عفیفہ ورک
ہر انسان خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو فرقے یا کلاس سے اپنے عقائد کو لے کر ایسے حالات سے ضرور گزرتا ہے جہاں بہت سے شکوک وشبہات اسکے مذہبی نظریات پر بڑے بڑے سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔ عموماً ایسی نوبت بغاوت کے سبب سر اٹھاتی ہے۔جہاں بہت سے موضوعات پر گرما گرم بحث معمول ہے وہاں “مرتد ” کے لفظ کو لیکر تکرار عام بات ہے۔
اچھے خاصے عقلمند لوگ بھی طنزیہ کہتے ہیں اسلام مکمل ضابطہ حیات ہو گا مگر اس میں انٹری ممکن ہے واپسی کا راستہ نہیں ملے گا۔گویا مذہب نہ ہوا کوئی گینگ ہوا جس سے الگ ہو گے تو گینگ کے دیگر کارندے ڈھونڈ کر جان سے مار دیں گے۔ایسی باتوں سے گھٹن ہونا لازم ہے، لاشعوری طور پر سوچ آئے گی کہ مذہب اچھا برا چننے کا اختیار دیتا ہے تو مذہب کا بھی دے دے آخر قیامت کا دن منتظر ہے کافروں کا سخت عذاب کی نوید لیے ہوئے۔
قرآن مسلمانوں کی زندگی کا محور ہونے کے ساتھ ساتھ پہلا اور بنیادی ذریعہ ہے جس سے اسلامی قوانین کی رہنمائی لی جاتی ہے۔کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر براہِ راست نازل ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ عین قرآن تھی جس کی پیروی پوری امہ پر فرض ہے۔اس لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ مرتد کے متعلق قرآن میں کیا احکامات ہیں۔ میں یہاں واضح کردوں کہ میں کوئی معلمہ نہیں نہ بڑی عالم دین محض اک طالب علم ہوں جس نے قرآن کو ثواب کی نیت سے ہٹ کر یہ جاننے کی کوشش میں پڑھا کہ آخر قرآن میں گفتگو کیا ہوئی ہے۔اس سلسلے میں میرا موقف اٹل نہیں اسی لیے مندرجہ بالا عنوان میں “شاید ” کا لاحقہ جوڑا ہے۔
سورہ البقرہ 108: ” کیا تم چاہتے ہو اپنے پیغمبر سے اس طرح کے مطالبے کرو جس طرح کے مطالبے پہلے موسی سے کیے گئے تھے اور جس شخص نے ایمان کے بدلے کفر اختیار کیا یقیناً سیدھے راستے سے بھٹک گیا“۔
سورہ البقرہ 161:” جو لوگ کتاب اللہ کا انکار کرتے ہیں اور انکار پر ہی مرے ان پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور سب انسانوں کی لعنت اور وبال کے“۔
سورہ البقرہ217: ” اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر کر مرتد ہو جائے اور کافر مرے تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہو جائیں گے اور یہی لوگ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے” ۔
سورہ آل عمران 90: ” جو لوگ ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے پھر کفر میں پڑے رہے ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں ہو گی یہ لوگ کتاب اللہ سے گمراہ ہو گئے“۔
سورہ آل عمران 106: ” جس دن بہت سے چہرے چمکتے ہوں گے اور بہت سے سیاہ ہونگے تو جن کے چہرے سیاہ ہوں گے تو ان سے اللہ فرمائے گا کیا تم ایمان لا کر کافر ہو گئے تھے؟ اب اس کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو “۔
سورہ آل عمران 177: ” جن لوگوں نے ایمان کے بدلے کفر خریدا وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے،ان کو دکھ دینے والا عذاب ہو گا” ۔
سورہ النساء 137: ” جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہو گئے،پھر ایمان لائے پھر کافر ہو کر کفر میں آگے بڑھتے گئے یعنی بار بار مرتد ہوئے ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ان کو اللہ بخشے گا نہ سیدھا راستہ دکھائے گا“۔
سورہ المائدہ 54: ” اے ایمان والو اگر تم سے کوئی اپنے دین سے مرتد ہو جائے گا تو اللہ ایسے لوگ پیدا کر دے گا جن سے اللہ محبت رکھے اور وہ اللہ سے محبت رکھیں۔“۔
سورہ ابرہیم 28: ” کیا تم نے ایسے لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی کتاب کو ناشکری سے بدل دیا اور اپنی قوم کو تباہی کے گھڑے میں جا اتارا۔” ۔
سورہ المنفقون03: ” یہ پہلے تو ایمان لائے پھر کافر ہو گئے اب ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی پس اب یہ اپنا اچھا برا سمجھتے ہی نہیں۔“
اس موضوع پر لوگ اکثر سورہ آل نساء آیت 98کا حوالہ دیتے ہیں جس میں یہ جملے بھی استعمال ہوئے ” اگر وہ مرتد ہو کر مقابلے پر آ جائیں تو ان کو پکڑ لو اور جہاں پاؤ قتل کر دو اور ان میں سے کسی کو اپنا رفیق اور مددگار نہ بناؤ“۔
اسی آیت سے اگلی آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ “اگر ایسے لوگوں سے صلح نامہ ہو جائے ،اوروہ لڑنے سے باز آ جائیں تو رک جاؤ، تمہاری طرف صلح کا پیغام بھیجیں تو قبول کر لو ، اللہ نے تمہیں دست درازی کی اجازت نہیں دی“۔
پس ثابت ہوا ہماری روایات میں جو دین ہم نے اخذ کر لیا ہے اس میں ہر ” مرتد کی ایک سزا ،سر تن سے جدا ” ہی سچ ہے مگر قرآن کی رو سے دیکھا جائے تو یہ ان کا اور خدا کا ذاتی معاملہ ہے۔ تاہم قرآن اتنی چھوٹ دیتا ہے ایسے مرتد گروہ بنا لیں ،ریاست کے باغی ہو جائیں یا مزاحمت پر آمادہ ہوں تو قتل جائز ہے وگرنہ دین میں جبر نہیں کیونکہ طاقت کے زور پر منافق تو پیدا کیے جا سکتے ہیں مسلمان نہیں۔
♦