رضوان عبداللہ
ملک کے ایک طاقتور ادارے کے، طاقتور افسر کی، طاقتور رشتے میں منسلک خاتون نے بلڈی سویلین کی لگائی گئی رکاوٹ کے سامنے رکنا گوارہ نہیں کیا، اور یہی وجہ کرنل صاحب کی بیوی اور بلڈی سویلین کے درمیان یک طرفہ ’’تُو تڑاخ‘‘ کا باعث بن گئی۔
خاتون کی سمجھداری کہیں کہ انہوں نے صرف صلواتوں سنانے پر اکتفا کرتے ہوئی اپنی مدد کے لئے کمک نہیں بلائی ورنہ جنرل راحیل شریف کے دور کے وہ مناظر دوبارہ دیکھے جا سکتے تھے، جب خیبرپختون خوا میں فوجی افسروں نے چالان کرنے پر نیشنل ہائی ویز کے افسروں کو بپچ سڑک میں خوب مارا پیٹا گیا تھا۔
موٹروے پولیس کی درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق، فوجی افسر اور جوان انہیں زودکوب کرنے کے بعد اٹھا کر اٹک قلعہ میں لے گئے جہاں انہیں حبس بے جا میں رکھا گیا۔ بعد میں موٹروے پولیس کے اعلیٰ افسران نے منتوں ترلوں سے ان اہلکاروں کی جان خلاصی کرائی۔
معاملے کا سوشل میڈیا پر چرچا ہوا تو اس وقت کے ڈٰی جی آئی ایس پی آر عاصم باجوہ تھے، انہوں نے یقین دہانی کروائی تھی کہ اس واقعہ کو قانون کے تحت نمٹا جائے گا۔ اب واللہ علم خطاوار کو سزائیں ہوئیں یا نہیں، یہ تو شاید مدعی کو بھی معلوم نا ہوپاہا ہو گا، کیونکہ فوجی اصولوں کے مطابق حساس معلومات عام نہیں کی جاتیں۔
خیر درج ذیل واقعہ پر بھی غور کیا جائے تو اس کی صرف ایک وجہ نظر آتی ہے کہ ملک میں قانون اور آئین کی وقعت نا ہونے کی وجہ اداروں میں توازن نہیں ہے۔ لاٹھی والوں نے، لاٹھی کی وجہ سے خود کو حاکم اور دوسروں کو محکوم بنا لیا ہے۔ کرنل صاحب کی بیوی کی گفتگو بھی اسی کی غمازی کرتی ہے، ان کی ہرزہ سرائی کے پیچھے فقط متعلقہ ادارے کی برتری کا زعم نظر آتا ہے۔ جس میں وہ شاید غلط بھی نہیں، کیونکہ اگر حقائق کو پرکھا جائے تو اس احساسِ برتری کی وجوہات بھی ڈھکی چھپی نہیں۔
خاتون نے اس پھڈے میں کئی جگہ رعب جھاڑا کہ وہ کرنل کی بیوی ہیں، ایک جگہ تو ان کا منہ سے نکلا جملہ یہ تھا کہ میں آرمی آفیسر کی بیوی ہوں کوئی معمولی بات نہیں ہے! وہ جس غیر معمولی ادارے کی نسبت سے خود کو غیر معمولی قرار دے رہی ہیں، ماضی میں اس ادارے کے غیرمعمولی سربراہان پانچ مرتبہ آئین کو توڑنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
کہنے کو تو یہ غیر معمولی عمل سنگین غداری کے زمرے میں آتا تھا، جس پر وہ غیر معمولی سزاوں کی مستحق تھے، لیکن اس کے برعکس ملکی آئین نے انہیں غیر معمولی تحفظ فراہم کیا ہے۔ یوں خاتون کا اپنے غیر معمولی ہونے پر اترانا نا صرف سو فیصد بجا تھا بلکہ وہ اپنے غیر معمولی رویے پر بھی برحق تھیں۔ یہ تو سراسر بلڈی سویلین کی نااہلی تھی کہ وہ اس کا ادراک نہیں کر پائے اور اپنے معمولی پنے میں آ کر گاڑی کے نیچے آنے کو تیار تھے۔
اس واقعہ میں انصاف کی امید رکھنا تو گویا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ نا تو ہمارے ہاں آئین اتنی وقعت رکھتا ہے اور نا ہی قانونی ادارے اتنی سکت رکھتے ہیں کہ وہ اپنے قدموں پر چلتے ہوئے اس معاملہ کی بابت معلوم کرسکیں۔ بے پر کی یہ اڑائی جارہی ہے کہ خاتون کے شوہر جو خود بھی دو سال قبل اسی قسم کے واقعے میں ملوث رہے ہیں، ان کو سزا کا مستحق بنایا جائے گا۔ یقین کرنا اس لئے مشکل ہے کہ ہم بلڈی سویلین اپنی اوقات سے بخوبی آگاہ ہیں۔
♦