پاکستان کے طبی ماہرین اور سیاست دانوں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو افسوس ناک قرار دیا ہے، جس میں عدالت عظمی نے ملک بھر کے شاپنگ سینڑز اور مارکیٹوں سمیت کئی سیکٹرز کو کھولنے کا حکم دیا ہے۔
ناقدین کے خیال میں ایسے فیصلے حکومتی اختیارات میں مداخلت ہیں کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ دنیا بھر میں پالیسی بنانے اور نافذ کرنے کا کام حکومتوں کا ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کل بروز پیر دیا تھا، جسے حکومتی حلقوں نے سراہا تھا لیکن ملک میں کئی دوسرے حلقوں نے اس فیصلے پر نکتہ چینی کی تھی اور یہ تنقید اب بھی جاری ہے۔
دوسری طرف سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد پاکستان بار کونسل کے نائب صدر نے عابد ساقی نے پریس ریلیز جاری کیا ہے کہ اگر ملک میں کرونا وائرس کا کوئی خطرہ نہیں تو پھر تمام عدالتیں کھولی جا ئیں تاکہ لوگوں کو انصاف کی فراہمی کا سلسلہ معطل نہ ہو۔
واضح رہے کاروبار بند کرنے یا ملک میں لاک ڈاؤن کےحوالے سے پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اختلافات رہے ہیں۔ عمران خان کی وفاقی حکومت لاک ڈاؤن یا کاروبار کو بند کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہی ہے جبکہ سندھ کی حکومت نے اس مسئلےپر پہلے ہی دن سے سخت موقف اپنایا ہوا ہے۔
طبی ماہرین پہلے ہی جزوی لاک ڈاؤن پر، جسے وفاقی حکومت نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کا نام دیا تھا، پر یشان تھے۔ جزوی لاک ڈاؤن کے بعد ملک میں کورونا کے کیسز میں بہت تیزی آئی ہے اور طبی ماہرین کا خیال ہے کہ اب سپریم کورٹ کے فیصلےکے بعد سماجی فا صلہ بالکل ختم ہو جائے گا، جس کے بعد کورونا کے کیسز کا ایک سیلاب آسکتا ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسویسی ایشن لاہور کے صدر پروفیسر ڈاکٹر اشرف نظامی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا،” کورونا نے پوری دنیا کے نظام صحت کی کمزوریوں کو آشکار کر دیا ہے اور اس نے ہمارے ٹوٹے پھوٹے نظام صحت کا پول کھول دیا ہے۔ ملک میں کورونا کے کیسز پہلے ہی چوالیس ہزار سے زائد ہو چکے ہیں اور یہ اس کے باجود ہے کہ ٹیسٹ کم ہورہے ہیں۔ اب اس فیصلے کے بعد ممکنہ طور پر کیسز اور شرح اموات میں اضافہ ہوگا اور اس کے معیشت پر وہ اثرات مرتب ہوں گے کہ جس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے“۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو طبی ماہرین کا مشورہ لینا چاہیے تھا۔ “لیکن معزز عدالت نے کچھ نوکر شاہی کے افراد کو بلا لیا، جو پہلے ہی لاک
ڈاؤن ختم کروانا چاہتے تھے۔ تو حکومت نے سپریم کورٹ کا کاندھا استعمال کر کے لاک ڈاؤن ختم کرایا ہے، جس سے آپ کا نظام صحت بیٹھ جائے گا اور نہ صرف میڈیکل کمیونٹی بلکہ پورے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی“۔
پی ایم اے کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالغفار شورو کا کہنا ہے کہ اس فیصلے نے میڈیکل کمیونٹی کی مشکلات کو بڑھا دیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “میری خیال میں کیسز تیزی سے اوپر جائیں گے اور شرح اموات میں اضافہ ہوگا، جس پر لوگ متشدد ہوں گے کیونکہ اسپتالوں میں اتنی سہولیات نہیں ہیں۔ سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے مریضوں کو تکلیف ہوگی اور ان کے لواحقین کسی مریض کے مرنے پر پر تشدد کارراوئیاں کریں گے، جیسا کہ انہوں نے حال ہی میں جناح اسپتال میں کیا“۔
پی پی پی کے رہنما تاج حیدر کا کہنا ہے کہ دنیا میں اس وقت ایک طرف وہ لوگ ہیں جو انسانوں کی جان بچارہے ہیں اور دوسری طرف وہ ہیں جو منافع اور کارپوریٹ سیکٹر کو بچا رہے ہیں۔ اور اس فیصلے کا تاثر یہ جائے گا کہ ملک میں کارپوریٹ سیکٹر اور منافع کو بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ویت نام میں انسانی جانوں کو ا حتیاط اوردیکھ بھال سے بچایا گیا۔ وہاں انٹری پوائنٹس بند کئے گئے لیکن ہمارے ہاں یہ پوائنٹس کھولے گئے۔ میرے خیال میں سپریم کورٹ کو طبی ماہرین کو طلب کرنا چاہیے تھا اور ڈاکٹروں سے پوچھنا چاہیے تھا“۔
ملک میں کئی حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ فیصلہ انتظامی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ نیشنل پارٹی پنجاب کے صدر ایوب ملک نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “دنیا پھر میں حکومتیں فیصلے کرتی ہیں اور ان کے غلط فیصلوں پر عوام نہ صرف تنقید کرتے ہیں بلکہ انہیں الیکشن میں مسترد بھی کرتے ہیں لیکن کسی ملک میں بھی عدالتیں آکر اس طرح انتظامی فیصلے نہیں کرتیں“۔
ان کا کہنا تھا کہ کل اس فیصلے کے نتیجے میں اگر اموات بڑھتی ہیں تو ذمہ داری کون لے گا۔ “اگر حکومت ایسا فیصلہ کرتی تو لوگ اس پر تنقید کرتے لیکن اگر اب حالات خراب ہوئے تو لوگ حکومت پر نہیں بلکہ عدلیہ پر انگلیاں اٹھائیں گے جو اس معزز ادارے کے لیے مناسب نہیں ہے لہٰذا ہمیں آئین میں دیے گئے اختیارات کو پیش نظر رکھنا چاہیے“۔
DW/Web desk