھ پوری نہیں کرنے دی گئی، سِویلین چیف ایگزیکٹو کے اختیارات میں ناجائز دخل اندازی کی گئی اور وزیراعظم کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے اسکے مخالف سیاسی کرداروں کو بخوبی استعمال کیا گیا۔
عسکری قیادت نے ذوالفقار علی بھٹو کو ٹھکانے لگانے کے بعد اس بات کس خاص خیال رکھا کہ آئندہ آنے والا سارے کا سارا سیاسی ٹولہ بدنیت اور نالائق ہو، چاہے وہ پی پی پی کو کاؤنٹر کرنے کے لیے بنایا جانے والا نو ستاروں کا سیاسی اتحاد ہو، چاہے پاکستان مسلم لیگ (ن) چاہے پاکستان مسلم لیگ (ق) چاہے آصف علی زرداری کے زیرِ قیادت پی پی پی ہو، چاہے ایم کیو ایم ہو، چاہے پی ٹی آئی ہو یا کوئی اور مذہبی سیاسی جماعت ہو۔
یہ یقینی بنایا گیا کہ بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت نااہل، مفاد پرست، پیداگیر اور بےضمیر ہو تاکہ عسکری قیادت کی فرمان برداری پر مجبور ہو۔جس سیاسی جماعت کو زیادہ مقبول بنتے دیکھا گیا اس جماعت میں انتہائی مہارت کے ساتھ اُتنی ہی کثافت شامل کر دی گئی جتنی کہ دوسری سیاسی جماعتوں میں شامل کی گئی تھی۔
عسکری قیادت نے اس عمل کا پہلا تجربہ جنرل ایوب کے مارشل لاء کے دور میں اس وقت کامیابی سے کیا تھا جب اس وقت کی معتبر سیاستدان محترمہ فاطمہ جناح کو مفاد پرست ٹولے کے ساتھ مل کر دیوار سے لگا دیا گیا تھا اور سیاسی وفاداری کے بدلے ناجائز مفادات کے حصول کا تصور رائج کر کے جرنیلی جمہوریت کی باقائدہ بنیاد رکھی تھی۔
آج بھی مفاد پرست، کرپٹ، بکاؤاور انجنیئرڈ سیاستدان عسکری قیادت کی ضرورت ہیں۔ ان کی مدد سے براہِ راست سامنے آنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ مارشل لاء لگانے کی صورت میں فوج ملکی اور بین الاقوامی سطح پر غیر مقبول ہونے لگی ہے۔
بلی چوہے کا یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ نوازشریف ہو، عمران خان ہو یا کوئی بھی اور ہو، جب بھی کسی پالتو سیاسی چوہے نے عسکری بلی کو آنکھیں دکھا کر خود کو حقیقی چیف ایگزیکٹو سمجھا ہے تو اسے براہِ راست یا کٹھ پتلیوں کے ذریعے سبق سکھا دیا جاتا ہے۔
لیکن چوہے بلی کا یہ کھیل زیادہ عرصہ تک جاری نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ جب تک عسکری قیادت اپنے اور افواجِ پاکستان کے دیگر افسران کے ذہنوں میں پنپنے والا عسکری بالادستی اور سکیورٹی سٹیٹ والا بیانیہ تبدیل کر کے سول بالادستی اور فلاحی ریاست کا تصور دل سے قبول نہیں کرے گی تب تک ریاست کا تالاب تعفن زدہ ہی رہے گا۔
گندے تالاب میں مچھلیاں نہیں پیدا ہوتیں اور نہ ہی پنپ سکتی ہیں۔ ایسے تالاب میں صرف بدنما مینڈک پیدا ہو کر ٹرٹراتے ہیں جن کے شور سے اب شعور حاصل کرتی پاکستانی عوام اور باقی دنیا اکتا چکی ہے۔
♦