تنویر احمد خان
مقتدر چیلیں، گِدھ اور پالتو کوے جانتے ہیں کہ وہ ایک ایسا کالونیل نظام چلا رہے ہیں جس میں انہیں پیداگیری کرنے کی، چین و روس کے پھیلاؤ کے خلاف بفر سٹیٹ بنے رہنے کی، ایک حد تک پراکسیز پالنے کی اور بھرم رکھنے کے لیے کبھی کبھار بھارت کو آنکھیں دکھانے کی تو اجازت ہے لیکن پاکستان کو ایک خوشحال، مہذب اور خودمختار عوامی فلاحی ریاست بنانے کی اجازت ہر گز نہیں ہے۔
نئے پاکستان، احتساب اور خوشحالی کی بتی، تو کبھی آٹا اور شوگر مافیاز کی تحقیقات کی بتی کے پیچھے پاگلوں کی طرح بھاگتی عوامی اکثریت یہ جان ہی نہیں پاتی کہ اس کے ساتھ کیا ہاتھ ہو رہا ہے۔
ہمارے ہاں عسکری ریاستی انتظام میں، عشروں پر محیط شدید بھوک اور لالچ بےانتہا ندیدی کارپوریٹ لیڈرشپ اور سیاسی و کاروباری کارٹیلز پیدا کرتی ہے۔
شوگر، بجلی، گندم، میڈیسن، رئیل سٹیٹ، غرض کے زندگی کا ہر کماؤ شعبہ مافیاز کے قبضے میں ہے، جن کا کمیشن ریٹ اور نمائندگی تو عسکری و روحانی گاڈ فادرز کے حکم سے حسبِ ضرورت بدلتی ہے لیکن حقیقی احتساب کبھی نہیں ہوتا اور طاقت کے حصول کی جنگ میں احتساب کی لیپا پوتی کر کے شفافیت کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔
موجودہ حکومت کیونکہ انجنئیرڈ ہے اور عسکری لیڈرشپ کے تابع ہے اس لیے وہ عوام کو جوابدہ نہیں اور لازماً کرپٹ، نالائق اور ڈنگ ٹپاؤ کر رہی ہے، اس لیے اسے لوگوں کی بہتری نہیں اپنی بقاء عسکری لیڈرشپ کی خوشنودی سے درکار ہوتی ہے۔
کارپوریٹ سیکٹر یا کسی بھی سویلین سیٹ اپ کو مالی و اختیاری طور پر زیادہ پھلتا پھولتا دیکھ کر عسکری اشرافیہ کے حکم پر نیب اور ہنی ٹریپڈ ججز کے ذریعے کٹ ٹو سائز کر دیا جاتا ہے تاکہ کل کو کوئی طیب اردگان جیسا نافرنان سویلین عوامی ساکھ، سرمائے اور مینڈیٹ کے زور پر اٹھ کے عسکری بالادستی اور وقت کے وائسرائے صاحب کو چیلنج نہ کر دے۔
ایسی تنزلی کی شکار سکیورٹی سٹیٹ میں عوام کے لیے بھنا ہوا گوشت نہیں بنتا، بھاری قرض پہ تھوڑا سا پِدی کا شوربہ بنا کرتا ہے۔جسے کسی درباری مذہبی شخصیت سے فاتحہ اور دُعائی تقریر کروا کر قوتِ ایمانی اور جزبہِ حب الوطنی بڑھانے کے لیے احسان مند ہو کر پیا جاتا ہے اور ساتھ ہی اپنے گناہوں پر نادم ہونے کے بعد مقدس عسکری قوتوں اور ان کے تابعدار وزیرِاعظم کا شکر بجا لایا جاتا ہے۔
جبکہ میڈیا کے بےہدایتوں، سوال کرنے والے گستاخوں اور سسٹم کے غداروں پر پھٹکار بھیجی جاتی ہے۔ایسے ریاستی ماڈل میں حقیقی شفافیت، معاشی ترقی اور عوامی فلاح و خوشحالی کی خواہش کہیں فٹ نہیں ہوتی اور دیوانے کا خواب کہلاتی ہے۔
♦