طارق احمد مرزا
اخبار“مڈل ایسٹ مانیٹر” نے خبر دی ہے کہ مصری دارالافتاء کے مفتیان ِ دین شرع متین نے ایک فتویٰ جاری کرکے ترک ڈرامہ سیریز “ارتغرل” کی نشرواشاعت پر پابندی لگا دی ہے۔
واضح رہے کہ مشرق وسطیٰ میں قائم مصری دارالافتاء کا شمار ملتِ اسلامیہ کے قدیم ترین اور اہم ترین اسلامی ادارہ میں ہوتا ہے اور زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق اسلامی فقہ کے مطابق فتوے جاری کرنے کی اتھارٹی رکھتاہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدرمملکت محترم ڈاکٹر عارف علوی بھی کورونا کی وباء کے آغازمیں مذہبی اجتماعات اور مساجدمیں نمازباجماعت کی ادائیگی کے بارہ میں اسی دارالافتاء سے ایک عدد فتویٰ لے کر آئے تھے۔اس فتویٰ کا اسلامی جمہوریہ کے علماء نے کیا حشرکیا،اس پر بھی کچھ بحث ہوگی،لیکن پہلے ارتغرلؔ کے بارہ میں بنائے گئے ترک ڈرامہ سیریز،جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہ حکومت کے حکم پر پاکستان ٹی وی پر دکھایا جا رہا ہے،کے خلاف جاری کردہ اسلامی فتویٰ کی تفصیل ہوجائے۔
اخبارلکھتا ہے کہ مصری دارالافتاء نے بیان جاری کرتے ہوئے ترکی پر الزام لگایا ہے کہ وہ شرق اوسط میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے اور اپنی “سوفٹ طاقت” کامظاہرہ کرنے کے لئے یہ حرکات کررہا ہے۔اس ڈرامہ کا مقصد مشرق وسطیٰ میں ترک سلطنت کا ازسرنو قیام اور ان عرب ممالک پرپھر سے حکومت کرناہے جو کبھی عثمانی تسلط کے ماتحت ہواکرتےتھے۔اس لئے اس ڈرامہ کو دیکھنا منع ہے۔
فتویٰ کے مطابق ارتغرل ڈرامہ کو ایکسپورٹ کرکے یہ لوگ (مراد ترک صدر طیب اردوان اور اس کے پیروکار) ظاہرکرنا چاہتے ہیں کہ وہ خلافت کے وارث ہیں اور دنیابھرکے مسلمانوں کوجبر اور ناانصافی سے نجات دلانے والے وہی ہیں۔ اس کے ساتھ وہ شریعت کے نفاذ کی بھی بات کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی اِن سامراجی مہمات کااصل مقصد مادی اورسیاسی فوائد حاصل کرنا ہے جسے وہ پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں“۔
اخبار لکھتا ہے کہ سعودی عرب کے سب سے بڑے میڈیا گروپ “ایم بی سی” نے (جس کا ہیڈکوارٹر دوبئی میں ہے) سنہ 2018 ء میں ہی ترک ڈراموں اور شوز وغیرہ کونشرکرنے پر پابندی لگا دی تھی تاکہ عوام پران کے کوئی منفی اثرات مترتب نہ ہونے پائیں۔
مصری مفتیان کے علاوہ دارالافتاء جامعہ بنوریہ پاکستان نے بھی اس ڈرامہ کو دیکھنے سے منع کرتے ہوئے کہا ہے کہ :”اس کے تمام واقعات مستند اور تصدیق شدہ نہیں ہیں، بلکہ اس داستان میں سچ اور جھوٹ دونوں کی آمیزش ہے۔۔۔۔کسی بھی جائز مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ناجائز طریقہ اپنانا درست نہیں، خلافتِ عثمانیہ کے تاریخی دور کی روئیداد تاریخ کی کتابوں کے مطالعہ اور اس سے متعلق لٹریچر عام کرکے ہوسکتی ہے؛ اس کے لیے فلم، ڈراما بنانا اور دیکھنا جائز نہیں ہے“۔
مشہوراسلامی سکالر ڈاکٹر ذاکرنائیک نے بھی ایک وڈیوپیغام میں کہا ہے کہ جن لوگوں نے ارتغرل ڈرامہ ابھی تک نہیں دیکھا وہ اسے نہ ہی دیکھیں ،ان کے لیئے یہ حرام ہے۔ ہاں جنہیں فلمیں دیکھنے کی لت پڑی ہوئی ہے وہ اس کی بجائے “دی میسج” یا عمر سیریز دیکھ سکتے ہیں جو نسبتاً بہترہیں۔تاہم انہوں نے اپنے فتویٰ کی بنیاد سیاسی نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات پر رکھی ہے ۔ان کے مطابق چونکہ ارتغرل ڈرامہ میں نامحرم خواتین بغیر حجاب پہنے آزادانہ میل جول کرتی دکھائی گئی ہیں اس لئے یہ حرام ہے۔
قارئین کرام واپس آتے ہیں مصری فتویٰ کی طرف اور اس کی روشنی میں پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کے کردارکی طرف لیکن پہلے یہ حقیقت بیان کرنا مناسب ہوگا کہ اگر مشرق وسطیٰ میں جدید ترک (یعنی اردوانی) خلافت کا قیام عمل میں آتا ہے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ اسرائیل کو ہوگا کیونکہ تمام مسلمان ممالک میں سے سب پہلا ملک ترکی تھا جس نے سنہ 1948 میں اسرائیل کو تسلیم کرلیا تھا اور اب بھی اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔
پاکستانی وزیراعظم عمران خان بھی کابینہ کی ایک میٹنگ میں یہ بیان دے چکے ہیں ہیں کہ ایک “دوست ملک” نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کامشورہ دیاہے۔ظاہر ہے کہ یہ “دوست ملک” ایران تو نہیں ہوسکتا۔
اگر ترک خلیفہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والااور اس کے ساتھ اچھے دوطرفہ تعلقات کا حامل ہو تو اس کے زیر تسلط ،(یا زیر بیعت) سارا اسلامی بلاک اسرائیل کو تسلیم کرنے والا بن جائے گا اور اس میں کوئی حرج نہیں،سوائے اس کے کہ القدس کی “آزادی” کے لئے چندہ اکٹھا کرنے والوں کی دکانیں بند ہو جائیں گی ۔
،(قارئین کے لئے یہ خبر بھی دلچسپی کی حامل ہوگی کہ مصری دارالافتاء الازھرنے القدس کے حق میں نعرے لگانے کے خلاف بھی ایک عدد فتویٰ حال ہی میں جاری کیا ہے !)۔
لیکن اگر نئی ترک خلافت قائم نہیں ہوتی تب بھی اسرائیل کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ترک بلاک کے علاوہ سعودی بلاک بھی اس کے ساتھ پیار کی پینگیں برابربڑھا رہا ہے۔بقول شاعر:”جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یُوں بھی اور یُوں بھی“۔
قارئین کرام اسلامی ممالک کے جن دو بلاکوں کا راقم نے تذکرہ کیا ان دونوں کو پاکستان کے مذہبی پیشوائیان، سیاستدان اور حکمران مختلف مقاصد کے حصول کی خاطر “امت مسلمہ” پرمحمول کرتے ہیں۔ اور اپنے نامعلوم مقاصد کی خاطر ان دونوں بلاکوں کے درمیان اپنی “آنیاں جانیاں “دکھا کرپاکستانی قوم کو “امت مسلمہ ” کالالی پاپ دے کر بہلانا بھی خوب جانتے ہیں۔
ان کے اس مشغلہ سے امریکہ بہادر بھی خوب واقف ہے چنانچہ ڈونلڈ ٹرمپ نےعمران خان کو یہ فریضہ سونپ دیا کہ ایران اور سعودی عرب کےدرمیان “صلح” کروائے۔مقصد پاکستانی قوم کے سامنے موجودہ حکمرانوں کوعالم اسلام کا ہیرو بناکر پیش کرنا تھا۔ماضی میں فوجی آمر ضیاء الحق کو بھی امریکہ نے اسلامی انقلاب کے بعد ایران بھجوایا تھا لیکن آیت اللہ روح اللہ خمینی نے اسے گھاس نہیں ڈالی۔ابھی بھی یہی صورتحال ہے۔
ہمارے لیڈروں کی لیڈری “آنیاں جانیاں” تک محدود رہتی ہی۔اسے تو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ “امت” سے مراد کیا ہے؟۔
مثلاًحال ہی میں جب مودی حکومت نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کا اعلان کیا تو اس وقت ہمارے سربراہ حکومت کیا اورسربراہ مملکت کیا اور اس کے وزیرخارجہ کیا،پکارپکارکر” امت” کے سامنے فریاد کررہے تھے کہ امت ایکشن لے امت ایکشن لے، کشمیر اورکشمیریوں کو بچائے۔امت شاہ کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ دائرکرے وغیرہ۔
اور پھر جب جواب میں اسی امت کے رکھوالوں نے آپ کی پکار سننے کے بعد مودی جی کوالٹا ایوارڈ اور تمغے دینے کا سلسلہ شروع کردیا تو پھر اِس اسلامی جمہوریہ کا وزیرخارجہ اسی امت کوطعنے دینے لگ گیا کہ امت کے رکھوالوں کو تجارتی مفادات عزیز ہیں( یہ آن ریکارڈ ہے)۔
گویا بڑی ڈھٹائی کے ساتھ امت سے کٹ کر امت پر طنز کرنے لگ گئے۔
پھر ہمارے سربراہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ ملائیشیا جاکروہاں کی “امت” کا ساتھ دینا چاہیئے تاکہ مغرب میں اسلاموفوبیا کی بیخ کنی کرنے کی خاطر طیب اردوآن اور مہاتیر محمد جیسے امت مسلمہ کے مسلمّہ رہنماؤں کے ساتھ مل بیٹھ کر مشاورت کی جائے تو پھر آپ کو” امت ” کے ایک اور رکھوالے کی ایک ہی سرزنش نے دبکا کر رکھ دیا کہ “امت” میں انتشار نہ ڈالو۔ اس وقت کی مشیر اطلاعات ڈاکٹرفردوس عاشق اعوان نے اپنے مخصوص بیزارکن اندازمیں لٹک لٹک کربریفنگ دی کہ کچھ لوگ اس کانفرنس کے ذریعہ امت میں انتشارڈلوانا چاہتے تھے،جس کا ہمیں علم نہ تھا اس لئے وزیراعظم نے یہ دورہ منسوخ کردیا“۔ حانکہ یہ کانفرنس کوئی بیس برس سے ہرسال باقاعدگی کے ساتھ ملائشیا میں منعقدہوا کرتی تھی۔
لیکن پھر اس سرزنش اور فیصلہ کو جلد ہی بھلا کر دوبارہ آپ ملائیشیا گارڈ آف آنر لینے چلے گئے اور وہاں پریس کے نمائیندوں کو بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیا کہ نہیں نہیں،ہمیں غلط فہمی ہوگئی تھی اب ہم یہاں کانفنرس میں آیاکریں گے۔
کیاکوئی پوچھ سکتا ہے کہ اب آپ آئیندہ ملائیشیا کانفرنس میں کیوں جائیں گے؟۔پہلے تو غلطی سے مگر اب جان بوجھ کرامت میں انتشار ڈلوانے کا ارادہ ہے کیا؟۔
مسئلہ اصل میں یہی ہے کہ آپ کو “امت” کا تو پتہ ہے ہی نہیں کہ “امت” کیا ہے،اس کی تعریف کیا ہے؟۔
حقیقت یہ ہے کہ آج کی نام نہاد امت کا اس “مسلم امّہ” سے کوئی تعلق یا واسطہ نہیں جو پیغمبرِ اسلام چھوڑ کر گئے تھے۔ جس انتشارِ امت کی بات کی گئی تھی اس سے مراد “ایران مخالف امت” میں انتشارتھا۔ آپ کے جنرل راحیل شریف صاحب کواسی امت کے مفادات کےتحفظ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
پھر جب طیب اردوان نے بھری دنیا کے پلیٹ فارم پہ آپ کی حقیقت کھول دی کہ سعودی عرب کی ایک دھمکی سے ڈر کر اپنے فیصلے بدل لینے والے لوگ ہیں تو قوم میں اپنا نام نہاد بھرم قائم کرنے کے لئے نئی آنیاں جانیاں شروع کردیں۔ مذکورہ کانفرنس ختم ہونے کے بعد ملائشیا کا چکر لگا لیا(بقول اقبال “یہ ناداں جھک گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا“)،اردوان صاحب کو پاکستان کے دورہ پر بلا لیا،اب ارطغرل غازی کا ڈرامہ بھی رچارہے ہیں لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ نہ تو سانپ مرا ہے، نہ ہی لاٹھی بچ پائی ہے۔ ارطغرل غازی کی روح سمیت پوری امت جانتی ہے کہ آپ کا اگلا یو ٹرن اور اس سے اگلا یوٹرن کیا ہوگا ۔آنیاں جانیاں اسی کو کہتے ہیں۔
اب آئیں اس فتویٰ کی طرف جو ہمارے صدرمملکت محترم ڈاکٹر عارف علوی صاحب مصری دارالافتاء سے خوشی خوشی لے کرآئے تھے لیکن جب پاکستانی ملّاوں نے انکا لایا ہوا مصری فتویٰ خریدنے سے انکارکردیا توبجائے حکومت کی (یا مصری فتویٰ) کی رِٹ قائم کرنے کے، آپ نے فٹ سے ان کے سامنے سرتسلیم خم کرکے پاکستانی ملاؤں کی ایک میٹنگ بلائی جس میں پاکستانی شیعہ،بریلوی،دیو بندی،اہلحدیث وغیرہ(جو سب کے سب حضرت مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کے بقول “شیطان کی فصل ” اور آپ کے فیڈرل منسٹرمحترم فوادچوہدری کی تحقیقات کے مطابق پاکستان کے نہیں بلکہ بیرونی طاقتوں کےوظیفہ خور اور ان کے ایجنٹ ہیں ) کو بلا کر ایک 20 نکاتی ایجنڈہ کا اعلان کرکے اسے “اجماع امت” قرار دے دیا۔ اس اجماع امت کا امتیوں نے عملاًجو حشرکیا وہ بھی آن ریکارڈ ہے۔
یہ عجیب اجماع “امت” تھاکہ نہ صرف حرمین شریفین میں اس کے بالکل برعکس عمل ہورہا تھا بلکہ ایران کی پوری مذہبی پیشوائیت بھی اس کے الٹ چل رہی تھی۔ اول تو اس “اجماع” کا دنیامیں کوئی اعلان بھی نہیں کیا گیا تھا کہ پوری مسلم امہ اس میں حصہ لیتی۔
کیا “امت” اب صرف پاکستان میں پائے جانے والے مبینہ بیرونی ایجنٹوں اور ان کے گماشتوں کا نام رہ گیاہے؟۔میٹنگ کا نام اجماع رکھ کرپوری امت کے ساتھ کھیلا جانے والاایک نیا کھلواڑ ایجادکرلیا گیا ہے۔اقبال نے بالکل درست کہا تھا کہ” حقیقت خرافات میں کھو گئی۔یہ امت روایات میں کھو گئی” اور اب تو روایات بھی کہیں غائب ہوچکی ہیں۔
محترم صدرمملکت نے بعد میں حامد میرنامی ایک صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ اس “اجماع امت” کی خلاف ورزی پر حکومت سزا نہیں دے گی۔بلکہ ایسے افراد خدا کے ہاں گنہگارٹھہریں گے۔گویا اپنے خدا کوبھی پابند کردیا کہ فرقہ پرست ملاؤں کے تیارکردہ 20 نکاتی فارمولے کی خلاف ورزی کو بھی گناہ کبیرہ یا صغیرہ کی فہرست کا حصہ بنالے اورآخرت میں اس کی کوئی تعزیر بھی مقررکرے۔ ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیئے۔
قارئین کرام مملکتِ خداداد پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہی رہا ہے کہ یہاں ان کاموں کو خدا پر چھوڑ دیا جاتا ہے جن کی ذمہ داری خدا نے واضح طورپر انسانوں،خصوصاً حکمرانوں پر ڈالی ہوئی ہے ،اور اس کے بالکل برعکس ان کاموں کا ٹھیکہ اپنے ہاتھوں میں لے لیاجاتاہےجو اسلامی تعلیمات کی رو سےخدا نے واضح طورپر صرف اپنے لئے مختص کر رکھے ہیں۔ اسی لئے تو:ع۔
بنے کیونکر کہ ہے سب کار الٹا۔ہم الٹے،بات الٹی،یارالٹا
محترم وزیر اعظم صاحب اور محترم صدر صاحب اسلامی جمہوریہ پاکستان آپ دونوں کی خدمت میں مؤدبانہ التماس ہے کہ ہم سنہ 2020 میں ہیں، آپ کوکوئی خیالی ریاستِ مدینہ بنا کر اس میں “آؤ امت امت کھیلیں” کے کھیل میں قوم کو الجھانے یا کسی ارتغرل کی طرح گھوڑے دوڑا دوڑا کرتگ ودو کرنے اوراس کی طرح نامحرم حسیناؤں سے کام لینے کی ضرورت نہیں ۔ آپ کے زیر اقتدار(اور زیراستعمال) توپہلے سے قائم شدہ ایک بہت بڑاملک ہے جس میں آپ اورآپ کی نہایت مضبوط مسلح افواج بشمول بحریہ و فضائیہ ایک پیج پر ہیں،سول ادارے (بشمول نیب) بھی مستحکم ہیں، آپ کے پاس عالیشان ایوان صدر بھی ہے،ایوان وزیراعظم بھی،آپ صرف اتنا کیجیئے کہ ٹی وی پر مبینہ جھوٹ کی آمیزش پر مبنی غیرملکی ڈرامہ بازیاں دکھانے کی بجائے پاکستان میں جویومیہ 16000 سے زائد بچے پیدا ہوتے ہیں (تقریباً 700 زچہ و بچہ فی گھنٹہ) اور جن میں سے ایک ملین سے زائد بچے 5 برس کی عمر کو پہنچنے سے قبل فوت بھی ہو جاتے ہیں ،آپ صرف ان بچوں کو ہی “سٹنتڈ گروتھ” کا شکار ہو نے سے بچالیں ان کے والدین کو ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دلوا دیں تو آپ ہمارے قومی ارتغرل بلکہ اس سے 16000 گنا بلکہ لاکھوں گنا بڑے قومی محسن اور لیڈر قرار پائیں گے۔
اگر آپ اپنے عرصہ اقتدار میں یومیہ 16000 پیداہونے والے بچوں کو غذائی قلت اور مال نیوٹریشن سے مستقل بنیادوں پر بچاانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ارتغرل کی قوم بھی ارتغرل کا ڈرامہ دیکھنے اور دکھانے کی بجائے آپ دونوں کے اس کارنامے پر مبنی دستاویزی سیریل دکھانے پر مجبور ہو جائے گی۔خود تو ترک قوم ارتغرل کی کی ہوئی ساری محنت اور جدوجہد پر سو برس قبل پانی پھیرکر دنیا کے سٹیج پر اس ڈرامے کا انتہائی مایوس کن ڈراپ سین بھی پیش کرچکی ہے جو اس حقیقت پر دال ہے کہ یہ زمانہ ارتغرل کا نہیں۔
حوالہ جات:۔
https://www.middleeastmonitor.com/20200212-egypt-fatwa-bans-ertugrul-turkish-soaps/
(https://www.middleeastmonitor.com/20200227-egypt-fatwa-bans-chants-in-support-of-al-aqsa-in-saudi/
https://www.banuri.edu.pk/readquestion/(برائے بنوری فتویٰ)
https://www.youtube.com/watch?v=g5zXTjevOWI (برائے ذاکرنائیک)