طارق جمیل کا قضیہ اور ہماری صحیح اسلام کی جستجو

عائشہ صدیقہ

جس نے جمال الدین افغانی، حسن البناء یا مولانا ابوالاعلی مودودی کو پڑہا ہے وہ طارق جمیل کو مولانا کہتے ہوئے ہچکچائے گا۔ طاہر اشرفی ، جو طارق جمیل سے زیادہ متاثر نہیں ، انہیں خطیب کہتے ہیں۔  طارق جمیل اسی وصف پر پورا اترتے ہیں اور انہیں خطیب کہنا ہی زیادہ موزوں ہے۔ ہم اوّل الذکر اسلامی علماء سے متفق ہوں یا ان سے اختلاف کریں لیکن کوئی بھی ان کی علمی خدمات سے انکار نہیں کر سکتا۔ جبکہ طارق جمیل نے ہمارے اسلام کے علم میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔

میرا طارق جمیل سے تعارف 2013 میں حج کی ادائیگی کے دوران ہوا۔ میرے حج کے منتظم نے جنید جمشید کے ساتھ طارق جمیل کو بھی اجرت پہ ساتھ لے لیا تاکہ وہ میدان عرفات میں مبلغ کے فرائض سر انجام  دیں ۔ مسلمانوں کا کامل عقیدہ ہے کہ  میدان عرفات میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔  پہلی دفعہ سننے میں  مجھے طارق جمیل دوسرے ملاؤں کی نسبت کچھ وسیع القلب لگے۔

میدان عرفات میں آنسووں کی جھڑی کی ساتھ مولانا نے بیان کیا کہ بہوکے فرائض میں یہ نہیں کہ وہ اپنے سسر یا ساس کو مانگنے پر پانی پلائے۔ جبکہ یہ بیٹے کا فریضہ ہے۔ ہاں اخلاص میں بہو ایسا کر سکتی ہے۔  انہوں نے یہ بھی کہا شوہر کا فرض ہے کہ بچے کو دودہ پلانے کیلئے دائی کا انتظام کرے کیونکہ بچے کو دودھ پلانا بیوی کے فرائض منصبی میں شامل نہیں۔ ایسا لگا کہ وہ روایتی ادوار کو جدید طریقے سے دیکھ سکتے ہیں ۔ اسی دوران  بہت سی نوجوان خواتین طارق جمیل کی گفتگو کی طرف متوجہ ہوئیں۔

پاکستان واپس آنے پر میں نے خالد مسعود ( سابق اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ اور اسلام پہ چند مستند کتابوں کے مصنف) سے طارق جمیل کے بیان کی وضاحت چاہی ۔ ان کے مطابق وہ روایت جس کا موصوف نے حوالہ دیا عورت کو با اختیار کرنے کی بابت نہیں بلکہ شادی کے عقد کا حصہ ہے۔ مباشرت کے بدلے عورت کو چند حقوق حاصل ہیں جس میں خاوند کے خاندان کی دیکھ بھال اس کے فرائض میں شامل نہیں۔ لیکن اس روایت کے مطابق عورت کی صحت اور تندرستی اس کا اپنا ذمہ ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ طارق جمیل اچھے داستان گو ہیں جیسا کہ کبھی چھوٹے اور خوابیدہ  قصبات میں پائے جاتے تھے۔ ان کا فن یہ ہے کہ قصے کہانیوں سے لوگوں کو لہھا کے اسلام کی طرف مائل کیا جائے۔ بلکہ  یوں کہنا مناسب ہے کہ مولانا کے بتائے ہوئے اسلام کی طرف مائل کیا جائے۔  گو ان کی گفتگومیں  اسلامی روایت کا ذکر ہوتا ہے لیکن اس میں گہری علمی بات نہیں ہوتی بلکہ جیسے پان شاپس پہ اکٹھے ہوئے لوگوں کی گفتگو۔

فن خطابت اور شاندار یادداشت کی بدولت وہ ان کہانیوں جو کو شاید انہوں نے تبلیغی جماعت کے نصاب میں شامل قصص البیان میں پڑھی ہیں حافظہ کے زور پہ دوہرا سکتے ہیں اور روانی سے آدم سے لیکر محمد (صل اللہ علیہ وسلم ) کے بیچ کے تمام آباء کے نام بیان کرسکتے ہیں۔ دوسرا محمد (صل اللہ علیہ وسلمکے زندگی کے  واقعات کو ڈرامائی انداز میں بیان بھی کرتے ہیں جو کہ اگر عام آدمی کرے تو اس پر توہین رسالت کا الزام لگ جائے۔

حج کے دوران طارق جمیل کی سیلز مین شپ کا مشاہدہ  کرنے کا موقعہ ملا۔ انہی کی طرح عامر لیاقت حسین بھی  ایک اور حج منتظم کے ساتھ آئے ہوئے تھے ۔ ان مولانا حضرات کے ذمے حاجیوں کے جذبات کو پر سوز کرنا تھا تاکہ وہ جذباتی ہو کر کچھ آنسو بہا لیں اور یوں شاید انہیں اپنے پیسوں کے حلال کرنے کا احساس ہو سکے۔( یہ خواص کا گروپ وی آئی پی اور ڈیلکس جج کرواتا ہے جس پہ تقریباً 1.5 ملین پاکستانی روپے لاگت آتی ہے۔) حج کے دوران یہ اندازہ ہوا کہ طارق جمیل غریب اور کم آمدنی والے حجاج کو اپنے خطاب سے نوازنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔

بعد میں میرے  جنوبی پنجاب کے کچھ دوستوں کی بابت معلوم ہوا کہ کس طرح مبینہ طور پہ طارق جمیل نے اپنے آبائی قصبے تلمبہ سے گانے والیوں ، موسیقاروں اور رقاصاؤں کو ان کے آبائی گھروں سے بے دخل کیا اور اس جگہ اپنی جائیداد  بنائی ۔ اس لئے تعجب نہیں کہ مولانا کوعورت کے برہنہ جسم اور جنسی کارکنوں سے نفرت ہے۔

ان سطروں کو لکھتے ہوئے مجھے جنوبی پنجاب میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی پہ اپنی  تحقیق کے دوران کے دن یاد آگئے۔ نوجوانوں کی بصیرت کو قریب سے جانچنے کا ایک پیمانہ یہ بھی تھا کہ ان کے نظریات کو سمجھا جائے۔ تحقیق کا محور جنوبی پنجاب اور خاص کرکے  ملتان تھا جو طارق جمیل کا آبائی علاقہ بھی ہے۔  نوجوانوں  سے یہ سوال کیا جاتا تھا کہ ان کا آئیڈیل کون ہے۔ اور جان کر صدمہ ہوا کہ نوجوانوں کوئی آئیڈیل نہیں رکھتے تھے اور ان میں مدرسوں کے طلباء بہی شامل تھے۔ یہ نتیجہ اس بات کا ثبوت تھا کہ تاریخ اسلام کو بنیادی طور پہ پڑھایا ہی نہیں جاتا تاریخ اسلام کو عقلی بنیادوں پہ پرکہنے کی بات تو چھوڑئیے ۔

معاشرے کو مولوی کے بیانیے کی ضرورت ہے

ہمارا مسلۂ طارق جمیل جیسے لوگ نہیں کیونکہ انہوں نے اپنی بنیاد  پرستی کو چھپایا نہیں ۔ دراصل یہ مسئلہ معاشرے اور ریاست کا ہے جنہیں ہر صورت مولوی اور مذہب  کا بیانیہ چاہیے۔ طارق جمیل  اور ان جیسے بہت سے دیگر اشخاص ایک اچھے دوکاندارکی  طرح ہیں جو جانتے ہیں کہ معاشرے کو مذہب کی کتنی ضرورت ہے۔ اور یہاں بات غریب عوام کی ضرورت کی نہیں بلکہ پڑھے لکھے متوسط طبقے کی ہے ۔وہ یہ جانتے ہیں کہ معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ جو کہ خطابت کی قیمت ادا کر سکتا ہے صحیح اسلام کی تلاش میں  ہے۔  صحیح اسلام وہ ہے جو حسب ذائقہ اور حسب ضرورت اپنایا جا سکے۔

دیکھنے میں طارق جمیل  کھلے ذہن کے آدمی لگتے ہیں اس لئے ان کے سامعین مولانا کی قدامت پرستی کو سمجھنے سے قاصر ہیں بالکل  جیسے وہ مولوی طاہر اشرفی کی بنیاد پرستی سمجھ نہیں پاتے۔ بہت سارے پڑ ھے لکھے اور لبرل طاہر اشرفی سے اس لیے محبت کرنے لگے تھے کہ وہ سلمان تاثیر کے حق میں بولے ۔ لوگوں کو یہ سمجھ ہی نہ آئی کہ باقی اوقات میں طاہر اشرفی اور بہت کچھ کہتے اور بیچتے ہیں۔

طارق جمیل کا فن یہ ہے کہ وہ کوک سٹوڈیو کی طرح شریعت کو نیا کرکے لوگوں کو اس طرف راغب کرتے ہیں اور درگزر کی بات کرتے ہیں تاکہ لوگ مذہب کی طرف مائل ہوں۔  یہ وہی طرز عمل ہے جو کچھ صوفیوں جیسے  بہا الدین زکریا نے اپنایا تھا۔  اور بہا الدین زکریا کی طرح طارق جمیل میں یہ صلاحیت ہے کہ ایوان اقتدار میں اثر و رسوخ رکھیں اور ان کی نفسیاتی کمزوریوں سے فائدہ اٹھائیں۔ وہ اتنے تو وسیع القلب ہیں کہ تفرقہ پرستی کی بات نہیں کرتے۔  خواتین کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کے حقوق بے شمار ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ خاوند کے جسم پر اگر بے شمار زخم بھی ہوں اور وہ بیوی کو ان کو چاٹنے کو کہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ ان کو چاٹے۔

ان کا ایک پسندیدہ  موضوع مشترکہ خاندانی نظام بھی ہے۔ وہ اکثر کہتے پائے جاتے ہیں کہ یہ نظام شادیوں کو ناکام بنا رہا ہے کیونکہ دولہا کے والدین دلہن سے زیادتی کرتے ہیں۔ لیکن ایک ہی سانس میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نوجوان لڑکیاں خاموشی سے یہ سب برداشت کریں اور جب ان سے زیادتی ہو وہ اس کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھائیں کیونکہ، خاموشی سے بہتر کوئی اور عمل دل نہیں جیت سکتا۔

شاید میری نانی نے میری ماں کو بھی یہی سمجھایا ہو۔

مگر طارق جمیل کا جادو اس لئے ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ معاشرے کو کیا بات سننے کی ضرورت ہے۔  اصل قضیہ بطور ریاست اور معاشرے کے ہمارے طرز عمل کا اور ترجیحات کا ہے۔ اس بات پہ تو بحث ہوسکتی ہے کہ نظریہ پاکستان کی بنیاد تھیوکریسی تھی یا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اس لیئے بنا تھا کہ برصغیر کے مسلمان اپنی ثقافتی قدروں کے مطابق آزادی سے رہ سکیں۔ مذہبی عقائد بھی ثقافت کا حصہ ہوتے ہیں۔

ہم جتنا بھی جناح کی مغربی رہن سہن رکہنے والی ، سگار اور شراب پینے والی شخصیت کو اجا گر کرنے کی کوشش کریں لیکن  یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا کہ ریاست اور اسکی ثقافت کے بنیادی اصول مذہبی اقدار پر مبنی تھے نہ کہ مغربی جدیدیت پر۔ مذہب کے ساتھ جڑی ہوئی ثقافتی اقدار اور مغربی جدیدیت میں بہت فرق ہے۔ تاریخی طور پر مغربی سیاست اور معاشرتی نظام نے بے شمار جنگیں لڑ کر یہ اخذ کیا کہ خلافت ملوکیت پیدا کرتی ہے۔ ان معاشروں میں مذہب تو ہے لیکن سائنس اور عقلیت پسندی کو ترجیح دی جاتی ہے۔

 پاکستان کے ریاست سازی کے ابتدائی دنوں میں  اسلامی ریاست بنانے کی کوشش تیز ہو گئی تھی۔  بہت سے زعما ء کا جس میں محمد علی جناح بھی شامل تھے اسلامی ریاست بنانے کا اپنا اپنا تصور تھا۔ مثلاً جماعت احرار کا اصرار تھا کہ سر ظفر اللہ خان ،جو ایک احمدی تھے، کی  وزیر خارجہ کے اعلی عہدے پر تعیناتی نہیں ہونی چاہیے۔ دوسری طرف سر ظفر اللہ خان نے اپنی بارہ مارچ 1949  کو دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔  دوران بحث عیسائی اور ہندو اراکین کی بھر پور مذمت ہوئی جو 1949 کی قرارداد مقاصد کی منظوری کی مخالفت کر رہے تھے۔

 چاہے ہر کسی کا اپنا تصور کیوں نہ ہو بہرحال ریاست کی بنیاد جدیدیت پہ قائم نہیں ہوئی تھی۔ در حقیقت پاکستان میں جدیدیت کا تصور تصوراتی کی بجائے مادی ہے۔ اور یہ صورت حال آج کے ہندوستان کے تصور جدیدیت سے زیادہ مختلف نہیں۔ ہندوستان میں سالوں کی سیکولر سیاست دائیں بازو کے مذہبی جوش و خروش کو کم کرنے یا اسے اقتدار میں آنے سے نہ روک سکی۔

مغربی جدیدیت جو برصغیرکی  قومی ریاستوں کے قیام کا سبب تھی وہاں کی معاشرتی زندگی کا حصہ نہ بن سکی۔ بس شروع کی دہائیوں  میں اتنا حصہ ضرور تھا کہ زیادہ تر حکمران اشرافیہ کا تعلق شہری زندگی سے تھا اور ان کی طرز زندگی میں مغربی ثقافت کی جھلک تہی۔ سو محمد علی جناح سے لیکر عمران خان تک ہمیں اکثر لیڈروں میں مغربی طرز زندگی تو نظر آتی ہے لیکن بات اس سے آگے بڑھ نہیں پاتی۔

پاکستان اپنے قیام سے ہی اشرافیہ کے کم از کم پانچ ادوار سے گزرا۔ ہر آنے والی  نسل اپنی مقامی ثقافت میں گندھی ہوئی تھی۔ جسکا فاصلہ مغربی روایت سے بتدریج کم ہوتا گیا۔  کس طرح مختلف نسلیں اپنے اردگر کا حصہ بنتی ہیں ہمیں سٹیفن کوہن کی پاکستان پہ لکھی کتاب سے اس نسلی تبدیلی کی سوجھ بوجھ ملتی ہے۔

مثال کے طور پہ امریکی ماہر سیاسیات  سٹیفن کوہن کے بقول فوجی  آفیسرز  میں کس طرح کی تبدیلی آئی کہ  جب سینڈ ہرسٹ اور امریکہ کی اکیڈمیوں کی بجائے وہ  ملٹری اکیڈمی کا کول  سے تیار ہونا شروع ہوئے ۔ جنرل ضیاالحق کا کول اکیڈمی میں پروان چڑھنے والے  آفیسرز کی  پہلی کھیپ میں سے ایک تھے۔

سیاسی اور معاشرتی رول میں ایسے لوگ بھی آگے آنا شروع ہوئے جن کا مغرب سے تعلق کم سے کم ہوتا گیا۔اُسی دوران ریاست بھی بتدریج مذہبی ہوتی گئی کیونکہ اشرافیہ معاشرے میں رائج مذہبی اقدار و ثقافت کے اظہار کے متبادل ذرائع نہ ڈھونڈ سکی۔ جنوبی ایشیا کی سیاست پہ نظر رکھنے والے ڈیوڈ گل مارٹن کے مطابق پنجاب کے پیروں اور گدی نشینوں نے اس شرط پہ کہ اگر وہ اسلامی ریاست کے قیام کا عہد کریں گے جناح کی حمایت کا فیصلہ کیا۔

پاکستان کی تاریخ کے باب میں اس دور کو بھی ذہن میں لانا ہوگا جب معاشرہ 1980 کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف لڑی گئی افغان جنگ کے دوران بتدریج انتہا پسندی کی طرف بڑھنے لگا۔ اس جنگ نے مذہب کو معاشرے کی رگوں میں زیادہ پیوست کردیا۔ رہی سہی کسر اس ذہنی نشو نما نے پوری کی جس کی نمو نسیم حجازی، قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی اور اشفاق احمد نے کی ۔ اس طرح اسلام اور تصوف کو تعلیم یافتہ متوسط طبقے کی ذہنی نشو نما اور ان کے ذہنوں میں قدامت پرستی کے بیج بونے کیلئے استعمال کیا گیا۔

اس سے بڑہ کر مسلۂ یہ تھا کہ آزاد خیال دانشور یہ سمجھ ہی نہ پائے کہ معاشرے کو جدید بنانے کیلئے کچھ حد تک مقامی ثقافت سے جڑنا پڑے گا۔

اس مسلۂ کا ادراک  کمیونسٹ لیڈردادا امیر حیدر کو ہوا جنہوں نے اسلام کی تاریخ سے سوشلزم کی پیچیدگیوں کی مذہبی بنیادوں پر تشریح کرنے کی کوشش کی۔ بدقسمتی سے ان کی سوشلزم کے نظریات میں مقامی روح  ڈالنے کی کوشش سٹالن ازم کے شور میں دب گئی۔

ایسے وقت میں ہم نے دیکھا کہ ثقافت سے اور روایتیں بھی دم توڑنے لگیں جیسا کے کہانی سنانے کی روایت۔ ہمارے ہاں ایسے قصہ گو بھی رہے ہیں جو شہر زاد کی بادشاہ شہریار کو سنائی گئی کہانیوں کی طرح سننے والوں کو دم بخود کر دیتے۔ اور پھر نقل مکانی کی لہر جس نے لوگوں کو اپنی روایتوں سے بچھڑ جانے پر مجبور کردیا۔

سنہ1970 کی دہائی میں مشرق وسطیٰ کی طرف اور دیہاتوں سے شہروں کی طرف لاکھوں لوگوں نے نقل مکانی کی۔جو مشرق وسطیٰ سے واپس آئے وہ اپنے ساتھ  مذہبی رجحانات بھی لائے جو مقامی ثقافت سے میل نہیں کھاتے تھے۔ اور جو دیہاتوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کر کے آئے ان کیلئے دوستانہ ماحول کے غیر مذہبی معاشرتی مرکز نہ ہونے کی وجہ سے مساجد واحد وسیلہ بن گئیں جن کے ساتھ ان کا جذباتی اور روحانی لگاؤ پیدا ہوا۔

قدامت پرستی کے متبادل نہ ہونے کی شدید کمی

وہ نقطہ جسے میں آپ کے گوش گذار کرنا چاہتی ہوں یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں متبادل بیانیے کا فقدان رہا ہے کہ جو لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کراسکے اور لوگوں کو عقلی بنیادوں پر  زندگی گزارنے یا مذہب کو سمجھنے میں مدد کرے۔ لوگوں کی توجہ قدامت پرست نظریات سے اس وقت تک نہیں ہٹائی جاسکتی جب تک لوگ متبادل بیانیے کیلئے  مقامی ثقافت کا سہارا نہ لیں۔ 

اس میں یہ بھی ضروری ہے کہ مقامی ثقافت کے اس رخ کو جو کہ مذاہب کے باوجود پنپ رہا ہو اس کی تمیز کی جاسکے۔ برصغیر کے معاشرے جدید نہیں ہیں۔ مذہبی اور روز مرہ کی زندگی قدامت پرستی کے سائے میں مضبوطی سے پروان چڑھنے کی کئی وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ متبادل بیانیے کا نہ ہونا ہے جو کہ ثقافت سے جڑا ہوا ہو۔ ہمارے ہاں  یا تو مذہب کو مکمل طور پہ گلے لگایا جاتا ہے یا پھر اسے یکسر مسترد کردیا جاتا ہے۔  ثقافت سے جڑا جدید عقل پرستی کی طرف معاشرے کا سفر یا تو پر خار رہا یا پھر اس کا آغاز ہی نہیں ہوسکا۔

پاکستان  میں مذہبی ثقافت صرف اس لیئے نہیں پنپ رہی کہ اس کا تعلق  صرف عام لوگوں کے عقائد ہی نہیں بلکہ اشرافیہ کی ضرورت بھی ہے جس کی وجہ سے جدیدیت آگے بڑھ نہیں سکی ۔اس کے باوجود کہ اشرافیہ بدستور مغربی تعلیم حاصل کرتی ہے اور طاقت ور نوکر شاہی کی بنیاد بھی مغربی ڈھانچے پہ ہے ۔صاحب اقتدار لوگوں کے ثقافتی میل جول میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اشرافیہ اپنا الو سیدھا کرنے کیلئے کبھی جدیدیت اور کبھی مذہب کا، اپنی سہولت کے مطابق، سہارا لیتی رہی ہے۔

ہر زمانے میں مذہب کو ریاستی اداروں میں داخل کیا گیا جسکا نتیجہ ریاست کیلئے کبھی کبھا ر تبا ہ کن ثابت ہوا جس کی واضح مثال 2دسمبر 2003 کا مشرف پر قاتلانہ حملہ ہے جس میں جیش محمد ملوث تھی۔ ایک سینئر پولیس آفیسر کے مطابق تفتیش کار اس خوف کا شکار ہو گئے کہ مسعود اظہر کے شدید اثرات کی وجہ سے شاید بہت سے ائیر فورس کے آفیسرز کی چھٹی کرانی پڑے۔ اس حملے سے پہلے مسعود اظہر کو ائیر فورس میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کی خوب اجازت دی گئی تھی۔ 

جب دہشت پسند ملائیت سے نقصان پہنچا تو حکمرانوں کی توجہ اور قسم کے ملاؤں پر پڑی جو کہ بظاہر کم شدت پسند لیکن مذہبی  تھے اور جدیدیت کے تقاضوں سے محروم ۔ یہ وہی زمانہ ہے کہ الہدی کی فرحت ہاشمی کیلئے ائیر فورس بیسز  اور ایوان صدر کے دروازے کھول دیئے گئیے ۔ جب فاروق لغاری صدر تھے تو فرحت ہاشمی کو اکثر ایوان صدر اور فاروق لغاری کے آبائی مسکن چوٹی زیریں میں مدعو کیا جاتا۔

  انہی دنوں کی بات ہے کہ طارق جمیل کا ستارہ بھی چمکنے لگا اور ان کو سنئیر پولیس آفیسرز ، دوسرے محکموں کے سربراہان اور اشرفیہ کے دوسرے لوگ اپنے ہاں مدعو کرنے لگے۔ جو صورت ریاست اور اسکی اشرافیہ نے بنائی طارق جمیل تو اسکا ایک چھوٹا سا رخ ہیں۔

سیاسی اشرافیہ کے اقتدار میں آنے کیلئے مذہبی رہنماؤں سے سمبندہ

معاشرتی اور سیاسی اشرافیہ سے تعلق کی وجہ سے مذہبی اور بنیاد پرست قوتیں معاشرے میں اپنا ایک مستقل حوالہ بنانے میں کامیاب رہیں۔ صوفی ازم اور بریلویت سے لیکر دیو بندی اور اہل حدیث سب کا اثر معاشرے میں بتدریج بڑھا ۔ بے نظیر کی  پیر آف گولڑا شریف اور بری امام کی زیارتوں پہ جانا  ہمارے حال ہی کے  تاریخ کا حصہ ہیں۔ 

  پیروں  کے مزارات روحانی سکون پہچانے کے علاوہ محترمہ اور دیگر سیاستدانوں کے  اسٹیبلشمینٹ سے روابط کیلئے خفیہ ذرائع بہی ثابت ہوئے۔ ان مزارات کی اہمیت جاننے کے بعد ہی ضیاالحق نے اسلام آباد میں بری امام کے سجادہ نشین کی تبدیلی میں بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ موجودہ سجادہ نشین کو 1980 کی دہائی میں گدی سونپی گئی۔ بالکل اسی طرح رائے ونڈ کے تبلیغی جماعت کے مرکز کو اہمیت ملتی چلی گئی جس کی وجہ سے  نواز شریف اور عمران خان  اور بہت سے سول اور عسکری اداروں کے سربراہ اسکے سالانہ اجتماعات میں شرکت کرنے لگے۔

انہیں دنوں میں ایک اور نوع کے مذہبی عناصر پاکستان کے منظرنامے پہ اجاگر ہونے لگے۔ جن کے پاس مزاروں کی وراثت تو نہیں تھی لیکن وہ صلاحیت پیدا کر چکے تھے کہ لوگوں کو  مذہب کا ایک اور روپ دیکھا نے کے بہانے اقتدار کے ایوانوں میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرسکیں۔ گویا مذہب اس چھتری کی طرح تھا جس کے نیچے لوگ  خاص کر کے جن کا تعلق پڑ ھے لکھے طبقے اور اشرافیہ سے ہے  اکٹھے ہو جاتے۔

یہ مذہبی عناصر ایوان اقتدار میں اپنی رسائی کیوجہ سے لوگوں کو مرعوب کرتے ہیں اور اکثر داد رسی کی وجہ بھی بنتے ہیں۔ یہ وہی طرز ہے جو کہ کبھی جاگیردار سلطنت مغلیہ اور اس کے بعد سلطنت برطانیہ کے اہل کاروں کے ساتھ اپنایا کرتے تھے۔ داد رسی مہیا کرنے سے معاشرے میں بہی ان کی طاقت بڑھتی ہے۔

جوطارق جمیل کے رسوخ کیوجہ سے فکر مند ہیں انہیں پروفیسر رفیق اختر جیسے لوگوں کی سرگرمیوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ وہ ٹیچر تھے جنہوں نے علم العداد اور چہرہ شناسی میں مہارت حاصل کی اور گوجر خان کو اپنا مرکز بنایا۔  کیونکہ ان کا تعلق اس علاقے سے ہے جہاں سے بڑی تعداد میں لوگ فوج میں بھرتی ہوتے ہیں اس طرح وہ بہت سے جنرلوں، افسر شاہی کے نمایاں کارندوں اور بہت سے دیگر بااثر لوگوں  تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔

شروعات میں لوگ پروفیسر اختر کے پاس اپنے ذاتی کاموں جیسے تقرری، ترقی، محبت، شادی اور دیگر ذاتی مسائل کیلئے جانے لگے کیونک وہاں بااثر اور صاحب اقتدار لوگوں کا آنا جانا بھی لگا رہتا تو کبھی کبھار لوگوں کے ذاتی مسائل کا حل بھی مل جاتا۔ شرط صرف یہ ہے کہ پروفیسر اختر کی نگاہ کرم آپ پر کب پڑے اور آپ کا سفارشی کون ہے۔

چونکہ نامی گرامی جنرل اور با رسوخ سیاستدانوں کا وہاں آنا جانا لگا رہتا ہے لوگ یہ سمجھنے لگے کہ ان کے آستانے پہ حاضری ان کے مسائل کا حل ہے ۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ آئی ایس پی آر کے آفسران کی سفارش پر پروفیسر اختر نے چند لوگوں کو سیاسی پارٹیوں سے متعارف کرایا اور انہیں الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ بھی دلوائی ۔ لیکن پروفیسر اختر کے اڈے پر جمع ہونے کا سب سے اچھا بہانہ خاص کر کے صاحب اقتدار کیلئے یہ ہے کہ وہاں انہیں اسلام کو ایک جدید روپ ڈھالنے کی بحث سننے کو ملتی ہے۔ ویسے بھی پروفیسر صاحب ایک ماڈرن آدمی دکھتے ہیں وہ یونان ، رومن اور مغربی تواریخ کے حوالے دیتے ہیں، مغربی لباس پہنتے ہیں اور اپنی گفتگو میں انگریزی زبان کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ان کے اور طارق جمیل کے بیانیے میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ پروفیسر رفیق اختر کی جدیدیت پتلون پہن کر نماز پڑھنے تک محدود ہے لیکن وہ مذہبی افکار میں جدیدیت لانے کی سوچ سے عاری ہیں۔

صحیح اسلام کی تلاش

رفیق اختر کی خاصیت یہ ہے کہ ان کو متوسط طبقے اور اشرافیہ کی ضرورت کی سمجھ آ گئی ہے یعنی کہ مذہب کو جدید طرز سے دیکھنے کی کوشش ۔ ان کا بیان کرنے کا انداز ان کے ان سامعین کیلئے اطمینان کا باعث ہے جو معاشرتی جدیدیت اور مذہبی میل جول میں سے کسی ایک کا فیصلہ نہیں کر پا رہے اور یوں رفیق اختر کا انداز بیان ان کیلئے سکھ کا سانس لاتا ہے۔

پروفیسر رفیق اختر اور جاوید غامدی 9/11 کے واقعے کے بعد منظر عام پر نمودار ہوئے( نمودار  ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پہلے سے موجود نہیں تھے  بلکہ یہ  9/11 کے بعد ابھر کے سامنے آئے) اور اپنی اپنی جگہ اشرافیہ کی ایک ایسے اسلام کی تلاش میں معاون ثابت ہوئے جسے شدت پسندی سے دور سمجھا جا سکتا ہے۔ گو کہ پروفیسر جاوید غامدی ایک منجھے ہوئے عالم ہیں اور اپنی ساکھ کیلئے کسی بااثر طبقے کا سہارا نہیں لیتے لیکن متوسط طبقے اور اشرافیہ کی نظر میں دونوں کی وجہ ضرورت ایک جیسی ہے۔

پچھلی دو دہائیوں سے  پاکستان میں ایسے اسلام کی تلاش رہی ہے جو موجودہ حالات کے تقاضوں کے متقاضی ہو۔ علمی مباحث ثقافتوں کی ترویج کیلئے ضروری ہوتے ہیں۔ لیکن خود ساختہ معاشی و سیاسی عدم استحکا م اور مذہب کو صرف اقتدار کی استقامت کیلئے استعمال کی وجہ سے اس میں فطری ارتقائی عمل رک جاتا ہے۔

اشرافیہ کا صحیح اسلام کا مسلۂ یہی رہ جاتا ہے کہ وہ اپنی محفلوں میں ایک عمل پسند انہ اسلام کی ترویج چاہتے ہیں لیکن عام آدمی کے درمیان وہ مذہب کا درجہ حرارت اپنی مرضی سے اور اپنی ضرورت کے مطابق اونپچا یا نیچا کرتے ہیں۔ یعنی کہ جب امن کی ضرورت پڑے تو امن اور جب دہشت چاہیے تو دہشت ۔

بشکریہ: نیا دور۔۔۔ یہ مضمون انگریزی میں نیا دور میں شائع ہوا

7 Comments