منیر سامی
گزشتہ دنوں کینیڈا میں ایک فساد اٹھا ۔ وہ یہ کہ ٹورونٹو کی ایک مسجد کو، کورونا وائرس کے دوران اور رمضان میں ایک محدود وقت کے لیے اذان دینے کی اجازت دی گئی ۔ ٹورونٹو شہر کے مسلمانوں نے اسے کینیڈا میں اسلام کی ایک بڑی فتح قرار دے دیا اور تالیاں پیٹنے لگے۔ اس کے فوراً ہی بعد مسی ساگا شہر کی میئر بونی کرومبیؔ نے ایک اور چھلانگ لگائی اور اپنے ہم خیال اراکین بلدیہ کو قائل کرکے، بلدیہ کے مشیروں اور منیجر کی رائے کو رد کرکے، شور شرابہ سے متعلق قانون کی شق کو رمضان میں معطل کر دیا ، جس کا اطلاق تیس سے زائد مساجد پر ہوگا۔ اب تو مسلمانوں میں شادیانے بجنے لگے۔ جب فوراً ہی دوسرے مذہب کے شہریوں میں اس کی مخالفت شروع ہوئی تو حسبِِ روایت مخالفین کی اسلام دشمنی کا ڈھول پیٹا جانے لگا اور میڈیا میں شامل مسلم صحافیوں نے اسلام دشمنوں کے خلاف شور مچانا کرنا شروع کر دیا۔
کینیڈا میں اذان کو لاؤڈ اسپیکر پر نشر کرنے کے مخالفین کا،اعتراض یہ ہے کہ اس طرح آپ نے صرف ایک مذہب کے لوگوں کو اس طرح کی اجازت دی ہے اور قانون کو معطل کرنے میں صرف ان کا ذکر ہے۔ اگر مسی ساگا کی میئر یا کسی اور سرکاری عہدے دار کو کورونا کے زمانے میں لوگوں کو ان کی روحانیت سے سکون ہی دینا تھا تو، میئر صاحبہ نے سب مذاہب کو یہ دعوت کیوں نہ دی کہ وہ سب بھی اپنی عبادت گاہوں میں اپنے اپنے طور پر بلند آواز میں علامتی یا صوتی دعایئں کریں۔ اور ان کو زور زور سے لاؤڈ اسپیکروں پر نشر کریں۔ اس سے سب کو روحانی سکون ملے گا۔ جب اذانیں، مندروں کی گھنٹیاں، گرجوں کی گھنٹیا ں، یہودی معبدوں کے ناقوس، سکھ کیرتن، اور بدھ بھجنوں کی آوازیں ایک دوسرے سے ملیں گی تو کیسا روحانی وجد اور سرور پھیلے گا۔
ہم کسی ردو قدح کے بغیر پہلے ہی یہ واضح کردیں کہ ہم کینیڈا میں مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکروں پر اذان کے بنیادی طور پر مخالف ہیں۔ اس کی بنیاد ی وجہ یہ ہے کہ ہم کینیڈا یا کسی بھی ملک میں کسی بھی مذہب کے عوامی جگہوں پر پرچار کے خلاف ہیں۔ بالخصوص جب اس پرچار میں سرکاری عمل شامل ہوجائے۔ کیونکہ اس کے بعد کوئی حد باقی نہیں رہتی۔ پھر وہی قضیے پھیلتے ہیں جو آخرِ کار کشت و خون تک پہنچتے ہیں۔ کیا ہم یہ خونریزی پاکستان میں روز نہیں دیکھتے؟۔ ہم اس سے پہلے بھی سرکاری معاملات میں کسی بھی مذہبی قانون کی جگہ تسلیم نہیں کرتے۔ اب سے قبل بھی صوبہ اونٹاریو کےعائلی قوانین میں مذہب کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جب بھی ہم اور ہمارے ساتھیوں نے ایسے کسی بھی مذہبی قانون کی شمولیت کی مخالفت کی تھی اور وہ قانون رد ہوا تھا۔ ہمیں جب بھی اسلام دشمن قرار دیا گیا تھا۔
مسی ساگا کی میئر نے ایک میڈیا انٹرویو میں اقرار کیا ہے کہ انہوں نے اولاًاس موضوع پر مکمل مشاروت نہیں کی اور نہ ہی اس کو اس کمیٹی کو بھیجا جس کا کام ہی یہ مشاورت کرنا ہے، انہوں نے کہا کہ ان سے ایک مسلمان سماجی کارکن محترمہ رابعہ خضر نے یہ درخواست کی تھی، اور شاید یہ بھی کہا کہ ان کی کچھ مسلمان مولویوں سے بات چیت بھی ہو رہی تھی۔ سو ،میئرؔ نے اسے ایک ہنگامی معاملہ کے طور پر دیکھا۔ میئر نے جلد بازی میں یہ بھی نہ سوچا کہ محترمہ رابعہ خضر مسی ساگا ہی ایک بلدیاتی انتخاب میں بری طرح شکست کھا چکی ہیں اور ان کی رائے صرف ایک انتہائی اقلیتی رائے ہے۔اب جب قضیہ پھیلا ،تو میئر صاحبہ اسے ایک مشاورتی کمیٹی کے حوالے کیا ہے۔ اب جب کہ تیرکمان سے نکل چکا اور بات پھیل گئی ہے، اور مقدمہ بازیاں شروع ہونے والی ہیں۔
اگر میئر نے مناسب مشاورت کا موقع دیا ہو تا تو وہ جان پاتیں کہ اسلام میں اذان فرض نہیں ہے بلکہ ایک سنت ہے۔ اسلام کے بعض مسالک کے موقر علما کی رائے میں اذان ایک فرضِ کفایہ ہے۔ اور اگر کسی بستی کی ایک مسجد میں بھی اذان ہو جائے تو ساری بستی کی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے۔اس لیئے انہیں قانون کو پھیلانے کی ضرورت نہیں تھی۔
ہم زیادہ شرعی اور فقہی مو شگافیوںمیں پڑے بغیر میئرؔ سے مودبانہ یہ عرض کرتے ہیں کہ آپ روزانہ صرف ایک بار مسی ساگا کی بلدیہ کے مینار سے اذان دلو ا دیا کریں۔کیونکہ مسی ساگا کی بلدیہ کی عمارت تو خود ایک خوبصورت مسجد ہی لگتی ہے۔ یہ ہماری نظر نہیں کہہ رہی بلکہ یہ تو برِ صغیر کے ممتاز دانشورڈاکٹر گوپی چند نارنگؔ کا مشاہدہ ہے۔ انہوں نے یہ ہمیں ایک بار اپنے کینیڈا کے دورے میں سمجھایا تھا۔ واہ نارنگ صاحب واہ۔ کیا خوبصورت گنبد، کیسا خوبصورت مینار!
اب یہ بات پھیلی گی اور مسلمان اپنے خد ا کی مزید تعریف کریں گی کہ جس نے مسی ساگا کی بلدیہ کے معمار کو یہ خیال عطا کیا ہو گا۔ اور پھر سب مسلمان جو در جوق اس بلدیہ کی زیارت بھی کریں گے ، اور میئر کے ہاتھ چوم چوم کر کے ان کی بیعت بھی کریں گے، انہیں ایک سچا مسلمان جان کر۔ اللہ کی مصلحتیں بھی خوب ہیں۔ میئر مسی ساگا ، بَونی کرومبیؔ، زند ہ باد۔ وہ تو شاید صرف مسی ساگا کے مسلمانوں کے ووٹوں طلبگا ر تھیں، اب تو ان کی روحانی پیشوا بھی بن جائیں گی ۔
♦