لیاقت علی
پاکستان کا ایٹمی پروگرام ایک ایسی حسینہ ہے جس سے عشق و محبت کے ایک سے زائد دعوے دار ہیں۔ایک عاشق کہتا ہے کہ اس حسینہ نے جو خوش رنگ لباس پہنا ہوا ہے وہ میں نے اسے دیا تھا، دوسرا دعوی کرتا ہے کہ اس کے خوشنما زیورات جس سے اس کا حسن دوبالا ہوا ہے،میرے دیئے ہوئے ہیں اور ایک عاشق جتا تا ہے کہ اگر میں اس کی نوک پلک نہ سنوارتا، تو اس کے حسن کے جو چرچے اس وقت چار دانگ عالم میں ہیں وہ کبھی نہ ہوتے۔ ایک عاشق کا بیان ہے کہ اس کا گھونگٹ میں نے اٹھا یا تھا لہذا میرا حق سب عاشقوں پر فایق ہے۔
ہر عاشق کا دعوی دوسرے سے بڑھ کر ہے اور ہر ایک اس حسینہ سے اپنی محبت اور تعلق بیان کرنے کے نت نئے دعوے اور انداز اختیار کرتا ہے۔ اگر کہیں نام نہیں ہے تو وہ ہیں پاکستان کے عوام جنھیں اس حسینہ کے ناز نخرے، لباس کی تراش خراش اور اس کی رہائش و خوراک اور حفاطت کی بدولت تعلیم،صحت اور روزگار کے سہولتوں سے محروم ہونا پڑا ہے۔
ایٹم بم نام کی اس حسینہ کے نخرے اٹھاتے پاکستان کے عوام بے حال ہوگئے ہیں اور مستقبل قریب میں ان کی حالت زار کے بدلنے کے امکانات کم ہی ہیں۔ اس دلفریب حسینہ کے کسی عاشق نے چاغی جہاں اس حسینہ نے گھونگھٹ کھولا تھا، کے عوام کا کبھی بھولے سے بھی ذکر نہیں کیا جن پر اس کے حسن کے جلووں کی بدولت قیامت گذری اور گذر رہی ہے۔ اس حسینہ کی جلوہ کشائی کی بدولت چاغی کے زیر زمین پانی، انسانی آبادی، قدرتی ماحول، جنگلی حیات اور آب و ہوا پر کیا اثرات مرتب ہوئے اس کا ذکر کبھی کسی عاشق نہیں کیا۔
ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بہت سی متھس اور کچی پکی کہانیاں ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ ان کو چیلنج کرنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے متراد ف ہے۔ سب سے بڑی متھ تو یہ ہے کہ بھٹو کی اقتدار سے علیحدگی اور بعد ازاں پھانسی اس لئے ہوئی کیونکہ انھوں نے امریکہ کی سر توڑ مخالفت کے باوجود ایٹمی پروگرام نہ صرف شروع کیا بلکہ اس کو جاری رکھنے پر بھی مصر رہے اور ان کا یہ اصرار انھیں پھانسی کی صورت بھگتنا پڑا۔
ایک دعوی، بلاشبہ ایٹمی پروگرام بھٹو نے شروع کیا تھا لیکن بھٹو سے شخصی دشمنی کے باوجود جنرل ضیا اس پروگرام کے نگہبان بن گئے اور انھوں نے امریکہ کے تمام تر دباؤ کے باوجود اس پروگرام کی پراگرس پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہ کیا تاآنکہ انھیں اس کی پاداش میں اپنی جان سے دھونا پڑے۔
دوسرا دعوی۔بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا تو امریکہ نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی صورت میں اربوں ڈالرز امداد میں دینے کی کوشش کی جو انھوں نے مستردکردی اور ایٹمی دھماکے کرنے کے اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے اور یوں انھوں نے 28مئی1998 کو ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کو بتا دیاکہ پاکستان کے ایٹمی طاقت ہے۔
تیسرا دعوی۔ بھٹو نے ایٹمی پروگرام شروع کیا درست بات ہے۔ جنرل ضیا نے اس کو مشکل ترین حالات میں جاری رکھا یہ بھی حقیقت ہے نواز شریف نے تمام تر پریشر کے باوجود دھماکے کئے اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے لیکن اگر میں نہ ہوتا تو یہ سب کچھ نہیں ہونا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا دعوی۔ بھٹو نے مجھے ہالینڈ سے پاکستان آنے اور ایٹمی پروگرام سنبھالنے کی دعوت دی میں ملک کی محبت میں سرشار فوراً پاکستان آگیا اور میں نے اس پروگرام کو مکمل کیا۔ یہ میر ی ذات ہی تھی جس کی بدولت یہ سب کچھ ممکن ہوا میری جگہ کوئی اور ہوتا تو ایسا ہونا ممکن نہیں تھا۔ مذکورہ بالا یہ متھ اب ہماری حقیقی قومی تاریخ کا درجہ پاچکی ہیں۔
جب یہ استفسار کیا جاتا ہے کہ امریکہ وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اپنی کس تقریر میں بھٹو کو کہا تھا کہ اگر آپ نے ایٹمی پروگرام بند نہ کیا تو آپ کو عبرت کی مثال بنا دیا جائے گا تو فوراً جواب آتا ہے کہ راؤ رشید کی کتاب میں پڑھ لیں یہ حوالہ موجود ہے۔ کیا راؤ رشید اس گفتگو میں شریک تھے؟ کیا وزیراعظم پاکستان اور امریکہ کے وزیر خارجہ کی میٹنگ میں انسپکٹر جنرل پولیس شریک ہوتا ہے؟ کسی نے کہا کہ عبدالحفیظ پیرزادہ نے اس کی تصدیق اپنے انٹرویو میں کی تھی۔ لیکن کسی ایک نے بھی ہنری کسنجر کی کسی ایک ایسی تقریر کا حوالہ نہیں دیا جس میں انھوں نے بھٹو کو عبرت کی مثال بنانے کی دھمکی دی ہو۔
بھٹو نے 1974 میں ملتان میں سائنس دانوں کا اجلاس منعقد کیا تھا جس میں انھوں نے ایٹمی پروگرام کے شروع کرنے کے ارادے کا اظہار کیا تھا۔ اس اجلاس کے بعدیہ پروگرام شروع ہوا اور ڈاکٹر عبدالقدیر کو ہالینڈ سے پاکستان بلوایا گیا تھا۔بھٹو نے اپنے اس پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے18۔مارچ 1976کو فرانس کے ساتھ ایٹمی ری پرسسنگ پلانٹ کی خرید کا معاہدہ کیا اور31 جولائی کو بھٹو نے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔
ان دونوں واقعات نے نہ صرف جنوبی ایشا بلکہ امریکہ میں سنسنی کی لہر دوڑا دی تھی۔امریکہ فرانس سے ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ خریدنے کے اس معاہدے کے خلاف تھا۔ چنانچہ امریکہ نے سفارتی ذرایع سے پاکستان پر دباو ڈالا کہ وہ فرانس سے کیا گیا یہ معاہدہ منسوخ کردے لیکن پاکستان نے امریکہ کا یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔پاکستان کے انکار کے بعد امریکہ کے صدر جیرالڈ فورڈ نے فرانس سے یہ پلانٹ فروخت کرنے کے معاہدے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
امریکہ میں اسی سال نومبر میں الیکشن ہونے جارہے تھے جن میں ڈیموکریٹس کے جیتنے کے امکانات روشن تھے اس لئے امریکی انتظامیہ چاہتی تھی کہ وہ امریکی ووٹرز کو یہ باور کرائے کہ وہ ایٹمی پھیلاو کو روکنے میں پوری طرح سنجیدہ ہے پاکستان پر دباؤاسی پالیسی کا حصہ تھے۔ یہی وہ پس منظر تھا جس میں امریکی سیکرٹری خارجہ ہنری کسنجر نے اگست 1976 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ جب کسنجر اسلام آباد پہنچے تو بھٹو اس دن لاہور میں مقیم تھے۔ چنانچہ 10۔اگست1976 کو لاہور کے گورنر ہاوس میں بھٹو کسنجر مذاکرات ہوئے۔
ان مذاکرات کے دوران طرفین کے مابین کیا گفتگو ہوئی اس کا ریکارڈمئی 2006 میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے نیشنل آرکائیوز نے پبلک کے لیے عام کردیا ہے۔ اس ریکارڈ کے مطابق کسنجر نے بھٹو سے کہا کہ وہ فرانس سے ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ خریدنے سے باز رہیں جس کے جواب میں بھٹو نے کہا کہ پاکستان کا مقصد ایٹمی ہتھیار بنانا نہیں بلکہ اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنا ہے۔ بھٹو نے کسنجر سے کہا کہ وہ فرانس سے ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ خریدنے کے معاہدے کی مخالفت نہ کرے۔ کسنجر نے کہا کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ پاکستان ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا۔ بھٹو نے کسنجر کو یقین دلایا کہ پاکستان ایٹمی ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ کسنجر نے کہا کہ وہ الفاظ نہیں زمینی حقایق کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ کسنجر نے بھٹو سے کہا کہ اگر آئندہ کسی نے اپنی یقین دہانی پر عمل نہ کیا تو پھر کیا ہوگا؟ چنانچہ دونوں شخصیات کے مابین لاہور میں ہوئے یہ مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئے تھے۔
مذاکرات کے بعد بھٹو نے اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسنجر سے ہوئی بات چیت سے پوری طرح مطمئن ہیں۔ کسنجر کی بھٹو کو عبرت کی مثال بنانے کی دھمکی کی متھ مارچ 1977 کی قومی اتحاد کی تحریک کے دوران اس وقت بنائی گئی جو بھٹو اس تحریک کے ہاتھوں زچ ہوگئے تھے۔ انھوں نے راولپنڈی کے راجہ بازار میں ایک کاغذ لہراتے ہوئے کہا کہ بیرونی ہاتھ انھیں روندنا چاہتا ہے کیونکہ وہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لئے پر عزم ہیں۔ پھر انھوں نے قومی اسمبلی میں بھی اس سے ملتی جلتی تقریر کی اور ملفوف انداز میں اپنے خلاف چلنے قومی اتحاد کو امریکہ کی حمایت یافتہ قرار دیا تھا۔
انھوں نے اپنی کسی تقریر میں یہ کبھی نہیں کہا تھا کہ کسنجر نے انھیں دھمکی دی تھی کہ اگر انھوں نے ایٹمی پروگرام جاری رکھا تو انھیں عبرت کی مثال بنادیا جائے گا۔ اگست 1976میں جب کسنجر پاکستان آئے تو اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے میں تعینات جیرالڈ فیوسٹائن نے ان کے ساتھ بطور پروٹوکول افسر فرائص انجام دیئے تھے۔2010 میں یہی جیرالڈ فیوسٹائن اسلام آباد کے امریکی سفارت خانہ میں ڈپٹی ہائی کمیشن تھے۔ ایک پاکستانی ٹی۔وی چینل نے اس کا انٹرویو لیا اور براہ راست ان سے پوچھا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو دھمکی دی تھی کہ اگر انھوں نے ایٹمی پروگرام جاری رکھا تو انھیں عبرت کا نشان بنادیا جائے گا۔
جیرالڈ کے مطابق امریکہ بلاشبہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور فرانس سے ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ خریدنے پر بہت زیادہ تشویش کا شکار تھا اور کسنجر کا دور پاکستان اسی پس منظر میں تھا۔ انھوں نے بھٹو سے کہا تھا کہ اگر پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام سے ہاتھ اٹھا لیں تو امریکہ پاکستان کو ایف۔7بمبار طیارے دے سکتا ہے بصورت دیگر پاکستان کو شدید پابندیوں کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ سیکرٹری کسنجر نے بھٹو کو شخصی طورپر کوئی دھمکی نہیں تھی ہاں پاکستان پر شدید اقتصادی اور فوجی پابندیوں کی دھمکی ضرور ی تھی۔
ایٹمی پروگرام بھٹو نے شروع کیا، جنرل ضیا نے اس کو آگے بڑھایا اور نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کئے یہ سب درست باتیں ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس پروگرام کو شروع ہونے کے کچھ ہی دیر بعد اسے پاکستانی فوج نے گود لے لیا تھا اوراب یہ مکمل طور پر پاکستان کی فوج کا پروگرام ہے۔ ایٹمی پروگرام فوج کا ایسا چہیتا اور لاڈلہ بچہ ہے جس کی ہر فرمائش او ہرر خواہش بہر صورت پوری کی جاتی ہے۔یہ ہماری فوج کا ایسا بچہ ہے جس سے وہ کسی قیمت پر علیحدہ نہیں ہونا چاہتی۔ سول حکمران اور ان کے لواحقین جو مرضی دعوی کرتے رہیں ان کا ایٹمی پروگرام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ وہ محض بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانے ہیں ٭٭