حسن مجتبیٰ
آخر کار پاکستان کی نیوکلیئر کرسی پر بیٹھے ہوئے باوردی اور بارودی جنرل پرویز مشرف نے جوہری جرائم میں ملوث سائنسدان ڈاکٹر قدیر کو، جنہیں پاکستانی میڈیا اور پبلک کا ایک بہت بڑا حصّہ ’ بابائِے ایٹم بم کہتا ہے، ’مشروط‘ معافی دے دی ہے۔ ان کی ’مالی منفعت‘ اپنی جگہ لیکن وہ باقی تمام پاکستانیوں کی طرح اُن کے (جنرل مشرف کے) ’ہیرو‘ اب بھی ہیں۔
جب میرے دوست غلام رسول سیٹھو نے یہ سب کچھ سنُا اور دیکھا ہوگا تو اُنہوں نے حسبِ عادت یہ ضرور کہا ہو گا: ’واہ رے بازی گَر تیری بازی!‘ یعنی کہ پاکستان کی فوجی جنتا جس نے ایک پاپولر وزیر اعظم کو ایک شخص کے مبینہ قتل کے جرم میں تمام دنیا سے آنے والی رحم کی اپیلوں کو مسترد کردیا تھا، وہ ایک سے زیادہ ملکوں کے لاکھوں کروڑوں لوگوں کے قتل کے ارادے سے بنائے جانے والے بم اور اس کی ٹیکنالوجی کو بلیک مارکیٹ میں بیچنے والے ایک سائنسدان کو معافی کا مستحق ٹھہراتی ہے۔
’جو چاہے آپ کا حِسن کرشمہ ساز کرے‘
سنہ1998 میں انڈیا اور پاکستانی نیوکلیئر دھماکوں پر کسی نے اِن دونوں ملکوں کے اس عمل کو’برصغیر جنوبی ایشیا میں چل نکلنے والی ننگی فلم‘ سے تعبیر کیا تھا لیکن اب جو پچھلے ہفتوں ہوا ہے اُسے دیکھ کر آپ پاکستان کو ایک ایسے ناول کا پلاٹ کہہ سکتے ہیں جس کا ’اینٹی ہیرو‘ ڈاکٹر قدیر خان لکھا جائے گا۔ کاش میں اس پورے قصّے کو ایک ’لچر فلم‘ کہہ سکتا! لیکن جنرل پرویز مشرف کی نیم سچ اور نیم گپ پر مبنی پریس کانفرنس جو گیبریل گارشیا مارکویز کی ’جنرل ان لیبرنتھ‘ کے مکالمے تو نہیں لیکن ایک ایسا غیر تحریری سکرپٹ لگ رہی تھی جو پاکستان جیسے ملکوں میں فوجی ’مولاجٹوں‘ کا خاصہ رہا ہے۔
پاکستانی حکمرانوں کے ٹیلی ویژن پر کچھ سیاسی لوگ ’قوم سے خطاب‘ کے بدلے ’قوم کو خزاب‘ کہا کرتے تھے۔ اُن کی تقریر کے غیض و غضب کا کچھ نشانہ میڈیا والے بھی بنے جو اُن کے خیال میں ’قومی مفادات‘ کو بالائےطاق رکھ کر لکھتے اور چھاپتے رہے تھے۔ وہ میڈیا والوں کی طرف سے ’قومی مفادات‘ کو کوموں میں بند کرنے پر سخت نالاں تھے۔
یہاں پر بھی مجھے سندھی زبان کے سب سے بڑے شاعر شیخ ایّاز یاد آ رہے ہیں جنہوں نے کہا تھا ’اے لفِظ زندگی تو ایک ایسا جنگلی جانور ہے جسے سینگوں سے پکڑ کر ’ کوموں‘ میں بند نہیں کیا جا سکتا‘۔ اور جنرل پرویز مشرف نے پاکستانی اسلامی بم (اور اب شمالی کوریا کے حوالوں سے آدھا کیمونسٹ بھی!) کے پِس منظر میں ڈاکٹر قدیر کیس کے حوالے سے ایک قسم کا اعتراف یہ کیا کہ اس بم کی تمام پرورش ’زیر زمین‘ ہوئی ہے۔
جیسے جنرل پرویز مشرف ’زیر زمین‘ کہہ رہے ہیں، اُسے (کہوٹہ کو) پنڈی اور اسلام آباد کے ٹیکسی ڈرائیور اور اکثر لوگ روزِ اوّل سے ’ایٹم بم فیکٹری‘ کہتے آئے ہیں۔ یعنی کہ:۔
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے اک گُل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
کاش میرا اسیر صحافی دوست خاور مہدی جس کا قصور محض یہ ہے کہ وہ بہت بولتا اور بہت جانتا تھا، اس موقع پر پنڈی اور اسلام آباد میں ہوتا تو صحافی دوست اُس کی پُر خبریت باتیں سُنتے۔
کاش خاور مہدی اور اُس کے دو فرانسیسی صحافی ساتھیوں کی گاڑی بلوچستان کے بے آب و گیاہ دشتی پشتون پٹے میں خراب نہ ہوتی۔ شمالی وزیرِستان سے لے کر چمن کے بارڈر تک محیط پشتون پٹی جس کے لیے وہاں سے میرے ایک صحافی دوست اسحاق منگریو نے اخبار میں یہ چل نکلنے والی کہاوت نما بات رپورٹ کی ہے ’ایک عرب کے لئے دو ارب ڈالر کا سودا خراب نہیں‘۔
وہ خاور مہدی اسلام آباد جیسے گھروں کے شہر میں ایک اور اکیلا آدمی تھا۔ جس نے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ لڑی جانے والی جمہوریت کی لڑائی کو اپنی ذاتی لڑائی سمجھ لیا ہوا تھا (دوسرے لفظوں میں ضیاء کے ساتھ ایسے لوگوں کی لڑائی’اٹ کُتے کا بیر تھا!‘۔
حیرت ہے پاکستان جیسے مضبوط نظریاتی اور ایٹمی ملک کو اگر خاور مہدی جیسے دُبلے پتلے صحافی سے خطرہ ہو سکتا ہے (جس کے خلاف ملک سے بغاوت کرنے کا مقدمہ قائم کیا گیا ہو) تو پھر وہ ملک ایک کچی اینٹوں اور گارے سے بنی ہوئی ایک دیورا لگتا ہے۔ ایک ایسا ملک ’جہاں کے عوام کی قسمت اور عنانِ اقتدار کی تمام باگیں 111 (ٹرپل ون بریگیڈ) راولپنڈی کے کور کمانڈر اور اُس کے دستوں کے اوقات کار سے بندھی ہوئی ہوں‘ اُس دن لاس اینجلس میں عید الضحٰی والی شام مجھے ایک ہم وطن طالب جنجوعہ بتا رہے تھے۔ راولپنڈی کی ٹرپل وَن کور جس کو یہ بھی کرنا ہوتا ہے کہ کتنے گھنٹوں اور منٹوں میں ریڈیو اور ٹیلی وثزن سٹیشن، پارلیمنٹ ہاؤس، پرائم منسٹر ہاؤس پر قبضہ کرنا ہے اور پھر ہو جاتا ہے ’عزیز ہم وطنو السلام و علیکم‘۔
جنرل پرویز مشرف جس ایک سانس میں لیبیا اور ایران جیسے برادر اسلامی ملکوں کو وعدہ معاف گواہی دینے پر کوستے ہیں وہاں پاکستانی پریس کو یہ بھی کہتے دکھائی دیتے ہیں ’اگر یہ سب کچھ صحیح بھی تھا پھر بھی ’قومی مفادات‘ کے خاطر یہ نہیں لکھنا اور چھپنا چاہیے تھا۔ اور پھر شاید ’قومی مفادات‘ کے تحت اُنہوں نے ڈاکٹر قدیر خان کی طرف سے کمائی ہوئی مالی منفعت انُہیں اپنے پاس ہی رکھنے دی ہے۔ کاش وہ ’مبینہ‘ رقم بھی قومی مفادات کے تحت بحقِ پاکستانی عوام ضبط کر لینے کی توفیق رکھتے۔ جس کے لئے پاکستانی عوام اپنی، اپنے آنے والی نسلیں اور اُنکے مستقبل اور امن رہن رکھوا کر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ’بم‘ پر خاموش رہتی آئی تھی۔
تو پس عزیزو، مبارک ہو کہ آپ پاکستان میں اس بغیر دھماکے ایٹمی حادثے سے بچ کر نکل گئے ہیں۔ لیکن مجھے پھر شیخ ایاز کا وہ شعر یاد آ رہا ہے۔ ’میں اس ایٹم بم کی حمایت اس لئے نہیں کر سکتا کے مجھے اس سے میری کھانا کھاتی ہوئی ننھی سی نواسی اپنی رکاب اور بوٹوں سمیت اڑتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ پورا پاکستان ’انڈرورلڈ‘ یا زیر زمین مافیا کے رحم و کرم پر رہتے ہوئے اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔
مجھے یہ کہانی سنانے والے سیالکوٹ کے ’باؤ جی محمود‘ کے آباؤ اجداد یاد آتے ہیں جو انگریزوں کے دنوں میں بقول باؤ جی کے زیرزمین اسلحہ بناتے تھے اور انہوں نے وہ اسلحہ سردار احمد خان کھرل کو دیا تھا۔ لیکن کیا خبر کے باؤ جی محمود کے آباؤاجداد کے برعکس ڈاکٹرقدیر اور ان کی سرپرست جنتا نے تین ملکوں کے علاوہ ’بریف کیسوں کے بدلے ایسے بریف کیس غیر ریاستی کرداروں (نان سٹیٹ ایکٹرز) کو بھی دیئے ہوں۔
اب کسی شخص کو یہ دیکھنے اور کہنے کے لئے آنکھوں کی بھی ضرورت نہیں کہ پیارا پاکستان عام تباہی کے ہتھیاروں میں بہت سال پہلے سے خود کفیل ہو چکا ہے۔ اب تو پاکستان میں بسنے والے عوام کے لئے وہاں ٹرکوں پر لکھا ہوا یہ شعر ہی پڑھا جا سکتا ہے۔
موت کے منہ میں بیٹھ کر زندگی گزارنے والو
حافظ خدا تمہارا، قدیر خان کو ہیرو بنانے والو
بشکریہ: بی بی سی اردو