عدنان حسین شالیزئی
اور بالآخر عارف وزیر بھی شہادت کا آب حیات پی کر امر ہو گیا ۔ عارف وزیر اپنے خاندان کے بڑوں کی راہ پر چلتا ہوا شہید کر دیا گیا ۔ عارف وزیر کا اٹھارواں جنازہ ہے ، جو اسی راستے سے اپنے گھر میں داخل ہوگا ۔ جہاں پہلے گھر کا مرکزی دروازہ ہوا کرتا تھا اور جہاں اس سے پہلے سترہ جنازے داخل ہوئے تھے ۔
کئی سال پہلے علی وزیر کی ماں نے گھر کا مرکزی دروازہ ہٹانے کا حکم دیا تھا کیونکہ اس کے بقول” جب بھی مرکزی دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے تو ایک جنازہ صحن میں لا کر رکھ دیا جاتا ہے ۔ عمومی حالات میں بھی جب کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو دل کی دھڑکن کی رفتار تیز ہوجاتی ہے ۔ اس سے اچھا ہے کہ دروازے کو اکھاڑ کر اس کی جگہ پردہ لٹکایا جائے اور وطن کے ننگ پر شہید ہونے والوں کے تابوت/جنازے دروازہ کھٹکھٹائے بغیر صحن میں رکھے جایا کریں ” ۔
علی وزیر جب عارف وزیر کی عیادت کرنے ڈیرہ اسماعیل خان کے ہسپتال پہنچے تو ساتھی اس سے گلے مل کر رو رہے تھے تو علی وزیر انہیں تسلی دیتے ہوئے کہتا کہ ” ہم نے اپنوں کے اتنے جنازے اٹھا لیے ہیں کہ اب ایسے واقعات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ۔ عارف وزیر کو وطن میں امن مانگنے ، وطن میں دہشت گردوں کے خلاف بات کرنے اور پشتونوں کے وسائل کی بات کرنے پر گولیاں ماری گئی ہیں ۔ جس پر ہمیں فخر ہے ” ۔
ہسپتال کے احاطے میں علی وزیر چہرے پر مسکراہٹ سجائے ، ہشاش بشاش نظر آئے ۔ شاید علی وزیر ریاست کے پالے ہوئے طالبان نامی درندوں کے سامنے کمزور و ناتواں نہیں دکھنا چاہتے تھے ۔ اس سے پہلے بھی عارف وزیر کی شہادت کی غلط خبر سناتے ہوئے علی وزیر نے اپنے اوسان قابو میں رکھے تھے ۔ علی وزیر کے خاندان کے افراد پہاڑ جیسے حوصلے ، ہمت ، شجاعت ، بہادری اور مضبوط جگر اور توانا دل و گردے کے مالک ہیں ۔
علی وزیر کا خاندان اتنے جانی و مالی نقصان اور ہر قسم کی تکالیف کے باوجود طالبان نامی دہشت گردوں کے خلاف اپنے بیانیے سے پیچھے نہیں ہٹا ہے ۔ عارف وزیر ، طالبان نامی درندوں کے ہاتھوں شہید کر دیا گیا ۔ وہی طالبان ، جو وانا اور دیگر علاقوں کے عوام سے بزور دست و بازو بھتہ لیتے ہیں ۔ جو علاقے میں ہر منفی سرگرمی میں ملوث پائے جاتے ہیں ۔ جو معصوم لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ جو ریاست کی عطا کردہ راہداریوں کی اسناد کا غلط ، ناجائز اور غیر قانونی استعمال کرتے ہیں ۔ جو ایک کرنل و میجر رینک کے آفیسر کے تلوے چاٹنے میں عار محسوس نہیں کرتے ۔ جو پشتونوں کیلئے حق مانگنے والوں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں ۔ جو ماہ رمضان 2018 میں علی وزیر پر حملے میں بھی ملوث رہے ہیں ۔
یہ وہی طالبان ہیں ، جن کے بارے میں منظور پشتین نے پشاور جلسے میں واشگاف الفاظ میں کہا ، کہ ” پی ٹی ایم ہر ظلم و جبر کرنے والے کے خلاف ہے ، چاہے وہ ظلم گڈ طالبان کریں یا بیڈ طالبان ، آئی ایس آئی کرے یا پھر ایم آئی ” ۔ عارف وزیر ، پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم سے سب سے زیادہ قید بھگتنے والے انسان ہیں ۔ جب سے پی ٹی ایم وجود میں آئی ہے ۔ عارف وزیر کو بار بار گرفتار کیا جاتا رہا ہے ۔ قید سے رہائی کے بعد عارف وزیر پھر ریاست کی وسائل کی لوٹ مار پر مبنی اور دہشتگرد نواز پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے نظر آتے ۔ جس پر ریاست اسے پھر گرفتار کر لیتی اور عقوبت خانے میں اس پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جاتے لیکن سخت جان ، عارف وزیر باہر آکر پھر سے گرفتار ہونے کا سامان کر لیتے ۔
اپنے حلقے میں عارف وزیر مقبولیت کے آسمان کو چھو رہے تھے ۔ کچھ عرصہ قبل صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے ، جس میں عارف وزیر واضح اکثریت سے جیت گئے تھے لیکن ریاست کے ساتھ جوڑ توڑ نہ کرنے اور کرنل و میجر کی منشاء پر نہ چلنے کی پاداش میں عارف وزیر کی جیت کو شکست میں بدل دیا گیا ۔ آج عارف وزیر حق کی راہ میں شہید ہونے والوں کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے ۔ عارف وزیر نے وطن کے ننگ و ناموس کی خاطر اپنی جان کی قربانی دے کر خود کو تاریخ کے اوراق میں امر کر دیا ہے ۔
عارف وزیر کی شہادت ، دنیا بھر میں قومی خود مختاری کیلئے برسر پیکار اقوام کی جدوجہد میں تیزی لانے کا باعث بنے گی اور بالخصوص پشتون وطن میں دہشت گردی کا کاروبار کرنے والوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی ۔ اس کی شہادت نے پشتون افغان وطن کے ہر باسی کو غم و اندوہ میں مبتلا کر دیا ہے تو وہیں طالبان نامی دہشت گردوں اور پس پردہ ان کے آقاؤں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں بھی آسانی پیدا ہو گئی ہے اور ہر طرف ” ورور دئی ، ورور دئی ۔ طالب د فوجی ورور دئی ” کے نعرے لگ رہے ہیں۔ جس سے پشتون وطن کی عمومی سیاسی بلوغت اور واضح قومی سیاست کا پتہ چلتا ہے ۔
عارف وزیر کی شہادت کے بعد اب یہ کارواں دہشت گردوں کے خاتمے تک اور پشتون وطن میں امن کی بحالی تک نہیں رکے گا ۔ آخر میں خالد یوسف کی غزل
ہم ہو گئے شہید
یہ اعزاز تو ملا اہل جنوں کو نکتۂ آغاز تو ملا ہم کو
جو سن رہا ہے وہ مخبر سہی
مگر محفل میں کوئی گوش بر آواز تو ملا
وہ کاروان شب کا ہوا
آخری چراغ لو شیخ کو یہ منصب ممتاز تو ملا
ہم اولیا نہیں تھے جو دل پھیرتے
مگر اس کو بھی گفتگو کا اک انداز تو ملا
ہم خود ہی بے سرے تھے قصیدہ نہ پڑھ سکے
اس بزم میں اشارۂ آواز تو ملا
خالد یہ رنگ شہر نہ تھا ہم سے پیشتر
صد شکر کرگسوں کو کوئی باز تو ملا