بیرسٹرحمید باشانی
شوگرسکینڈل ایک بڑاسکینڈل ہے، مگراس اتنے بڑے سکینڈل پرنہ کسی کوئی خاص حیرت ہوئی، اورنہ ہی میڈیا میں کوئی طوفان برپا ہوا۔ اب تک اشرافیہ کے کرپشن کے اتنے سکینڈل سامنے آچکے کہ کسی نئے سکینڈل پرکسی کو حیرت یا افسوس نہیں ہوتا۔ لوگوں کا ردعمل ایسا ہوتا ہے گویا وہ اشرافیہ سے یہی توقع رکھتے تھے۔
پاکستانی سماج میں کرپشن ایک پرانا اورگہراروگ ہے۔ ہرشعبہ زندگی میں کرپشن اتنی عام ہے کہ اب اس کو کوئی برائی نہیں سمجھتا، یانا پسندیدگی کی نظرسے نہیں دیکھتا۔ ایسا لگتا ہےکہ اس سماجی روگ کو زندگی کا حصہ اورمعمول سمجھ کرقبول کرلیا گیا ہے۔
یہ درست ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے کرپشن کے زیادہ تربڑے بڑے سکینڈل اورمقدمات اشرافیہ سے ہی متعلق رہے ہیں، مگرکرپشن صرف اشرافیہ تک ہی محدود نہیں، زندگی کےہرشعبے میں پائی جاتی ہے۔
کرپشن بہت ہی نچلی سطح پرایک غریب ریڑھی بان سے شروع ہو کرطاقت وراشرافیہ تک جاتی ہے۔ ماضی میں صاحب اختیاراوربااثر طبقات کی کرپشن کے واقعات اورقصے کہانیوں پرنظر ڈالی جائے تو لگتا ہے کہ جس کا بھی بس چلا اس نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں۔ کسی نے ملکی وسائل پرڈاکہ ڈالا، تو کسی نے براہ راست عوام کو لوٹا، اوریہ سلسلہ جاری ہے۔
یہ درست ہے کہ سماج کا ہرفرد کرپشن میں ملوث نہیں ہوتا۔ لاکھوں کروڑوں ایسے ہیں، جوموقع اوراختیارہونے کے باوجود اپنےدامن کو آلودگی سےپاک رکھتے ہیں۔ دوسری طرف المیہ یہ ہے کہ ایسےلوگوں کی بھی بہت بڑی تعداد ہےجو اپنی اپنی طاقت اوراوقات کےمطابق سماج سے وہ حصہ وصول کر رہا ہے، جس پراس کا کوئی حق نہیں۔ سماج کے نچلےاور پسے ہوئے طبقات بھی اس سے مستثنٰی نہیں۔ ایک ریڑھی والابھی رشوت یا سفارش کے لین دین سےدورنہیں رہ سکتا۔ اسے بھی شاید شہر کے “بائی لاز” کی آڑمیں پولیس یامیو نسپلیٹی کے کسی اہل کارکوکچھ نہ کچھ نذرانہ دینا پڑتا ہے۔ دوسری طرف اسے اپنی بقا کے لیےگاہے رشوت یا کسی با اثرآدمی کی سفارش کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک ایسے سماج میں جہاں بقول شخصےعام آدمی کو پیدائش اورموت کا سرٹیفیکیٹ بھی بغیررشوت یا سفارش کے نہ مل سکتا ہو۔ وہاں انسان شفافیت کے کیا خواب دیکھ سکتا ہے۔
ایک نچلے درجے کا کلرک اپنی حیثیت کے مطابق جورشوت یعنی “چاہے پانی” طلب کرتا ہے، شاہد وہ کوئی بڑی رقم نہ ہو، لیکن جس عام غریب آدمی سے وہ طلب کر رہا ہوتا ہے ، وہ اس کے لیے بہت بڑی رقم ہوتی ہے۔اختیارات کی اس سیڑھی پراوپرچڑھتے چلے جائیں تو صاحب اختیار کی اوقات وحیثیت کے مطابق رشوت، تحفے تحائف یا نذرانے کا تعین ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ اس سیڑھی کی چوٹی پر بیٹھے ہوئےآدمی تک جاتا ہے۔
اگرکرپشن کی ان تہہ درتہہ اورچھوٹی موٹی شکلوں اوراشرافیہ کی بڑی بڑی کرپشن کو ملا کردیکھا جائے تواندازہ ہوتا ہے کہ ہم کرپشن کی اس دلدل میں کس گہرائی تک دھنس چکے ہیں۔دنیا کے مختلف ممالک میں کرپشن کے اعداد وشمارجمع کرنے اور رپورٹ کرنے والی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے گزشتہ سال پاکستان کوایک سواسی ممالک کی فہرست میں ایک سوبیس نمبر پر دیکھایا ہے۔ اس فہرست میں آخری نمبر پرآنے والے ممالک میں صومالیہ، شمالی کوریا، افغانستان، سوڈان اورعراق جیسےملک شامل ہیں۔ دوسری طرف شفاف ممالک میں ڈنمارک، سویڈن، ناروے، نیوزی لینڈ جیسے ممالک سرفہرست ہیں۔
کرپشن ہے کیا ؟ دنیا میں مختلف لوگ کرپشن کی مختلف تعریف کرتے ہیں۔ اسی اختلاف رائے کی وجہ سے ہرسال مختلف ممالک ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے پیش کردہ رپورٹ پراعتراض اٹھاتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ یہ رپورٹ تیارکرنے میں جوطریقہ کار اور پیمانے استعمال ہوتے ہیں، وہ حقائق کی درست عکاسی نہیں کرتے۔ تاہم اس اختلاف رائےکے باوجود دنیا میں اس پرایک عمومی اتفاق بھی موجود ہے۔
دنیا کی متفقہ تعریف کےمطابق جب کوئی اپنے ذاتی فائدے کے لیے اپنے اختیاراورطاقت کا ناجائزاستعمال یا کسی کا بھروسہ اوراعتماد توڑ کر کوئی ذاتی فائدہ حاصل کرتا ہے اس کو کرپشن کہا جاتا ہے۔ یہ کام کوئی شخص بھی اپنی سیاسی وسماجی حیثیت یا اثر ورسوخ کے ناجائزاستعمال سےکرسکتا ہے۔ یاپھرایک سرکاری اہل کار، وزیریا مشیراپنے سرکاری اختیارات کو کسی ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرکے کرتا ہے۔
کرپشن کی تاریخ پرانی ہے۔ اس کا آغازنجی ملکیت کےآغازاور اختیارات کی تقسیم کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ کرپشن کےآغاز کے ساتھ ہی انسان نے اس کو ایک سنگین سماجی برائی اورجرم کے طور پرتسلیم کر لیا تھا۔ کرپشن کے نقصانات کا اتنی کثرت سے ذکرہوچکا کہ دنیا میں بچے بچے کو یہ نقصانات ازبرہیں۔ پھر بھی اسے جتنی بار دہرایا جائےکم ہے۔ انسانی زندگی کا ہرسنگین مسئلہ کرپشن کے بطن سے جنم لیتا ہے۔
جدید دورمیں کرپشن کا پہلا شکارجمہوریت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دانشورکرپشن کوجمہوریت کا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جمہوریت اور کرپشن ایک دوسرے کی ضد ہیں، اوریہ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ کرپشن کےعمل سےایک “شیطانی چکر” شروع ہوتا ہے۔ کرپشن سب سے پہلےجمہوری اداروں کےاندرسرنگ لگاتی ہے۔ پھریہ جمہوری اداروں کو یا تو بالکل ہی سبوتاژ کردیتی ہے۔ یا ان کو مجروح کرکے کمزوراور بےبس کردیتی ہے۔ کمزورجمہوری ادارے کرپشن سے لڑنے کی صلاحیت کھودیتے ہیں۔ جوں جوں کسی ملک میں کرپشن بڑھتی جاتی ہے توں توں قانون کی حکمرانی محدود ہوتی جاتی ہے۔
قانون کی حکمرانی محدود ہونے کا اظہارمختلف طریقوں سے ہوتا ہے۔ سماج میں سول سوسائٹی کےلیے جوجگہ ہوتی ہے، وہ آہستہ آہستہ تنگ ہونی شروع ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ سول سو سائٹی کا کرداربالکل ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اس کی آواز دبا دی جاتی ہے۔ اس افسوناک صورت حال کا دوسرا شکارمیڈیا ہوتا ہے۔ قانون کی حکمرانی کی عدم موجودگی میں میڈیا کو دھونس، دھاندلی، خوف یا پھرلالچ دیکرقابوکرلیا جاتا ہے، اور اس کی آزادی غضب ہو جاتی ہے۔
نتیجے کے طورپرکرپشن کے وہ سیکنڈل منظرعام پرآنا بند ہوجاتے ہیں، جن میں بااثرطبقات ملوث ہوتے ہیں۔ اوراگرکوئی سکینڈل آبھی جائے تواس پرزیادہ شورنہیں پڑتا، اوریہ بہت جلد پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ یہ کرپشن اورجمہوریت کے درمیان تعلق کا فلسفہ ہے۔ ایک مضبوط اورصحت مند جمہوریت میں کرپشن کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ چنانچہ کرپشن کوسماج میں اپنی بقا کے لیے جمہوریت پرپہلا حملہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ کرپشن اورجمہوریت کے درمیان تضاد کا “لنک” ہے، جو آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے۔
اس پریشان کن لنک کو سمجھنے کے لیے ہنگری کی مثال کو بطور“کیس سٹڈی” لیاجاسکتا ہے ۔ کرپشن کے باب میں عالمی درجہ بندی میں گزشتہ چھ برسوں کے دوران ہنگری کے ریٹنگ سکورمیں آٹھ سےنوپوائنٹ کا فرق پڑاہے۔ اس فرق کا عکس اس ملک میں انسانی آزادیوں اورجمہوریت پرواضح طورپردیکھائی دیتا ہے۔ ہنگری کے بارے میں فریڈم ہاوس کی رپورٹ یہ ہے کہ سیاسی حقوق کے باب میں سن1999 کےبعد یہ ملک نچلی ترین سطح پرہے۔ ایک صحت مند جمہوریت اورسرکاری سطح پرکرپشن کے خلاف جنگ میں تعلق ہنگری کی مثال سےواضح ہوتا ہے۔ جہاں جمہوریت کمزورہوتی ہے، وہاں کرپشن زیادہ مضبوطی سے جڑیں پکڑتی ہے۔ اس صورت حال کومطلق العنان اورپاپولسٹ لیڈرزاپنے فائدے لیےاستعمال کرتے ہیں۔
جمہوریت کو مجروح کرنے کےعلاوہ کرپشن معاشی ترقی کے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے۔ کسی بھی بدعنوان سماجی ومعاشی ڈھانچے کے اندردولت کی شفاف اورمنصفانہ تقسیم نہیں ہوسکتی۔ ایسےسماج میں ایک طرف تویہ ہوتا ہے کہ طاقت وراورباثرطبقات کی دولت میں بے تحاشااضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف غریب طبقات کی غربت اوربے چارگی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس سلسلہ عمل میں سماج میں پہلے سے موجودامیراورغریب طبقات کےدرمیان خلیج مزید گہری ہو جاتی ہے، اورعدم مساوات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے مجموعی طورپرغربت بڑھتی ہے۔ سماجی ناہمواریوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سارے عمل سے آگے چل کرماحولیات سمیت ارد گرد کی ہر چیز پرمنفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
کرپشن روکنے کاواحد راستہ جمہوریت کے دروازے سے ہوکرگزرتا ہے۔ جمہوری ادارے مضبوط ہوتے ہیں توکرپشن کے امکانات کم ہوتے جاتے ہیں۔ جمہوریت کی مضبوطی اورکرپشن کے خاتمے کے لیے اظہاررائے کی آزادی اور” فریڈم آف انفارمیشن” ناگزیرہے۔ جس کی وجہ سے فیصلہ سازاوربا اختیارقوتیں شفاف اورمنصفانہ پالیسیوں پرعمل کرنے پرمجبورہوتی ہیں۔ دنیا کے دس شفاف ترین ممالک میں قدرمشترک کیا ہے ؟ ان ممالک میں جمہوریت مضبوط اورصحت مند ہے۔ میڈیا آزاد ہے۔
♦