رضوان عبد الرحمٰن عبد اللہ
بوجہ کورونا وائرس مہینوں سے چھائی یژمردگی اور اس پر طیارہ گرنے کا اندوہناک حادثہ، عید کی خوشیوں تو تہہ بالا ہو ہی چکی تھیں، مزید جلتی پر تیل چھڑکنے کا خدشہ ’’چاند چڑھانے‘‘ کی حسب روایت مہم سے تھا۔
اس بار کا متوقع ٹاکرا ننگی آنکھ سے دیکھنے والوں اور ملک کے کہلائے جانے والے ملحدوں کے درمیان تھا۔ متحارب گروپس، مفتی منیب الرحمان اور فواد چودہدری کے صورت میں اپنے پہلوان اتار چکے تھے۔ شائقین بھی اس ” ٹھا پھا ” سے رگڑا کھانے کے لئے ذہنی طور پر تیار تھے، اس سے پہلے کہ اشارہ ملنے کے ساتھ یہ ہاتھا پائی نزاع کی شکل اختیار کر لیتا۔۔۔
شاید قدررت کو ہی قوم کی حالت زار پر رحم آ گیا، قدرت نے فریقین کی تشنگی بجھانے کے لئے کچھ اس طرح کا بندوبست کیا کہ دونوں امیدوار ہی ایک دوسرے کو دھول چٹانے سے بچ گئے۔ فواد چوہدری صاحب جیت کا سہرا پہنتے وقت اپنی ’’سائنس‘‘ لڑانے والی حکمت پر نازاں رہے جبکہ مفتی صاحب بھی بطور فاتح اپنا بھرم رکھنے میں کامیاب ہو گئے کہ اندھوں کو “بینائی” دینے کی وجہ وہ بنے۔ اور یوں اس ملی جلی کاوش کی بدولت کراچی تا خیبرکے مکین خلاف معمول ایک ساتھ ہی اپنا مذہبی تہوار منانے میں کامیاب ہو گئے۔
موازنہ کیا جائے، تو یہ جدل ہم پلوں کے درمیان ہر گز نہیں تھا، کہاں دوربین سے آنکھیں ٹکائے نحیف جسامت والے مفتی صاحب اور کہاں سائنسی زرہ بکتر میں ملبوس فربہ ڈیل ڈول والے چوہدری صاحب۔ لیکن یہ بھی قطعا زیادتی ہو گی اگر ہم اتحاد ویگانگت کے اس ’’سنگین‘‘ مظاہرے میں قصور صرف فواد چوہدری کی ’’سائنس‘‘ کو ٹھہرائیں، کیونکہ مساوی ستائش کے حقدار مفتی منیب صاحب بھی ہیں۔ اللہ بھلا کرے مفتی صاحب کا جنہوں نے چوہدری صاحب سے رکھی عداوت کو صرف ان کی ذاتی’’حیثیت‘‘ اور ان کے ’’نماز روزوں‘‘ تک ہی محدود رکھا، ورنہ تو ان کو کون روک سکتا تھا اگر وہ سائنس کو بھی بیچ میں لے آتے؟
دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں یہ ایک جان جوکھم بحث ہے کہ رویت ہلال کے معاملے میں سائنس، دین کے کام میں مداخلت کرتا ہے یا دین سائنس کے کام میں آڑے آتی ہے، کیونکہ کہ اگر یہ مباحثہ آمنے سامنے بیٹھ کر کرنے کی کوشش کی جائے تو صد فیصد یقین ہے کہ تھوڑی دیر بعد غیر روایتی امیدوار، اپنے روایتی مقابل کے ’’ہتھے‘‘ چڑ جائے گا۔ تو اس نقطے سے چشم پوشی کرتے ہوئے کہ رویت ہلال کمیٹی کو قمری کلینڈر میں کیوں “فرسودگی” نظر آتی ہے، سو ہم غورو فکر کا دائرہ رویت ہلال کمیٹی کی مقصدیت تک محدود رکھتے ہیں۔
ایوب خان کے قائم کردہ اس ادارے کی بنیاد رکھنے کی وجہ تو پورے ملک میں ایک دن کا ہی روزہ اور ایک دن کی ہی عید کا تعین کرنا تھا۔ تو کوئی بتا سکتا ہے کہ کتنی ایسی عیدیں گزریں ہیں جس ہر رویت ہلال کی شہادت کی وجہ سے یہ فریضہ خوش اسلوبی سے نمٹا ہے؟ کیا شہادتوں کی اس دوڑ میں بحثیت منتظم سرکار کا فرض نہیں کہ خلاف ورزی کرنے والے کسی ایک فریق کے خلاف کاروائی کرئے؟ اور اگر اس ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس ہی ’’روندوانی‘‘ مقصود ہے تو ’’سفید ہاتھی‘‘ پر سالانہ 36 سے40 لاکھ روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ نیت میں گھاس کی حفاظت کا جذبہ ہے تو منتظم کے پاس اس کا واحد حل گھاس کے گرد باڑ لگا کر اس پرچوکنا ہو کر پہرہ دینا ہے۔!
یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اس بار ہاتھیوں نے دلچسبی نہیں دکھائی یا پہرے دار کو اونگھ نہیں آئی۔ لیکن دونوں صورتوں میں فواد چوہدری داد کے مستحق ہیں۔ آخر اس ملک میں کوئی تو ایسا ہے جس میں اتنی ہمت ہے کہ وہ ان 80، 80 سال کے بابوں کو ٹوک سکیں، جو اونچی عمارتوں کی چھتوں پر چڑھ کر آسمان ٹٹولنے جیسی حرکات میں پائے جاتے ہیں۔
♦