لیاقت علی
آج 13 اپریل( بعض ممالک اور علاقوں میں 14اپریل) کو پوری دنیا کے پنجابی بالعموم اور سکھ بالخصوص وساکھی کا تہوار منارہے ہیں۔
قیام پاکستان سے قبل وساکھی ایک سیکولر اور پکا پیڈا پنجابی تہوار ہوتا تھا جو تمام پنجابی بلا لحاظ مذہب مناتے تھے۔ میلے، بھنگڑے ،منڈوے اوررنگا رنگ تماشے وساکھی کا اہم جزو تھے۔ سنا ہے کہ گجرانوالہ کے نزدیک ایمن آباد میں وساکھی کا سب سے بڑا میلہ لگتا تھا جہاں پنجاب بھر سے پہلوان، گویے، راس دھاریے اور رنگا رنگ فنون اور آرٹ کے دلدادہ شریک ہوتے تھے۔
قیام پاکستان کے نتیجے میں پاکستانی پنجابی جہاں اپنی زبان وادب سے محروم ہوگئے ہیں وہاں اب ان کے تہوار بھی ان کے نہیں رہے۔ وساکھی ہو یا پھر بسنت سب خواب و خیال ہوکر رہ گئے ہیں۔
وساکھی دیسی کیلنڈر( بکرما جیت) کےدوسرے مہینے وساکھ کی پہلی تاریخ کو منائی جاتی ہے( نانک شاہی کیلنڈر میں وساکھ کو سال کا پہلا مہینہ قرار دے دیا گیا ہے) یہ دراصل گندم کی کٹائی کے آغاز کا اعلان ہے۔ گندم پک گئی ہے اور اب اس کی کٹائی کا دن آپہنچا ہے۔ ہر طرف خوشیوں کے ڈھول بج رہے ہیں اور کسان بھنگڑا ڈال رہے ہیں۔
سکھ مت( پنٹھ خالصہ ) کی بنیاد دسویں اور آخری گورو، گورو گوبندسگھ( -1798۔1666 ) نے آنند پور صاحب نامہ قصبے میں 1699 کو وساکھی کے دن ہی رکھی تھی۔ آنند پور صاحب آج کل بھارتی ریاست پنجاب کے ضلع روپ نگر میں واقع ہے۔ یہ قصبہ گورو گوبند سنگھ کے والد نویں گورو تیغ بہادر نے آباد کیا تھا۔
پٹنہ بہار میں پیدا ہونے والے گورو گوبند سنگھ نے اپنا بچپن اور لڑکپن ہماچل پردیش کے پہاڑی علاقے شوالک میں گذارا تھا۔ شوالک کا پہاڑی سلسلہ آنند پور صاحب کے نواح سے شروع ہوتا ہماچل پردیش تک جاتا ہے۔
مغل بادشاہ اورنگ زیب نے جب نویں گورو تیخ بہادر کو دلی کے چاندنی چوک میں قتل کروادیا ( آج کل جہاں گورو کا سرقلم کیا گیا تھا وہاں بہت بڑا گورودوارہ سیس گنج کے نام سے قائم ہے) تو گورو گوبندرائے( گوبند سنگھ وہ خالصہ کے قیام کے بعد بنے تھے) جو نویں گورو کی اکلوتی اولاد تھے روپوش ہوگئے اور انھوں نے بال پن اور لڑکپن شوالک کی پہاڑیوں ہی میں گزارا تھا۔
مارچ 1699 کو گورو گوبند سنگھ آنند پور صاحب میں منعقد ہونے والے وساکھی میلے میں ظاہر ہوئے اور انھوں نے ساتھیوں اور حماتیوں سے کہا کہ وہ شخص آگے آئے جو سکھ مت کے لئے اپنی جان دینا چاہتا ہے۔ گورو کے ہاتھ میں تلوار تھی جس کا مطلب تھا کہ آگے آنے والے کی زندگی ختم ہوجائے گی۔ اس ڈر اور خوف کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایک شخص آگے بڑھا اورگورو اسے اپنے خیمے میں لے گئے اور کچھ دیر بعد باہر آئے تو ان کے ہاتھ میں پکڑی تلوار خون آلود تھی۔ انھوں نے پھر ایک شخص کو آگے آنے کے لئے کہا جس پرمجمع میں سے ایک عقیدت مند آگے بڑھا گورو اسے بھی خیمے میں لے گئے اور جب باہر آئے تو ان کی تلوار ایک مرتبہ پھر خون آلود تھی۔
گورو گوبند سنگھ نے یہ عمل پانچ مرتبہ دوہرایا۔ پھر گورو نے خیمہ ہٹوادیا تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ پانچوں افراد زندہ تھے اور ان کے قدموں میں خون آلود بکریاں پڑی ہوئی تھیں۔ گورو گوبند سنگھ نے ان پانچ افراد کو پنج پیاروں کا نام دیا۔ پہلے ان پانچوں کو سکھ مت میں داخل کیا اور پھر ان کے ہاتھوں خود پہول لی( ایک قسم کی بیعت) اور پھر اس کے بعد موجود مجمع کو سکھ مت میں داخل کیا۔
اس طرح یکم وساکھ کوسکھ مت کا نہینہ پتھر رکھا گیا تھا اور وساکھی سکھ مذہب کے قیام کے حوالے سے مذہبی تہوار اور گندم کی کٹائی کے حوالے تمام پنجابیوں کا سیکولر تہوار ہے یہ تہوار تمام پنجابیوں کو بلا لحاظ مذہب جوڑتا ہے۔
♦