محمد شعیب عادل
میرے دادا ، فیض بخش، کی تاریخ پیدائش ، ان کے پاسپورٹ پر 1904 درج تھی۔ انھوں نے تین حج کیے تھے ۔ پہلا سنہ 1940کے آس پاس دوسرا سنہ 1953 میں اور سنہ 1973 میں تیسرا حج کیا تھا۔تینوں دفعہ وہ حج کے لیے بحری جہاز کے ذریعے گئے۔ ان دنوں ہوائی جہاز کے ذریعے حج یا تو تھا نہیں اگر تھا تو بہت مہنگا۔بحری جہا ز پر سفر کرنے والوں کی اکثریت عرشہ (ڈیک) کی ٹکٹ لیتی تھی کیونکہ وہ انتہائی کم قیمت ہوتا تھا۔ متمول افراد بحری جہاز میں کمرہ لیتے تھے۔ میرے دادا نے تینوں حج عرشہ کی ٹکٹ لے کر ہی کیے تھے۔
عزیزو اقارب کی بڑی تعداد انھیں میانوالی ریلوے اسٹیشن سے رخصت کرتی ۔ جہاں سے وہ دو دن میں کراچی پہنچتے۔ ایک ہفتہ حاجی کیمپ میں قیام کرتے اور پھر بحری جہاز کے لیے جدہ روانہ ہوتے اوریہ سفر تقریباً ڈیڑھ سے دو ماہ کا ہوتا۔ کھانے پکانے کا سامان اور راشن ہمراہ ہوتا۔فون کا کوئی رواج نہیں تھابس ایک دو دفعہ خط کے ذریعے ان کی خیریت کی اطلاع ملتی تھی۔ واپسی پر کراچی سے بذریعہ تار اپنی آمد کی اطلاع دیتے تھے۔
میرے ذہن میں 73 کے حج سے واپسی کی کچھ دھندلی یادیں ہیں۔ اس وقت تیسری جماعت کا طالب علم تھا۔ خاندان کے مردوں کی ایک بڑی تعداد میانوالی ریلوے سٹیشن پر جمع تھی اور جب وہ ٹرین سے اترے تو انھیں ہار پہنائے گئے اور جلوس کی صورت میں گھر لا یا گیا ۔ راستے میں شہر کے افراد ان سے ملتے اور ان کے ہاتھ چومتے تھے ۔ گھر پر ان کے لیے آرام دہ گدوں اور تکیوں سے مزین ایک چارپائی تیار ہوتی۔ دور و نزدیک کے عزیز و اقارب انھیں مبارکباد د ینے آتے ، بڑی عقیدت سے ان کے خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ میں گذرے شب و روز کے متعلق باتیں پوچھتے۔ مہمانوں کی تواضع ایک گلاس آب زم زم اور کجھور سے کی جاتی۔ ان دنوں آب زم زم کا درمیانے سائز کا ایک ہی کنٹینر ہوتا تھا جس میں سےایک گلاس بڑے جگ میں ڈال کر اسے ہاتھ سے چلانے والے نلکے سے بھر لیا جاتا اور تمام مہمانوں کو پلایا جاتا اور ساتھ میں ایک کھجور دی جاتی تھی۔ زیادہ تر لوگ قبلہ رخ ہو کر پانی پیتےتھے۔
پہلے حج کے متعلق وہ بتایا کرتے تھے کہ اس وقت مکہ اور مدینہ میں موٹر کاراکا دکا ہی ہوتی اور لوگ گدھے، گھوڑوں اور اونٹوں پر ہی سفر کرتے تھے۔ مکہ سے مدینہ بذریعہ لاری جاتے تھے ۔سنہ چالیس میں تو ویکسین کا رواج بھی نہیں تھا۔شاید 53 اور 73 میں انھیں حاجی کیمپ کراچی میں بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے لگے تھے۔جہاز پر کوئی دو سے تین ہزار افراد سفر کرتے تھے ۔د وران سفر کوئی مسافر بیمار پڑتا تو جہاز میں موجود ڈاکٹر اسے دوائی دیتا تھا۔ اس کے باوجود دوران سفر کئی اموات ہو جاتی تھیں اور وبا پھیلنے کے ڈر سے ان کی لاشوں کو آخری رسومات ادا کیے بغیر ہی سمندر میں بہادیا جاتا تھا۔ وہ بتاتے تھے کہ عرب شریف میں اجتماعی قبریں کھدی رہتی تھیں اور دوران طواف یا صفاو مروہ کے درمیان سعی یا شیطان کو پتھر مارنے کے موقع پر جو بھی شخص بیماری ، کمزوری یا دھکا لگنے کی وجہ سے گرتا ،کچلا جاتا تو حکام فوری طور پر اسے اٹھا کر لے جاتے اور اسے دفنا دیا جاتا تھا۔
پاکستان کا تو علم نہیں یورپ و امریکہ میں کرونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کو آخری رسومات کی ادائیگی کے بغیر ہی دفن کیا جارہا ہے۔