پائندخان خروٹی
انسانی ذہن کا پل پل بدلتا ہوا منظرنامہ بھی بہت عجیب اور دلچسپ ہے۔ انسان تلاش وجستجو کے جذبے سے پیوستہ ہوکر اپنے علم میں اضافہ کے نام پر مسلسل اپنی کم علمی کا دائرہ بڑھاتا رہتا ہے۔ اپنی منزل پاتے ہی اگلی منزل کیلئے مزل کرنے میں مگن ہو جاتا ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز کا سامنا کرتے ہوئے ہر اختتام پر ایک نیا آغاز پالیتا ہے۔ عدم کو موجود ثابت کرنے کے باوجود بھی عدم باقی رہ جاتا ہے۔
وہ بیرونی تضادات کو ہموار کرنے کیلئے اپنے اندر کے بھنور سے بھی لڑتا رہتا ہے۔ وہ اجڑی ہوئی بستی کا مکین ہونے کے باوجود دنیابھر کے زیارکشوں کیلئے ظلم واستحصال سے پاک ایک نئی خلقی دنیا وقوع پذیر ہونے کی خوشخبری دیتا ہے۔ وہ آئسکریم میں کریم دیکھے بغیر کھانے سے لطف اندوز ہوجاتا ہے۔ اس طرح وہ کبھی کبھار غریب کی مجبوری کو جرم قرار دیکر خود مجرم بن جاتا ہے۔ حالات و واقعات کے اتار چڑھاؤ کے دوران وہ معلوم و نامعلوم، آشنائیت و اجنبیت اور پوشیدہ و آشکار زندگی کے مخفی و جلی رازوں کو افشاں کرتے ہوئے راستے میں ایک دن خود اس پر زندگی کی شام آجاتی ہے۔
گویا وہ حضرت عمر خیام کے فلسفے کے گمشدہ اوراق کی تلاش میں خود بڑی کتاب کے اوراق کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ ہر موج گلے لگ کے کہتی ہے ٹھہر جاؤ دریا کا اشارہ ہے کہ ہم پار اتر جائیں اہل علم و ادب کیلئے سب سے مشکل کام تحقیق وتخليق کی پھیلتی ہوئی دنیا میں انسانی معراج تک پہنچنے اور پہنچانے کے سفر میں اپنا نام و مقام پیدا کرنا ہے۔
عجیب بات ہے کہ مقابلہ کی سرمایہ دارانہ دوڑ میں معاشرے کے ایک فرد کی جیت بھی دوسرے کی شکست منسلک ہوتی ہے۔ دوسروں سے ممتاز و منفرد بننے کا پیمانہ مقدار کی بجائے معیار نہیں بلکہ بورژوا طبقہ کے مفادات اور اقتدار کا تحفظ ہوتا ہے۔ بہرحال، اشتراکی دنیا کی اقدار اور پیمانے تو استحصالی دنیا سے نہ صرف الگ ہوتے ہیں بلکہ جےجےروسو کے عمرانی معاہدے کے مرکز ومحور یعنی مفاد خلق عمومی خواہش پر بھی مبنی ہوتے ہیں۔ وہ جبر و استحصال سے پاک انسانی سماج کے روشن مستقبل کو انسانی خون چوسنے اور زیارکشوں کے پسینے چوری کرنے والے معاشی غنڈوں کو خلقی رنگ میں بدلنے سے مشروط کرتے ہیں۔ جو جدلیاتی فلسفے کے بنیادی اصولوں کو پروان چڑھانے سے ہی ممکن ہوتا ہے۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ علم و ادب کا سیاسی و معاشی نظریات سے گہری وابستگی پیدا کرنے کے بعد اہل فکر وقلم سماج کی ارتقاء کے اصل رخ کو متعین کرنے کے قابل بن سکتے ہیں ۔ واضح رہے کہ بدلتے ہوئے رحجانات کے حقیقی نباض بننے اور حال کے دھندلے تصورات سے مستقبل کی واضح تصویر بنانے کا راز بھی جدلیاتی فلسفہ میں پنہاں ہے۔ اس ضمن میں ایلوین ٹوفلر اور اس کی بیوی ہیڈی ٹوفلر نے سرمایہ دارانہ سماج کی طرزِ پیداوار کو سمجھنے، جانچنے اور پرکھنے کے بعد مستقبلیات کے افق پر پوری طرح چھا گئے۔
ان کے نمودار ہونے سے مستقبل کی پیشگوئیاں کرنے والے معروف فرینچ ناسٹراڈیمس، امریکی خاتون ماہر نفسیات جین ڈیکسن اور بلغاریہ کی خاتون روحانی پیشواء بابا وانگہ کے ستارے بھی ماند پڑ گئے۔ یاد رہے کہ بہت جلد ایلوین ٹوفلر کی بتائی ہوئی انسانی تاریخ میں برپا ہونے والے بالخصوص تین انقلابات اور ان کے اثرات یعنی زرعی انقلاب، صنعتی انقلاب اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب کے گہرے تجزیے کے نتیجے کھنچا گیا انسانی سماج کے نقشہ پر علیحدہ مضمون لکھا جائیگا۔
مستقبل میں جھانکنا بھی ہر کسی کی بس کی بات نہیں ہے۔ ماضی کو سمجھنے کیلئے نقل جبکہ حال اور مستقبل کا صحیح ادراک حاصل کرنے کیلئے عقل اور بصیرت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ماضی کیلئے انسان دوسروں کے علم وتجربہ سے استفادہ کر سکتا ہے جبکہ مستقبل شناسی کیلئے معروض کا صحیح ادراک کر کے اپنی تجزیاتی قوت کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ گویا اپنے گردوپیش میں بدلتے ہوئے رحجانات کے نقطوں کو ملا کر سماج کی بڑی تصویر بنانے کی صلاحیت سے ہی مستقبل کا وہ نقشہ کھینچا جاسکتا ہے جو وقوع پذیر ہونے والا ہے۔
لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ معروضی حالات کا ادراک حاصل کرنا، مستقبل کی جانکاری اور مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگی ہونے کیلئے مستقبل کے نباضوں کی مدد و رہنمائی اشد ضروری ہوتا ہے۔ مارکس نے بجا فرمایا تھا کہ ترقی پسند معاشرہ اپنے حال پر ماضی مسلط کرنے کی بجائے حال کو ماضی پر غالب کر کے مستقبل کا لائحہ عمل بھی طے کرتا ہے۔ اب وقت آپہنچا یے کہ موجودہ وقت و زمان کے سلگتے ہوئے مسائل کا پائیدار حل ڈھونڈیں اور ماضی کی یادوں اور رنگینیوں میں گم رہنے کا رویہ فوری طور پر ترک کریں۔ کیونکہ ہمارا ماضی ہمارا ہیں اور ہمارا رہے گا جبکہ ہمارا اصل مسئلہ ہمارے حال اور مستقبل کا ہے۔ ماضی ہم سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا جبکہ حال اور مستقبل کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔
عقلمندی اسی میں ہے کہ ہم اپنے روشن مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے حال یعنی امروز کے دستیاب مواقع اور سہولیات کو منظم اور شعوری طور استعمال میں لائیں۔ ذہن نشین رہے کہ علم و ادب سے متعلق مواد کو سمٹتے وقت مردہ ادب کو دوبارہ کمپائل کرنے، موجودہ انسانی ضروریات سے غیرمتعلق شخصیات پر دوبارہ تحقیق کرنے، ناقص موضوعات پر اپنا اور اپنے قارئین کے قیمتی وقت و توانائی ضائع کرنے کی ناکام کوشش ہرگز نہ کی جائے۔
تحقیق اور تخليق کے حوالے سے اپنا قلم اٹھانے یا کمپیوٹر کے بٹنوں پر اپنی انگلیاں پھیرنے سے پہلے ان شخصیات، علمی مواد اور موضوعات کی موجودہ اور خاص کر فیوچر ویلیو کو ضرور ملحوظ خاطر رکھیں۔ جدلیاتی فلسفہ کے وسیع تناظر اپنے مزل و منزل اور طریقہ و نتیجہ کا واضح تعین کیا کریں تاکہ ارتقائی سفر کی درست تفہیم حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل شناسی کا فلسفہ بھی آپ کے قابو میں رہے۔ ساحل سے مستقبل کی لہروں پر تجزیہ کرنے کا گر سیکھنے اور سکھانے کی اپنی اس چھوٹی سی کاوش کا اختتام احمد فراز کے ایک شعر پر کرنا چاہتا ہوں کہ تمام عمر کی ایذا نصیبوں کی قسم مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا
♥