بیرسٹرحمید باشانی
آج ہم کسی معجزے کےمنتظرہیں۔ پوری دنیا کسی خوشخبری کےانتظارمیں سانس روکے بیٹھی ہے۔ دنیا کوخوش خبری یہ چاہیے کہ کورونا کی روک تھام کے لیےویکسین یاعلاج کے لیے دواتیارکرلی گئی ہے۔
ویکسین کےمعجزے کے لیے دنیا کی نظریں صرف محدودے چند ملکوں پرجمی ہیں۔ ان میں مغرب کے کچھ ترقی یافتہ ملک ہیں۔ ان ملکوں میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، کینیڈا ، سکنڈے نیویا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ سمیت تقریبا بیس سے زائد ممالک ہیں۔
مشرق میں بھی کچھ ایسے ملک موجود ہیں، جن سےامید باندھی جا رہی ہے۔ ان ملکوں میں اسرائیل، جاپان ،چین اورجنوبی کوریا جیسے چند ایک ملک شامل ہیں۔
کورونا کی آفت سے چھٹکارہ کے لیے مغرب یا مشرق کے ترقی یافتہ ممالک کی طرف دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ قدرتی بات یہ ہےکہ اس آفت سے بچنے کے لیے ان ممالک کی طرف دیکھا جا رہا ہے، جو سائنس اورٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ ہیں۔ جن کے پاس دنیا کی بہترین یونیورسٹییز، ریسرچ سنٹرزاورتجربہ گا ہیں ہیں۔ جن کے پاس میڈیکل سا ئنس کاعلم ہے، اور اس علم کو بروئے کار لانے کاوسیع تجربہ ہے۔ اورجن کے پاس وہ وسائل اورسہولیات ہیں، جن کوہنگامی طورپروسیع بنیادوں پرسائنسی تجربات ، دریافتوں اورایجادات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
دنیا میں قریب قریب ایک اعشاریہ آٹھ ارب کے قریب مسلمان ہیں، جو دنیا کی کل آبادی کے تقریبا چوبیس اعشاریہ ایک فیصد کے قریب ہیں۔ دنیا میں پچاس سے زیادہ اسلامی ملک ہیں، جن میں سے کچھ کے پاس دولت کے انبارہیں۔ بے تحاشا وسائل ہیں۔ مگرستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت کوئی بھی کورونا کی ویکسین یا دوابنانے کی توقع کسی اسلامی ملک سے نہیں رکھتا۔
اورکوئی یہ توقع رکھے بھی کیوں ؟ ان سب ملکوں میں سے کسی ایک کے پاس بھی کوئی ایسی یونیورسٹی نہیں، جو دنیا کی پہلی سواچھی یونیورسٹیز کی فہرست میں شامل ہو۔ کوئی مشہورتجربہ گاہ نہیں، جس نے ماضی میں کوئی قابل ذکرتجربہ کیا ہو۔ یا جس کے پورٹ فولیو میں کوئی قابل ذکرایجاد یا دریافت موجود ہو۔
یہ ایک مایوس کن صورت حال ہے۔مگریاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ صورت حال خود بخود پیدا نہیں ہوئی، بلکہ یہ سائنس کے بارے میں صدیوں سے چلے آئے ہمارے رویوں اورطرزفکر کی پیداوار ہے۔ یہ ایک طویل اورالمناک کہانی ہے، جو اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب ہم نےقصدا سائنس اورعقل سے اپنے راستے جدا کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے سائنس، علم اورعقل کا گلا گھونٹنے اورتاریک راستوں پر چلنے کا شعوری انتخاب کیا۔ اور سماج کو ذہنی اور فکری پسماندگی کی دلدل میں ڈال دیا۔
ان تاریک راستوں اورفرسودگی کی طرف چلنے سے پہلے ہمارا بھی سائنس اورعقل سے اتنا ہی گہرا رشتہ تھا، جتنا مغرب کا تھا۔ بلکہ سائنس کے بعض شعبوں میں ان چیزوں سے ہمارارشتہ مغرب سے بھی مضبوط تھا۔ اس وقت اگر کوئی وبا یا کورونا قسم کی آفت آتی تھی، تو دنیا ہم سے دعا کے علاوہ کسی دوا یاعلاج کی توقع بھی رکھتی تھی۔ دنیا کومختلف ادوار میں کورونا سے بھی کئی زیادہ خوفناک اور تباہ کن وباوں اوربیماریوں کا سامنا ہوا ہے۔ ان میں ایک قدیم ترین چیچک بھی ہے۔ انسانی تاریخ میں کس تعداد میں لوگ جان لیوامرض کا شکار ہو ئے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف بیسویں صدی کے دوران دنیا بھر میں اس بیماری سے تین سوملین لوگ مرے ہیں۔
چیچک کی ویکسین کا سہراتوایک انگریزسائنس دان کے سر ہے، مگر اس خوفناک بیماری کے بارے میں بنیادی اوراہم ترین کام کا سہرا ابو بکر بن زکریہ ال رازی کے سرسجتا ہے۔ مغرب میں اس موذی وبا کے بارے میں جاننے کا ایک مستند ذریعہ رازی کی تحریریں رہی ہیں۔ انسانی تاریخ کی دو بڑی وباوں چیچک اورخسرہ کے باب میں رازی کو استاد مانا جاتا ہے۔
ان دوقدیم اور تباہ کن بیماریوں کی تشخیص اور روک تھام پر رازی کی کتاب دنیا کی پہلی اور بنیادی دستاویز کےطور پر سامنے آئی۔ اس کتاب سے مغرب نے استفادہ کیا۔ یہ کتاب لاطینی سمیت کئی جدید مغربی زبانوں میں ترجمہ ہوئی۔ رازی کی ایک کتاب ” کتاب الہوائی فل طب” علم طب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ تیرہویں صدی میں اس کتاب کا لاطینی اوردوسری مغربی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔
مغرب میں اگلی تین صدیوں تک یہ کتاب بار بار چھپی اوربیشترمیڈیکل سکولوں کے نصاب کا حصہ رہی۔ اپنے وقت میں رازی کو اپنے وقت کا سب سے بڑا طبیب اورطبیبوں کااستاد مانا گیا۔ چیچک جب یورپ پہنچی تو مغربی سائنس دانوں کو اس کا کوئی علم یا تجربہ نہیں تھا، چنانچہ انہوں نے اس بیماری کے بارے میں معلومات کے لیے رازی کے کام پرانحصار کیا۔ اس کام کی بنیاد پررازی یورپی سائنسدانوں اورڈاکٹروں کا استاد بن گیا۔
مغرب میں عزت افزائی کے باوجود اپنی جنم بھومی میں رازی کی زندگی کے آخری ایام کسمپرسی کی حالت میں گزرے۔ آخری عمرمیں اس کی آنکھوں کی روشنی چلی گئی۔ ابن جل جل نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ ایک بحث کے دوران رازی گورنرمنصورابن اسحاق کے سامنےاپنی کیمیائی تھیوری ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ غصے میں گورنر نے رازی کےسرپرچوٹ لگائی، جس سے ان کی بینائی چلی گئی۔
ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ایک گورنرایک سائنس دان کے ساتھ سائنسی تھیوری پربحث کرتا ہے، جس کی تفہیم کے لیے اس کے پاس وہ بنیادی علم ہی نہیں ہے، جوایک سائنسی تھیوری سمجھنے کے لیے لازم ہے۔ یہ رویہ حکمران طبقات کے اس طرزعمل کا اظہار ہے، جو وہ دانشوروں ، سائنس دانوں اوراہل علم سے رکھتے تھے۔ حکمرانوں کےاس رویے نے بلاخراسلامی دنیا کو علمی پستی کی گہرائیوں میں دھکیل دیا۔
حکمران طبقات نے جب تک یہ رویے نہیں اپنائے تھے، تو سماج برق رفتاری سے ترقی کی راہ پرگامزن تھا۔ سنہری دورکا بغداد ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ایک وقت میں ان چراغوں میں بھی تیل تھا۔ بغداد میں دنیا کی بہترین درس گا ہیں اورتجربہ گا ہیں تھیں، جہاں دن رات کام ہوتا تھا۔ دنیاعلم طب وکیمیا یا کسی وبا کی جانکاری کے لیے صرف مغرب کی طرف ہی نہیں، مشرق کی طرف بھی دیکھتی تھی۔ اس وقت ہماری طرف بھی ایسے طبیب ، کیمیا دان اورفلسفی تھے، جن سے مغرب سیکھتا تھا۔ مگر یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی تک ہم نے اپنے تنگ نظرنظریات اورخیالات کو سائنسی ترقی کے راستے کی دیوار بنا کر نہیں کھڑا کیا تھا۔
قرون وسطی کےدورمیں مسلمان سائنسدانوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ البیرونی، بوعلی سینا، الفارابی، ابن رشد اورالکندی سمیت کئی قابل ذکرلوگ تھے۔ علم کیمیا، الجبرہ، ریاضی اورفلکیات کے حوالے سے مشرق کا ابتدائی کام اتنا اہم تھا کہ مغرب نے بھی اس سےا ستفادہ کیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر لگتا ہے کہ قرون وسطی میں اسلامی دنیا میں جتنی سائنس تھی اتنی آج نہیں ہے۔ اس باب میں یہ ترقی معکوس یا تنزلی کی اہم مثال ہے۔
اس زوال اورپستی کی واحد وجہ یہ نہیں کہ سنہری دور کے بعد ہم نے ادارے بنانے بند کر دیے۔ یاہم نے یونیورسٹیاں اورتجربہ گا ہیں نہیں بنائی۔ ہم نے یہ سب کچھ جاری رکھا، اوران پراپنی بساط کے مطابق کافی پیسہ خرچ کیا۔ مگران اداروں کو اپنی مرضی اورآزادی سے کام کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ان کی حدودوقیود مقررکرنے کے چکر میں ان کے ہاتھ پاوں کس کر باندھ دیے، اور ان کے دماغوں پر” کھوپے” چڑھا دیے، اور ان کی روح نکال لی۔ سوچ فکراورجستجو کے بغیر کوئی سماج ترقی نہیں کر سکتا۔ ہم نے سوچوں پرکڑے پہرے بٹھا دیے۔ فکر، جستجو اوراظہار کی آزادیاں سلب کر لیں۔ ہماری تقریبا تمام بڑی درس گاہوں میں سوال اٹھانا ممنوع قرار پایا۔ تحقیق وجستجوجرم ٹھہرا۔
رسم دنیا سمجھ کر ہم نے اپنے تعلیمی اداروں میں سائنس کا مضمون تو رکھا، بچوں کو سائنس پڑھنے کی تاکید بھی کی ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی بتایا کہ سا ئنس پڑھوضرور، مگراس پر یقین مت کرو۔ اس طرح ہمارے تعلیمی اداروں سےسائنس دان اور فلسفی کے بجائے ایسے کنفیوزڈ دماغ پیدا ہوئے، جو فکری تضادات کا شکار تھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سائنس کے میدان میں ہم مکمل طوراپاہچ ہو گئے۔ چنانچہ اس باب میں ہم نے مغرب پرانحصار کیا۔ ان کی سائنسی اورمادی ایجادات سےاستفادہ کیا۔ مگراس کے ساتھ ساتھ سائنس اورفلسفے سمیت دیگرمغربی علوم کے خلاف نا پسندیدگی اوربسااوقات نفرت کے جذبات کو فروغ دیتے رہے۔ آج ہم سائنس کے میدان میں جس پسماندگی کا شکار ہیں، یہ اس طرزعمل کا نتیجہ ہے۔ کورونا نے ہمارے اس طرز عمل کو بے نقاب کر دیا۔
♦