طارق احمد مرزا
جب محترم عارف علوی ، صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے چند ہفتے قبل حامد میرنامی صحافی کو ایک انٹرویو کے دوران توانائی کے شعبے کی انکوائری رپورٹ سے متعلق فرمایا کہ ” قوم کے ساتھ ریپ نہیں بلکہ گینگ ریپ ہوا ہے“، توسوشل میڈیامیں ایک شور برپا ہوگیا کہ صدرمملکت کوایوان صدر میں بیٹھ کراس قسم کی لچر، بیہودہ، بازاری وغیرہ قسم کی زبان استعمال نہیں کرنا چاہیئے تھی۔
یہ شورمچانے والے بھول گئے تھے کہ عارف علوی صاحب امریکہ یا فرانس کے صدر نہیں بلکہ ان پاکستانیوں کے ہی صدرہیں۔جی ہاں ان کے ہی جنہوں نے انہیں صدرمملکت اور ان کی جماعت کے ایک اور ممبر کو وزیراعظم کے عہدہ تک پہنچایا ہوا ہے۔
تنقید کرنے والوں میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جن کے اعصاب پر ہمہ وقت عورت اور جنسی تعلقات ،جنسی ریپ ،گینگ ریپ وغیرہ سوار رہتاہے۔خود اپنی روزمرہ گفتگومیں وہ سوسو بار دوسروں کو بلکہ پالتوجانوروں حتیٰ کہ دھکا سٹارٹ موٹرکاروں، شورمچاتی واشنگ مشینوں اور زنگ آلود اوزاروں تک کو ماں بہن بیٹی کی گندی گالیاں بکتے رہتے ہیں،لیکن جب صدرمملکت کی زبان سے ریپ کا لفظ سن لیا توانہیں فٹ سے تقدیس ِناموس نسواں ،تہذیب وآداب اورپتہ نہیں کیا کیا یادآگیا۔
احقرکی رائے میں صدرمملکت محترم عارف علوی کو ان کے اس حقیقت پر مبنی بیان پر تنقید کا نشانہ بناناہرگز درست نہیں۔ قوم کے ساتھ اگر “یہ” نہیں ہوا تو بتایئے کیا ہوا ہے؟۔ قوم کو اپنی بہن بنا کر اس کے لیے جہیز کا سامان جمع کرنے کا تکلف تو بہرحال اب تک کسی نے نہیں کیا،نہ ہی نکاح مسنونہ پڑھواکرگھرکی عزت بنا کر رکھاہے۔
ہاں،ہوا ہے تو یہ ضرورہوا ہے کہ ہماری جڑواں بہن اس گھر سے بھاگ کر اور اپنا نام تبدیل کرکے بنگلہ دیش رکھ کراقوام عالم کے دارالامان میں عزت کی زنگی گزارناشروع کر چکی ہے،جبکہ ہمارے ساتھ وہ عمل جاری وساری ہے جس کی نشاندہی صدر محترم نے کی ہے۔
دراصل لوگوں کو علم ہی نہیں تھا کہ “مِی ٹو” کی ہیش ٹیگ مہم میں ہماری اپنی مادرِ وطن بھی شامل تھی اور ہے۔ چونکہ اس کے ہاتھ پاؤں ابھی تک بندھے ہوئے ہیں ، مونہہ میں رومال بھی ٹھنساہوا ہے اور اس کا کوئی ٹؤٹر اکاؤنٹ بھی نہیں اس لئے آپ کو اس بیچاری کے ساتھ ہونے والی واردات (جو جاری وساری ہے) کا کوئی احساس بھی نہیں ہو سکا اور نہ ہونا ہے۔بھلا ہو محترم ڈاکٹر عارف علوی کا جنہوں نے ایوان صدرکے اندر جاکر اس بے بس اور لاچار مادروطن کی طرف سے اس ہیش ٹیگ کا بٹن دبانے کافریضہ سرانجام دے دیاہے۔
جن لوگوں کوابھی بھی بات سمجھ نہیں آسکی ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر آپ کےمقبول ترین اورجیّدعالم ہماری مادر وطن پاکستان کو “بازاری عورت” قرار دے سکتے ہیں تو اس بازاری عورت کا ریپ بلکہ گینگ ریپ نہیں ہو سکتا؟ ۔اس پر برا منانے کی بجائے اس بیچاری عورت کی مددکریں ، نہ کہ صدر مملکت کی مذمت میں ٹائم لگا کر خود کو اور دوسروں کو دھوکہ دیں کہ منہ زبانی صدر پاکستان پر تنقید کرکے ہم نے حقوق نسواں سے متعلق اپنا کوئی نام نہادفرض پورا کرلیا۔
واضح کردوں کہ خاکم بدھن راقم اپنی مادرِ وطن کو کوئی نام ہرگز نہیں دے رہا (نہ میرے نزدیک کوئی عورت “بازاری ” ہوتی ہے)۔یہ نام تو اس قوم کے حضرت “امیر شریعت” سید عطاءاللہ شاہ بخاری صاحب نے اس کو دیا تھا،یہ کہہ کر کہ :” پاکستان ایک بازاری عورت ہے جس کو احرار نے مجبوراً قبول کیا ہے (منیرانکوائری رپورٹ۔ شائع کردہ نیا زمانہ پبلیکیشنز ص398) “۔
اس بیان کے خلاف آج تک کوئی بھی بپھرا ہوا متشدد محب وطن احتجاجی ہجوم یا بات کواصطلاحاً حقوق نسواں کی طرف پھیرنے والا شمع بردار جلوس پاکستان کی سڑکوں پہ نہیں نکلا ، گویا حضرت امیر شریعت کایہ بیان اس قوم نے اسی طرح ” قبول “کرلیاہوا ہے جس طرح حضرت نے پاکستان کو قبول کرلیا تھا۔
بلکہ پاکستان کی تو منتخب مقننہ کے اجلاس میں اسی مبینہ“بازاری عورت” کے “مجبور“احراری شوہر حضرت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کا نام بڑے فخر سےگلاپھاڑپھاڑ کر لیاجاتاہے اور اس پر پوری مقننہ کی طرف سےدادوتوصیف کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔
قارئین کرام ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ بعض شرفاء اور خدا ترس افراد “اُس بازار“سے تعلق رکھنے والی عورتوں کو باعزت زندگی عطا کرنے اور ان کی تحریم وتقدیس، جس کی وہ حقدارتھیں،لوٹانے کے لئے باقاعدہ بیاہ کراپنا بنانے اور اسے ایک گھر دینے کا ذریعہ یا باعث بنے۔لیکن حضرت امیر شریعت والی “بازاری عورت” کا المیہ یہ رہا ہے کہ اس کا واسطہ ایسے افراد سے ہے جو حضرت مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کے الفاظ میں مندرجہ ذیل ہیں :
فرمایا:” پاکستان لاکھوں ،کروڑوں ڈاکؤوں،لٹیروں،قاتلوں،زانیوں اور سخت کمینہ صفت ظالموں سے بھرا ہوا ہے“۔(ترجمان القرآن جلد 31ص 59)۔
تو خود ہی اندازہ کرلیں کہ ان “لاکھوں کروڑوں زانیوں” نے مل ملا کر اس مبینہ “بازاری عورت ” کا گینگ ریپ ہی توکرناہے، اسے والدہ ماجدہ تونہیں بنانا، تو صدر مملکت کے بیان پر غصہ کیسا۔
سوشل میڈیا پہ کچھ افراد نے صدرمملکت کا دفاع کرتے ہوئے درست کہا ہے کہ دراصل جس معاشرہ میں کوئی فعل یا عمل کثرت سے ہو رہا ہو توایسا عمل ایک روزمرہ کا محاورہ یا اصطلاح بن جاتا ہے۔اسے کسی مخصوص مظلوم طبقہ کی ہتک نہ سمجھا جائے۔
مزید سنیئے:۔
“مزاج شناسِ رسول“حضرت مولانا مودودی صاحب بعد از تحقیقِ عمیق اس قوم اور معاشرہ کی مزید کیا تفصیلات جاری فرماتے ہیں :۔
” بازاروں میں جائیے مسلمان رنڈیاں آپ کو کوٹھوں پر بیٹھی ہوئی نظر آئیں گی اور مسلمان زانی آپ کو گشت لگاتے ہوئے ملیں گے – جیل خانوں کا معائنہ کیجئیے ، مسلمان چوروں، مسلمان ڈاکوؤں اور مسلمان بد معاشوں سے آپ کا تعارف ہو گا – دفتروں اور عدالتوں کا چکر لگائیے رشوت خوری، جھوٹی شہادت، جعلسازی، فریب کاری، ظلم اور ہر قسم کے اخلاقی جرائم کیساتھ آپ لفظ ” مسلمان ” جُڑا ہوا پائیں گے – سوسائٹی میں پھریئے کہیں آپکی ملاقات مسلمان شرابیوں سے ہو گی، کہیں آپکو مسلمان قمار باز ملیں گے، کہیں مسلمان سازندوں، اور مسلمان گویّوں اور مسلمان بھانڈوں سے آپ دو چار ہونگے ۔۔۔” (مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصّہ سوم صفحہ 29،28 )۔
تو خود ہی دیکھ لیں کہ یہ معاشرہ کس قسم کاہے اور اس کا عام ماحول کس قسم کا ہے ،اس کی روزمرہ کی اقداراور معمولات کیا ہیں۔
پتہ نہیں اس معاشرے کو اکڑ خانی کا اتنا شوق کیوں ہے؟۔قائداعظم نے کیا انہی “مسلمانوں“کوایک الگ ملک بنواکردینا تھا؟۔
اصطلاحی، اخلاقی اور تاریخی حقائق پر تو سیرحاصل بحث ہو چکی اب دیکھنا یہ ہے کہ کیاتوانائی سیکٹر اور اسی طرح گنے، چینی، گندم،آٹا وغیرہ سیکٹرز کی ٹڈی دل رپورٹیں سرعام آنے کے بعد یہ ہیراپھیریاں۔چوریاں ،سینہ زوریاں،ذخیرہ اندوزیاں وغیرہ یعنی قوم کا گینگ ریپ رک جائے گا؟۔
بالکل نہیں ۔
مادروطن کے معرض وجود میں آنے سے چندروزقبل گیا رہ اگست 1947 کو ہمارے فادر آف نیشن نے ذخیرہ اندوزوں،بلیک مارکیٹ والوں ، رشوت خوروں اور چوروں کو قبل ازوقت متبنہ کرتے ہوئے ببنگِ دہل اعلان فرمایا تھاکہ “نہیں چھوڑونگا !”۔ خود تو وہ دنیا ہی چھوڑ گئے لیکن آج تہتر برس بعدبھی ان کا خودساختہ سیاسی بیٹاعمران خان بھی اپنے ہر پیشروکی طرح یہی نعرہ لگارہا ہے کہ “نہیں چھوڑونگا !”۔
مجھے گوگل کرتے ہوئےقیام پاکستان کے دو سال بعد سنہ 1949 کی پنجاب حکومت کے محکمہ فوڈ سپلائیزکا جاری کردہ ایک اشتہاربھی ملا ہےجو لاہور کے کسی اخبارمیں شائع ہوا تھا۔اس میں بھی یہی نعرہ لکھا ہوا ہے کہ “خبردار ! چوربازاروالو!،ذخیرہ اندوزو ! اوربددیانت ملازمو !”۔ اور بس ۔ غالباً آگے یہ لکھنا بھول گئے تھے کہ “دیکھنا ، کہیں پکڑے نہ جاؤ!”۔
قصہ مختصر یہ کہ تہتر سالہ مبینہ بازاری عورت کا مبینہ گینگ ریپ جاری وساری ہے اور رہے گا ۔ پتہ نہیں اس کے نصیبوں میں بھی کوئی دارالامان لکھا گیا ہے یا نہیں؟ ۔
♣